پاکستان اور افغانستان کے مابین سکیورٹی و سرحدی کشیدگی کو ختم کرانے اور دیرپا امن کی بنیاد رکھنے میں دو برادر اسلامی ممالک قطر اور ترکیہ کا کردار کلیدی اور قابلِ تحسین ہے۔ ان ممالک کی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان مذاکرات کا انعقاد ممکن ہوا۔ سعودی عرب اور چین نے بھی پس منظر میں رہتے ہوئے نہایت مثبت کردار ادا کیا۔ قطر کی میزبانی اور ترکیہ کی ثالثی میں ہونے والے ان اہم مذاکرات میں فوری جنگ بندی اور پائیدار امن کے لیے قابلِ عمل میکانزم بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ اس معاہدے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں افغان وزیر دفاع مُلا یعقوب بھی شامل تھے‘ جو پاکستان کے حوالے سے سخت گیر مؤقف رکھنے والے افغان رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ شاید پہلا موقع ہے کہ افغان وزیر دفاع کو عالمی فورم پر معاملات سلجھانے کا موقع ملا۔ انہوں نے برادر اسلامی ممالک کو یہ یقین دہانی کرائی کہ افغان سرزمین کو کسی بھی صورت میں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ یہ سیز فائر معاہدہ حقیقت میں پاکستان کی ایک بڑی سفارتی اور سکیورٹی کامیابی ہے۔ یہ معاہدہ ہمارے اس واضح اور غیرمبہم مطالبے کی جیت ہے جس میں افغانستان سے پاکستان کی سرزمین پر ہونے والی دہشت گردی کی ہر قسم کی حمایت اور سہولت کاری کے خاتمے کا تقاضا کیا گیا تھا۔ یہ معاہدہ پوزیشن آف سٹرینتھ سے کیا گیا کیونکہ پاکستانی افواج نے زمینی سطح پر دہشت گرد عناصر اور ان کے سہولت کاروں کو سخت سبق سکھانے کے بعد یہ سفارتی راستہ اپنایا۔ معاہدے کی تفصیلات کو عوامی سطح پر جاری نہ کرنا اور مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنا اس حقیقت کا مظہر ہے کہ افغانستان کو اپنی ساکھ بچانے اور اندرونی طور پر معاملات کو سنبھالنے کا موقع دیا گیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کی سرزمین پر افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کا سلسلہ فی الفور بند ہو گا۔ تفصیلی معاملات پر بات چیت اور معاہدے پر عملدرآمد کی نگرانی کیلئے پاک افغان وفود کے درمیان آئندہ ملاقات 25 اکتوبر کو استنبول میں ہو گی۔
اس سیز فائر معاہدے سے سب سے زیادہ مایوسی بھارت کو ہوئی ہو گی جس کی خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی ساری سازشیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ بھارت افغانستان کو مسلسل پراکسی کے طور پر استعمال کر رہا ہے تاکہ پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دے سکے‘ لہٰذا اس سیز فائر کی سب سے زیادہ تکلیف بھی اسی کو ہو رہی ہے۔ بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان اور افغانستان افہام و تفہیم سے اپنے دیرینہ مسائل کو حل کر لیں۔ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ افغان قیادت بھارت کی تخریبی سوچ اور سازشوں کو اپنی سرزمین پر پنپنے سے روکے۔ یہ سیز فائر معاہدہ صحیح سمت میں اٹھایا گیا پہلا قدم ہے‘ تاہم اس کی حقیقی کامیابی کا انحصار افغانستان کی جانب سے معاہدے کی مکمل پاسداری پر ہے۔ اگر افغانستان اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہونے دیتا تو یہ سمجھا جائے گا کہ وہ معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے۔ بصورت دیگر یہی سمجھا جائے گا کہ افغانستان نے صرف اپنے وقتی مفاد کیلئے اور برادر اسلامی ممالک کی بات مان کر محض ایک وقتی معاہدہ کیا۔ پاکستان ہمیشہ سے تنازعات کے حل کیلئے مذاکرات کا نہ صرف حامی رہا ہے بلکہ متعدد بار سنجیدہ کوششیں بھی کیں کہ پاک افغان تنازعات کا پائیدار حل مذاکرات کے ذریعے نکل آئے‘ مگر افغانستان نے ہمیشہ عدم تعاون کا مظاہرہ کیا۔ اس معاہدے کی ایک مثبت جہت مُلا یعقوب کی شمولیت تھی‘ مگر ان کی طرف سے غیرسنجیدہ بیانات نے فضا کو ایک بار پھر کشیدہ کر دیا ہے۔
اس وقت افغانستان میں موجود کچھ عاقبت نااندیش عناصر ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے ایک غیرضروری پروپیگنڈا پھیلانے میں مصروف ہیں کہ وہ اس لکیر کو نہیں مانتے۔ یہ ایک انتہائی خطرناک اور غیرحقیقت پسندانہ بات ہے۔ اس کی خطرناکی کا اندازہ اس وقت شدید ہو گیا جب افغان وزیر دفاع مُلا یعقوب نے معاہدے کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے ہی میڈیا پر آ کر یہ بیان دے دیا کہ ''ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ اپنی جگہ پر برقرار ہے اور یہ کہ اس حوالے سے افغانستان کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی‘‘۔ حالانکہ ڈیورنڈ لائن بین الاقوامی سطح پر ایک تسلیم شدہ سرحد ہے‘ اسی لیے پاکستان ڈیورنڈ لائن کو دو ملکوں کے درمیان سرے سے کوئی تنازع ہی نہیں سمجھتا‘ افغانستان نے اسے خود ساختہ تنازع بنا لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ڈیورنڈ لائن سے اندر اپنی حدود میں ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں۔ جب افغان قیادت ڈیورنڈ لائن کو محض ایک ''لکیر‘‘ سے تعبیر کرتی ہے اور اس کی بین الاقوامی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتی تو پھر اس کے امن معاہدوں پر عملدرآمد کے ارادوں پر سوال اٹھتے ہیں۔ کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ افغان طالبان دنیا کے سامنے وقت گزاری کیلئے دھوکا دے رہے ہیں اور مسئلے کی اصل جڑ کو ختم ہی نہیں کرنا چاہتے؟ اگر افغانستان کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے اس طرح کی غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ باتیں کی جائیں گی تو پھر امن معاہدے پر عملداری مشکل ہو جائے گی۔ دیرپا اور پائیدار امن کیلئے افغانستان کو نہ صرف کالعدم تنظیموں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرنا ہو گی بلکہ ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی اصولوں کے تحت تسلیم کرنا ہو گا۔
کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ افغانستان پاکستان کے ساتھ تجارت کا فروغ چاہتا ہے مگر باہمی تنازعات کی جڑوں کو ختم کرنے پر آمادہ نہیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان صدیوں پرانے تاریخی اور ثقافتی رشتوں سے جڑی تجارت کی اہمیت غیرمعمولی ہے‘ خصوصاً افغانستان کیلئے جو کہ ایک لینڈ لاکڈ ملک ہونے کی وجہ سے اپنی زیادہ تر تجارت کیلئے پاکستان کی بندرگاہوں اور زمینی گزرگاہوں پر انحصار کرتا ہے‘ جہاں لسانی اور ثقافتی آسانی بھی موجود ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ افغانستان کو تجارت کیلئے جیسا سازگار ماحول پاکستان میں میسر ہے ویسا دوسری کسی بھی جگہ میسر نہیں۔ اس صورتحال کا تقاضا تھا کہ افغان قیادت پاکستانی منڈی کی قدر کرتی اور اپنی سرزمین پر شدت پسند عناصر کے خلاف ایسے اقدامات کرتی کہ جس سے دوطرفہ تجارت میں خلل نہ آئے۔ اسی طرح افغانستان کو خود کو بھارت کی پراکسی بننے سے بچانا ہو گا۔ پاک افغان حالیہ کشیدگی کے دوران بھارت کی جانب سے یہ جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا کہ پاکستان نے افغانستان پر حملے میں سول آبادی اور افغان کرکٹرز کو نشانہ بنایا۔ یہ بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف تعصب پر مبنی ایک سازش تھی۔ افسوسناک طور پر آئی سی سی نے کابل‘ اسلام آباد یا افغان کرکٹ بورڈ سے اس کی تصدیق کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور بغیر کسی تحقیق یا تصدیق کے بھارتی مؤقف کی لفظ بہ لفظ تقلید کرتے ہوئے ایک پریس ریلیز جاری کر دی۔ حقیقت یہ ہے کہ افغان کرکٹ بورڈ کے ریکارڈ میں ایسے کسی کھلاڑی کا کوئی وجود نہیں‘ نہ ہی ان علاقوں میں کوئی اکیڈمی یا کرکٹ کلب موجود ہے‘ حتیٰ کہ ان ناموں سے افغان کرکٹ حلقے بھی ناواقف ہیں۔ افواج پاکستان نے جب معرکۂ حق میں بھارت کے عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا تو وہ ایک برادر اسلامی ملک پر ایسی جارحیت کیوں کریں گی؟
دوسری جانب افغان طالبان کی طرف سے افغانستان میں موجود پاکستانیوں کی واپسی میں مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں۔ افغانستان میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھارتی بیانیے کی ترویج کا تسلسل لگتا ہے۔ جب تک افغان قیادت بھارتی منفی سوچ سے باہر نکل کر نہیں سوچے گی اور اس کی سازشوں کو اپنی سرزمین پر ختم نہیں کرے گی‘ خطے میں دیرپا امن کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا۔ پائیدار امن کا راستہ صرف اور صرف اعتماد‘ ذمہ داری اور بین الاقوامی اصولوں کے احترام ہی سے ممکن ہے۔