نریندر مودی کی جانب سے بھارتی شہریوں کو غیرملکی مصنوعات کے بائیکاٹ اور مقامی (سودیشی) مصنوعات کے استعمال کی اپیل نے بھارت کے اقتصادی اور سیاسی منظرنامے میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بھارت کے امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات میں کشیدگی عروج پر ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارتی مصنوعات پر بھاری ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد مودی کی سودیشی مہم بھارت کے لیے اہم خیال کی جا رہی ہے۔ یہ اقدام بظاہر ایک اقتصادی حکمت عملی لگتا ہے‘ لیکن اس کے پیچھے کئی سیاسی‘ سماجی اور جغرافیائی اسباب کارفرما ہیں۔ ذیل کی سطور میں ہم اس اقدام کے محرکات‘ اس کی ممکنہ کامیابی اور اس سے جڑے چیلنجز کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
مودی سرکار کی جانب سے غیرملکی مصنوعات کی بائیکاٹ مہم کے دو بنیادی محرکات ہیں۔ پہلا یہ کہ مودی کی یہ اپیل مسلم دنیا میں اسرائیل کے خلاف جاری معاشی بائیکاٹ کی مہم کی نقل ہے کیونکہ مسلم ممالک کی جانب سے بائیکاٹ مہم فلسطین کے حق میں ایک مضبوط اور مؤثر آواز بن کر ابھری ہے اور اس مہم نے عالمی سطح پر اسرائیل کی معیشت پر کسی حد تک منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ مودی حکومت خود کو بظاہر مضبوط اور اہم اقتصادی ریاست کے طور پر پیش کرتی ہے‘ شاید اس کامیابی سے متاثر ہو کر وہ یہ سمجھتی ہے کہ معاشی بائیکاٹ مہم کے ذریعے وہ بھی اپنے سیاسی اور اقتصادی مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔ بائیکاٹ مہم کو کامیاب بنانے کے لیے بھارت میں ایک خاص قسم کے قوم پرستی کے جذبے کو فروغ دیا جا رہا ہے جس میں مودی ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ بھارت کو بیرونی اثرات سے پاک کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ دوسرا محرک امریکہ کے ساتھ تجارتی کشیدگی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے بھارت کی برآمدات پر بھاری ٹیرف عائد کیے تھے جس نے بھارتی صنعتوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس غیرمتوقع اور سخت اقدام کے جواب میں مودی حکومت نے بائیکاٹ کا راستہ اپنایا تاکہ اندرونی طور پر پیداوار اور کھپت کو فروغ دے کر اس دباؤ کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس اعتبار سے بھارت کی بائیکاٹ مہم مجبوری میں اٹھایا جانے والا ایسا قدم معلوم ہوتی ہے جس کا مقصد امریکی ٹیرف کے اثرات کو کم کرنا اور مقامی معیشت کو سہارا دینا ہے۔ یوں غیرملکی مصنوعات کی بائیکاٹ مہم کی حیثیت دفاعی حکمت عملی سے زیادہ نہیں ہے۔
مودی کی جانب سے غیرملکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم بظاہر ایک پُرکشش سیاسی نعرہ ہے مگر اس مہم کی کامیابی ایک پیچیدہ معاشی اور سماجی حقیقت کے پیش نظر غیریقینی ہے۔ سب سے بڑا چیلنج بھارتی صارفین کی ذہنی اور عملی وابستگی ہے۔ ایک ارب 40 کروڑ سے زائد کی آبادی والے ملک میں جہاں متوسط طبقہ تیزی سے بڑھ رہا ہے‘ صارفین برانڈڈ اور غیرملکی مصنوعات کے اسیر ہو چکے ہیں۔ یہ رجحان صرف اعلیٰ طبقے تک محدود نہیں بلکہ چھوٹے شہروں اور دیہات تک بھی پہنچ چکا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ بھارتی شوبز انڈسٹری ہے جس کا براہِ راست انحصار ان عالمی برانڈز کی تشہیر پر ہے۔ فلمی ستارے‘ کرکٹ کے کھلاڑی اور دیگر مشہور شخصیات ان مصنوعات کے سفیر ہوتے ہیں اور لاکھوں لوگ ان کی تقلید کرتے ہیں۔ اگر مودی اس مہم کو جاری رکھتے ہیں تو کیا وہ اپنی سب سے منافع بخش انڈسٹری یعنی شوبز کو خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار ہوں گے؟ کیا شوبز انڈسٹری سے وابستہ افراد اس مہم کا حصہ بنیں گے اور اپنی آمدنی کے اہم ذرائع کو ترک کر دیں گے؟ یہ سوالات اس مہم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس ضمن میں بھارت کی مقامی صنعت کی پیداواری صلاحیت بھی ایک اہم رکاوٹ ہے۔ کیا بھارت کی مقامی صنعت ایک ارب 40 کروڑ لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کی سکت رکھتی ہے؟ بڑے پیمانے پر غیرملکی مصنوعات کی درآمدات اس بات کا ثبوت ہیں کہ مقامی پیداوار ملک کی تمام ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی۔ اگرچہ بائیکاٹ سے مقامی صنعت کاروں کو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن کیا وہ اس مانگ کو پورا کر پائیں گے؟ کیا وہ معیار‘ قیمت اور مقدار میں بین الاقوامی مصنوعات کا مقابلہ کر پائیں گے؟ ان سوالوں کا جواب شاید نفی میں ہے۔ سودیشی مصنوعات کی دستیابی اور معیار سے متعلق خدشات اس مہم کی کامیابی کو کم کر سکتے ہیں۔
مودی نے اگرچہ اس مہم میں کسی خاص ملک کا نام نہیں لیا ہے لیکن ان کا اشارہ واضح طور پر ان ممالک کی طرف ہے جن کے ساتھ بھارت کے تجارتی تعلقات کشیدہ ہیں‘ جن میں امریکہ اور چین سرفہرست ہیں۔ حالیہ سرحدی تنازعات کے بعد چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیلیں بھی زور پکڑ چکی ہیں۔ مودی کی اس مہم کو اندرونی طور پر قوم پرستی کے جذبات کو ابھارنے اور اپنی سیاسی ساکھ کو مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس پس منظر کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ نریندر مودی کی غیرملکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم بظاہر ایک غیرواضح اور کمزور حکمت عملی ہے۔ بائیکاٹ کی اپیل تو کی گئی ہے لیکن کسی ملک کا نام نہیں لیا گیا۔ یہ بظاہر ایک انجانے خوف کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے جہاں مودی حکومت خود بھی نہیں چاہتی کہ براہِ راست کسی ملک کا نام لے کر اپنے شہریوں کے لیے بین الاقوامی سطح پر مزیدمشکلات پیدا کرے۔ اس غیر واضح پالیسی کا نتیجہ یہ ہے کہ شہری شدید اُلجھن کا شکار ہیں کہ وہ کس ملک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں اور کس کی مصنوعات کا نہیں۔ اس طرح یہ بائیکاٹ مہم اپنے مقصد کے حصول میں ناکام ہو سکتی ہے‘ اس کے الٹا منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں کیونکہ بغیر کسی واضح ہدف کے معاشی بائیکاٹ محض ایک کھوکھلا نعرہ بن کر رہ جائے گا۔ قوم پرست حلقوں میں اگرچہ مودی کی اپیلیں جوش پیدا کر سکتی ہیں‘ لیکن کیا عوام کی اکثریت اپنی روزمرہ زندگی میں اس پر عمل کریں گے؟ کیا وہ اپنی پسندیدہ غیرملکی مصنوعات کی جگہ کم معیار کی مقامی مصنوعات استعمال کرنے کو تیار ہوں گے؟ یہ مہم ایک اقتصادی تدبیر سے زیادہ ایک سیاسی بیان لگتی ہے۔ یہ دیکھنا اہم ہو گا کہ کیا مودی کی سودیشی مہم ایک حقیقی اقتصادی تبدیلی لاتی ہے یا صرف ایک سیاسی نعرہ بن کر چند دن کے بعد دفن ہو جاتی ہے؟
نریندر مودی کی سودیشی مہم کا مستقبل متعدد سوالات سے گھرا ہوا ہے۔ جس طرح حال ہی میں بھارت کو بیانیے کی جنگ میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا‘ کیا اسی طرح یہ معاشی بائیکاٹ کی مہم بھی ناکام ہو گی؟ کئی بھارتی تجزیہ کار اب یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ ملک کے پاس ٹیلنٹ اور مالی وسائل کی کمی نہیں لیکن واضح ویژن کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ مہم اگر محض ایک جذباتی نعرہ بن کر رہ جاتی ہے اور اس کے پیچھے کوئی ٹھوس اقتصادی منصوبہ بندی نہ ہوئی تو یہ بھی بیانیے کی جنگ کی طرح ناکامی کی ایک اور مثال بن سکتی ہے۔ اس مہم کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ کیا یہ صرف ایک اپیل سے بڑھ کر ایک پائیدار اور حقیقی اقتصادی تبدیلی کا باعث بنتی ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا مودی اس میں شامل اہم سٹیک ہولڈرز‘ بالخصوص شوبز انڈسٹری کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوں گے؟ بصورت دیگریہ اقدام بھی ویژن کی کمی کی ایک اور مثال بن جائے گا اور مودی کی پالیسیوں کی ناکامیوں کی فہرست میں ایک اور ناکامی کا اضافہ کرے گا۔