اکیس فروری صبح ساڑھے چھ بجے پولی کلینک اسلام آباد میں‘ میں نے کپکپاتے ہاتھوں سے قلم پکڑا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ترچھی نظروں سے دور بیڈ پر پڑی نعیم بھائی کی میت پر نظر ڈالی۔ جان بوجھ کر اُن کا چہرہ دیکھنے سے گریز کیا اور بے جان انگلیوں سے ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر چند لکیریں کھینچ دیں۔ ذہن میں میرے بچین کی پہلی یادیں اُبھریں جب مہینوں بعد وہ قائدِ اعظم میڈیکل کالج بہاولپور سے ہمیں ملنے آتے تھے۔ اکثر رات گئے پہنچتے۔ دروازے کو عجیب انداز میں کھٹکھٹاتے۔ امّاں دوڑ کر جاتیںکہ نعیم آیا ہے۔ دروازہ کھولتیں تو کوئی نہ ملتا۔ حیران ہوتیں اور سوچتیں کہ شاید خواب دیکھا ہو گا۔ مُڑنے لگتیں تو اچانک نعیم بھائی انہیں پکڑ لیتے۔ اس شور شرابے میں میری، ہاری، اجی اور گجے کی آنکھ کُھل جاتی۔ سلیم بھائی نے صبح بینک جانا ہوتا لہٰذا وہ زیادہ دیر نہ بیٹھ سکتے۔ اگلے دن میرا سکول جانے کو جی نہ چاہتا، کوشش ہوتی کہ ان کی گودی میں بیٹھا رہوں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ وہ رات کو آئے تو میری اور گجے کی آنکھ نہ کُھل سکی۔ تب صبح ایک اور بستر دیکھتا تو اماں سے پوچھتا: کون سو رہا ہے؟۔ وہ مسکرا کر کہتیں: خود دیکھ لو۔ میں ڈرتے ڈرتے چارپائی کے قریب جاتا اور پھر نعیم بھائی کی موچھیں دیکھ کر ان کے بستر میں گھس جاتا اور ان سے لپٹ کر سو رہتا۔ ان کے بدن سے اٹھنے والی پسینے کی خوشبو مجھے بہت پسند آتی۔ وہ سوئے رہتے اور میں آنکھیں کھولے ان سے لپٹا رہتا۔ کبھی وہ ایک آنکھ کھول کر مجھے دیکھتے اور اپنے بازو اور ٹانگ مجھ پر رکھ کر پھر سو جاتے۔ وہ امّاں کو میڈیکل کالج کے دوستوں کی لڑائیوں جھگڑوں کی کہانیاں سناتے۔ تصاویر ساتھ لاتے۔ وہ قائدِ اعظم میڈیکل کالج کی سٹوڈنٹس جماعت ایگلز کے چیف بن گئے تو اسلامی جمعیت طلبہ سے لڑائی جھگڑے رہنے لگے۔ ان کے ہر دوست کو امّاں جانتی تھیں۔ وہ اپنے پروفیسروں کے قصّے کہانیاں بھی سناتے۔ امّاں کے ساتھ ہم بھی گھنٹوں ان کی باتوں میں کھوئے رہتے۔ پھر میرا ان سے رومانس شروع ہوا۔ وہ میرے ہیرو بنے تو مجھے پتہ چلا کہ اُن کا ہیرو ان کا اپنا بابا تھا۔ بابا کی زندگی بھر کی جدوجہد سے وہ بہت متاثر تھے۔ بابا نے فوت ہونے سے پہلے امّاں کو قسم دی: ’کچھ ہو جائے، زمینیں بک جائیں‘ نعیم کو ڈاکٹر ضرور بنانا ہے‘۔ گھر میں سب بابا کو رو رہے تھے‘ امّاں چُپ تھیں۔ سب سے کہا: ’بھول جائو کہ تمہارا باپ مر گیا ہے‘ سب پڑھائی جاری رکھو‘ آج کے بعد زمینیں میں خود کاشت کروں گی‘۔ دس سال امّاں نے زمینیں کاشت کیں۔ 1992ء میں کینسر کا شکار ہوئیں تو میں ملتان یونیورسٹی میں تھا۔ نعیم بھائی اس وقت آئی سرجن بن چکے تھے اور بہاولپور وکٹوریا ہسپتال میں تھے۔ وہ سب کچھ چھوڑ کر نشتر ہسپتال آ گئے۔ ہم دونوں بھائیوں نے آٹھ ماہ دن رات امّاں کے ساتھ گزارے۔ اُنہی دنوں میں اُن کے زیادہ قریب آیا اور انہوں نے میری تربیت شروع کی۔ امّاں کے علاج کے لیے پیسے نہ تھے۔ انہوں نے اپنے ہسپتال کے اکاونٹنٹ ساجد صاحب کی مدد سے دو برسوں کی ایڈوانس تنخواہ نکلوا لی اور برسوں تک اکیلے قسطیں ادا کرتے رہے۔ امّاں کی موت اُن کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔ میرے گلے لگ کر روتے رہے۔ خاموش ہوئے اور سب سے کہا: ماں باپ میرے مرے ہیں، تمہارا باپ بھی زندہ ہے اور ماں بھی ہے‘ ہم نے شکست نہیں ماننی‘ ہم نے امّاں اور بابا کو شرمندہ نہیں کرنا۔ اور پھر اُن کا بہاولپور ہسپتال کے ہوسٹل عباس منزل کا کمرہ نمبر 19 میرا مسکن بن گیا۔ انہوں نے اپنی زندگی اپنے بہن بھائیوں کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔ مجھے ادب سے روشناس کرایا۔ میرے ہاتھ میں ٹالسٹائی، بالزاک، زولا، وکٹر ہوگیو، موپساں، پوشکن تھما دیے۔ ’وار اینڈ پیس‘ ناول میں نے ان کے کمرے میں تین ماہ لگا کر پڑھا۔ ایم اے انگلش میں داخلہ لیا تو انہوں نے بھی اپنی کتابیں خرید کر پڑھنا شروع کر دیں۔ میں نے کہا: کیا کر رہے ہیں؟ بولے: حضور آپ کو امتحان کی تیاری میں نے کرانی ہے۔ عبداللہ حسین، قرہ العین حیدر، ابوالفضل صدیقی، غلام عباس، شوکت صدیقی، سبطِ حسن، جوش، ابن حنیف، شکیل عادل زادہ جیسے ادیبوں کو پڑھوایا۔ مجھے کہا: ملتان یونیورسٹی میں ڈاکٹر انوار احمد سے ملتے رہا کرو۔ خود جوش چڑھا تو ایم اے اردو کا امتحان دیا اور بہاولپور یونیورسٹی میں ٹاپ کیا۔ لوگ حیران تھے کہ آئی سرجن ایم اے اردو میں ٹاپ کر گیا ہے۔ گھنٹوں ادب اور سیاست پر بحث کرتے۔ سرائیکی میں کہانیاں لکھیں، فرانسیسی اور روسی ادیبوں کو سرائیکی میں ترجمہ کیا اور سرائیکی نیشنلزم سے پیار کیا۔ دوست کہتے: شادی کر لو۔ بولتے: اگر شادی کر لی تو ہاری، گجا، روفی اور آجی رُل جائیں گے‘ میں یہ نہیں کر سکتا۔ ہم سب ان کی زندگی بن کر رہ گئے تھے۔ میرے ہاتھ میں ماریو پزو کا ناول گاڈفادر دیا اور کہا: اسے پڑھو۔ مجھے لگا اس ناول کا مرکزی کردار میرا اپنا گاڈفادر نعیم ہے۔ اس ناول نے میری سوچ بدل کر رکھ دی۔ اس ناول کا ترجمہ کیا جو 1996ء میں فکشن ہائوس نے چھاپا۔ میں نے اس کے انتساب میں لکھا: ’اپنے گاڈفادر نعیم بھائی کے نام‘۔ وہ مجھ پر فخر کرتے اور ان کا پیار بڑھتا ہی چلا جاتا۔ وہ اس طرح کے انسان تھے کہ مجھے لگتا میں زندگی میں کتنا ہی بڑا غلط کام نہ کر لوں وہ مجھے کچھ نہیں کہیں گے۔ کہیں گے چھوڑو یار آئو چل کر کینٹین پر چائے پیتے ہیں اور ادب پر گپیں لگاتے ہیں۔ میری بیوی اکثر کہتی: تم ویسے کسی سے نہیں ڈرتے لیکن نعیم بھائی سے بہت ڈرتے ہو۔ میں کہتا: کیونکہ وہ مجھے کچھ نہیں کہتے۔ میں اُن کی اپنے لیے بے پناہ محبت سے ڈرتا ہوں۔ میری بیوی مجھے سے خفا ہوئی تو نعیم بھائی نے فون کیا۔ وہ گھنٹوں میرے گلے شکوے کرتی رہی اور وہ سُنتے رہے۔ شام کو میں نے پوچھا کہ نعیم بھائی نے کیا طے کیا۔ وہ حیران ہو کر بولی: انہوں نے تمہیں نہیں بتایا۔ میں مسکرایا اور کہا: وہ مجھ کبھی کچھ نہیںکہیں گے‘ تُم ہی بتا دو۔ مجھے پتہ تھا وہ فرانسیسی ادیب بالزاک کے عاشق ہیں اور اس کے چونتیس ناول پڑھنا چاہتے ہیں۔ دو ہزار گیارہ میں لندن میں ایک ویب سائیٹ سے پتہ چلا کہ ایک امریکن پبلشر کے پاس پورا سیٹ موجود ہے۔ میں نے آن لائن پانچ سو پونڈ ادا کیے، امریکہ سے وہ سیٹ لندن منگوایا۔ پاکستان لوٹا تو بیوی نے کہا کہ بس پر بھیج دو۔ میں نے کہا: کمال کرتی ہو۔ اسلام آباد سے اکیلے گاڑی نکالی اور بالزک کو احترام سے سیٹ پر رکھ کر رات گئے بہاولپور پہنچا۔ اُنہیں نیند سے جگایا۔ بڑا ڈبہ سامنے رکھا اور اپنے تئیں سرپرائز کی تیاری کرنے لگا۔ اُن کے کچن سے چھڑی اٹھائی اور کہا اس پیکنگ کو کھولیں۔ وہ کھولنے لگے تو میں نے کہا: پہلے بتائیں اِس میں کیا ہے؟۔ مسکرائے اور کہا: روفی یار! مجھے پتہ ہے اتنی دور سے تو میرے لیے بالزاک کا سیٹ ہی لا سکتا ہے۔ فوت ہونے سے تین رات قبل رات گئے بہاولپور سے مجھے فون کیا۔ مجھے لگا وہ میرے اور میرے بچوں کے لیے اُداس ہیں۔ میں نے کہا: آپ میرے پاس آ جائیں۔ وہ جیسے انتظار کر رہے ہوں۔ گائوں سے بہن اور بہنوئی کو بھی ساتھ لے آئے۔ اُنہیں پتہ تھا کہ میری زندگی کی ایک بڑی خواہش ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد میرے ساتھ رہیں۔ میں نے پوچھا: ریٹائرمنٹ میں کتنا عرصہ رہ گیا ہے؟۔ مسکرائے اور چُھپا گئے۔ کہا: ابھی بہت برس رہتے ہیں۔ وہ باون برس کے تھے۔ اس آخری شام میرے اور بچوں کے ساتھ شالیمار کرکٹ گرائونڈ میں واک کی۔ بچوں کے ساتھ ویک اینڈ پلان کیا کہ کون سی فلمیں دیکھنی ہیں اور اسی رات اپنے انہی بہن بھائیوں کے ہاتھوں میں دم توڑ دیا جن کے لیے وہ جیے تھے۔ گائوں کے اپنے آبائی قبرستان میں امّاں کے قدموں کے عین نیچے ان کی قبر پر کھڑے ہوئے دُور دُور تک پھیلی اداسی کے درمیان میں نے اپنے دو چھوٹے بچوں کی آنکھوں سے اپنے تایا ابّو کے لیے لگاتار آنسو گرتے دیکھے تو مجھے یاد آیا کہ عظیم ادیب گارشیا انہیں بہت پسند تھا۔ اس کے ناول One Hundred Years of Solititude کا ترجمہ کیا اور ہمیشہ اس کے کرداروں کا موازنہ اپنے گائوں اور اس کے کرداروں سے کرتے۔ مجھے لگا گارشیا نے ’’تنہائی کے سو سال‘‘ نعیم بھائی کے لیے ہی لکھا تھا اور انہوں نے اسے اپنی اداس نسلوں کے لیے ہی ترجمہ کیا تھا کیونکہ انہیں پتہ چل چکا تھا کہ ہمارے ان کے بغیر تنہائی کے سو سال شروع ہونے کا اُداس موسم آ گیا ہے۔