"RBC" (space) message & send to 7575

لندن کی آوارہ گردی

ویسے تو ہمارا ہر دن یادگار ہوتا ہے‘ مگر کوئی ایک دن کبھی کبھار ایسا بھی آتا ہے جب اُس کی یادوں کی مہک زندگی کو خوشبودار بنا دیتی ہے۔ اس میں بکھرے رنگ ذہن کے افق پر قوس قزح بنائے رکھتے ہیں۔ جب کبھی دنیاوی امور میں الجھا ہوا مصروف ذہن اس طرف نکل جائے تو وہ تصویری خبرنامے کی طرح ہمارے اندر کے سینما گھر میں جلوہ گری دکھاتا اور اپنے رنگ بکھیرتا ہے۔ کوشش تو یہ ہونی چاہیے کہ ہم سب کا ہر دن ایسا ہو‘ مگر کولہو کے بیل کی زندگی گزارنے کے عادی ہو جائیں تو جیسے اُس بیل کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر سارا دن تیلی اُسے چلنے پر مجبور کرتا ہے‘ تو پھر دو آنکھیں اور اندر کی آنکھ کچھ نہ دیکھ سکیں گی اورنہ کوئی چیز ہماری یادوں میں جذب ہو گی‘ یا یادداشت کے خزانے میں جمع ہو گی کہ جب فرصت میں خواہش ہو تو اُسے ایک نظر پھر سے دیکھ لیں۔ کیمروں میں فطرت کے نظاروں سے لے کر یادگار لمحوں تک کو محفوظ کرنے کی پرانی روایت ہے‘ مگر دل کے کیمرے کی بات ہی کچھ اور ہے کہ ایک مرتبہ کوئی تصویر نقش ہو جائے تو عمر گزر جائے‘ آخری دم تک اسی طرح شگفتہ اور تازہ رہتی ہے۔
ہم آوارہ گرد قسم کے لوگ ہیں‘ جس کا مطلب ایسی راہوں پر چلنا ہے جہاں عام لوگوں کا گزر نہیں ہوتا۔ چلیں وہی مطلب نکال لیں جو آپ کے ذہن میں ممکنہ طور پر ہوگا۔ بے مقصد ادھر اُدھر پھرنا اور ایسے خیالوں اور طرزِ زندگی سے وابستگی جو عرفِ عام میں غیر صحت مند ہو۔ ہم تو اُن معنوں میں لے رہے ہیں جو ابن انشا کی ''آوارہ گرد کی ڈائری‘‘ پڑھیں تو ایک تصور ابھرتا ہے۔پروفیسر افتخار حیدر ملک کے ساتھ ایسی آوارہ گردی کی طویل داستان اور گہری تاریخ ہے‘ جو اس زمانے میں شروع ہوئی جسے آتش جوانی کہتا ہے‘ مگر ہم اُس کی دہلیز پر قدم رکھنے سے گریزاں تھے۔ باون سال پہلے کا اسلام آباد اور قائداعظم یونیورسٹی کے پہلے چند سال جب عمارتیں تازہ اور پورے علاقے میں جنگلات ہی جنگلات تھے‘ شہر آبپارہ اور زیرو پوائنٹ تک محدود تھا‘ اتاترک ایونیو‘ جسے ابھی تک ہم جیسے لوگ ایمبیسی روڈ کہتے ہیں‘ میلوڈی اور سپر مارکیٹ۔ اور صرف چار سیکٹر تھے۔ مارگلہ کا کوئی راستہ‘ کوئی پہاڑی اور کوئی نالہ ایسا نہیں جس کا اُس زمانے میں ہم نے چپہ چپہ نہ چھان مارا ہو۔ جہاں آپ آج کل ہر صوبے کا اپنا ایوان دیکھتے ہیں‘ اور جہاں کبھی کبھار گھوڑوں کو حفاظت کے ساتھ رکھا بھی جاتا ہے‘ اور خرید وفروخت کی منڈی لگتی ہے‘ وہاں چھپر ہوٹل ہوا کرتے تھے جہاں تھک ہار کر ہم دال پراٹھا اور تازہ ابلتی ہوئی چائے سے تازہ دم ہوتے اور چارپارئیوں کے کنارے بیٹھ کر‘ غیر سیاسی پارٹی کا ماحول بنا لیتے۔ چلتے پھرتے جنگلوں اور پہاڑیوں میں گھومتے اور دال پراٹھے پر ہاتھ صاف کرتے وقت ہم خواب امریکہ کے دیکھا کرتے تھے کہ کیسے وہاں اعلیٰ تعلیم کے لیے جانے کا بندوبست کریں۔ مالی اسباب تو ہمارے کمزور تھے‘ مگر خواب اور ارادے طاقتور۔ اس زمانے میں ہم زیادہ سے زیادہ کوئی پانچ دس سال پرانا سہراب یا ایگل کا سائیکل ہی خرید سکتے تھے۔ ایسے سائیکل کو بریک لگانے کے لیے ہم جیسے ماہرین پہیے پر پائوں رکھ کر روک لیتے تھے۔ اور خواب یہ کہ اگر وہ آخری ڈگری لینی ہے تو وہ امریکہ کی کسی جامعہ کی ہو گی۔ ہم دونوں قائداعظم یونیورسٹی میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔ افتخار حیدر ملک دراز قامت اور کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں‘ اور انہیں گفتگو کرنے اور لکھنے کا جو ملکہ حاصل ہے‘ وہ ہم جیسوں کے حصے میں بس اتنا ہی آیا ہے جس سے گزارا چل سکتا ہے۔ ایک سال میں انہوں نے اعلان کیا کہ سکالرشپ مل گیا ہے اور وہ جا رہے ہیں۔ جس دن راولپنڈی کے ہوائی اڈے پر انہیں رخصت کرنے گئے‘ اسی دن ہمارا ارادہ بھی پہلے سے زیادہ طاقتور ہونے لگا‘ مگر ہمیشہ کوئی کہتا کہ وہ دو سو ادھار تو واپس کرو‘ امریکہ میں تعلیم کا پھر سوچنا۔ تو ہم کہتے: افتخار گیا ہے تو ہم بھی جائیں گے۔ چند سال بعد ہمیں بھی بلاوا آگیا‘ا ور تین سال بعد ہم واپس آ گئے۔
پروفیسر ملک اور ہم 80ء کی دہائی کے پہلے سالوں میں اعلیٰ ڈگری ہاتھوں میں تھامے اکثر سوچتے کہ گزارا کیسے کریں‘ اور یہ نہ ہو کہ ہم مغرب کی علمی دنیا سے کٹ کر یہاں جمود کا شکار ہو جائیں۔ کہانی بہت لمبی ہے‘ مگر ہمیں بے شمار مواقع ملے‘ اور افتخار ہم میں سے زیادہ متحرک اور بااثر ثابت ہوئے۔ ہماری بدقسمتی‘ اور ہماری جامعات کی‘ کہ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں ٹھکانہ بنا لیا جہاں اب وہ آسودگی‘ سادگی اور اُسی شگفتگی کے ساتھ کئی علمی دھاروں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ میرے لیے وہاں جانا ذرا مشکل تھا مگر یہ حسرت لیے واپس نہیں لوٹنا چاہتا تھا کہ افتخار سے ملاقات نہ ہو سکی۔ بات ختم کرنے سے پہلے ہی کہہ دیا کہ لندن آ جاتا ہوں۔
برٹش لائبریری اور ہائیڈ پارک‘ دو ایسی جگہیں ہیں جہاں نہ جائوں تو برطانیہ کا سفر بے مقصد لگتا ہے۔ چند گھنٹوں تک تو لائبریری میں انیسویں صدی کے سرحدی علاقوں اور افغانستان سے متعلق مواد حاصل کرکے دیکھا۔ اس دوران اُن کا یہاں منتظر رہا۔ پہلے تو ہم نے وہاں قرونِ وسطیٰ کی خواتین پر لگی نمائش دیکھی ‘ اس سے قبل شیکسپیئر کی تمام تصانیف کے قلمی نسخے اسی نمائش کے کونے میں دیکھ چکا تھا۔ کیا بتائیں یہ دنیا ہی کچھ اور ہے اور جو اس میں گم ہیں اور گم ہی رہتے ہیں انہیں کسی اور چیز کی خبر تک نہیں ہوتی۔ لائبریری سے باہر نکلے تو ایک بج چکا تھا اور باہر لمبی قطار لگی ہوئی تھی۔ اندر بھی جگہ نہیں تھی۔ یہ دس منزلہ عمارت ہے اور دو تین ایکڑوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس کے بارے میں پھر کبھی سہی۔
جمعرات کے دن کی ہماری آوارہ گردی لائبریری سے شروع ہوئی۔ ایک کیفے میں سینڈوچ کے مختصر ظہرانے سے گزرتی لندن یونیورسٹی کے کافی بار میں کچھ دیر رکی۔ کافی کا گلاس لبریز ہو‘ گرم بھی اور مشین سے تازہ نکلا ہو تو پھر افتخار ملک کی گفتگو کا رنگ ہی بدل جاتا ہے۔ اس دوران میرا دھیان ایک زمانے کے اسلام آباد کے چھپڑ ہوٹل کے دال پر اٹھے اور میٹھی چائے کی طرف بھی بھٹک جاتا۔ کچھ دیر تو ہم نے مصر کے ایک نوجوان طالب علم سے بات چیت کی۔ کچھ اس کی سنی‘کچھ اپنی سنائی اور پھر ہم زندگی کے سفر‘ آئندہ کے منصوبوں اور بڑے خوابوں جنہیں دیکھنے کی عادت کا سلسلہ کبھی نہیں ٹوٹا‘ کے بارے میں گفتگو میں ایسے کھوئے کہ وقت کا کچھ پتا ہی نہ چلا۔ ہمارے خواب ہی تو ہمارا سب کچھ ہیں‘ کہ ہم انہی میں اپنی دنیا بسا کر کسی ایک کونے میں آسودہ ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ پڑھنے اور لکھنے کے علاوہ کوئی اور خواب نہیں۔ یا زیادہ سے زیادہ درخت لگا کر جنگل کو مزید ہرا بھرا‘ گھنا‘ پھلدار اور پھولدار بنانے کی جدوجہد میں مصروف رہنا ہے۔ پروفیسر ملک کا مشورہ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ یارا بھی صحت کا خیال رکھو‘ صحت نہیں تو کچھ نہیں۔ اور زیادہ دیر ادھر برطانیہ میں رہو یا امریکہ چلے جایا کرو۔ صحت کی بات تو بندہ مان سکتا ہے مگر تا دیر سیر سپاٹے ہمارے مزاج میں نہیں۔ زیادہ سے زیادہ ہفتہ یا دو ہفتے۔ اس وقت ہمیں تو دیس کی یاد ستانا شروع کر دیتی ہے۔ ہمارے سرائیکی خطے کے لوگ ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں محنت مزدوری کے لیے بھی چلے جائیں تو سنا ہے اپنا تخلص پردیسی رکھ کر شاعری کرنا شروع کر دیتے ہیں‘ اور اگر یہ ان کے بس کی بات نہ ہو تو خواجہ غلام فرید کی روہی والی کافیاں گنگنانے لگتے ہیں۔ ہم بھی پٹھانے خان کی گائی ہوئی کافیاں سن کر پردیس کے ایک دو ہفتے کاٹ لیتے ہیں۔ ہماری آوارہ گردی کی اگلی منزل ایک مشہور شہر کے سموسے تھے۔ اور یوں دو بڈھوں کا لندن کا دن شام میں ڈھل گیا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں