7 جولائی 1924ء: ہندوستان میں خوف کی علامت سلطانہ ڈاکو کو پھانسی لگنے میں چند گھنٹے باقی تھے۔ وہ مرنے سے پہلے اپنے چار سالہ بیٹے کو اچھا ڈاکو بننے کے راز بتانا چاہتا تھا جو نسلوں سے آبائو اجداد آگے منتقل کرتے چلے آئے تھے۔ سلطانہ ڈاکو نے اپنے بیٹے کے نام خط لکھوانا شروع کیا۔ ’’میرے راج کمار بیٹے، میں اس وقت ہلدوان جیل میں قید ہوں۔ابھی روہیل کھنڈ میں بارشیں شروع نہیں ہوئیں۔ یہ ایک گرم رات ہے اور جب تک اگلی صبح کچھ ٹھنڈک کا احساس دلائے گی‘ میں پھانسی لگ چکا ہوں گا ۔ جب یہ انگریز صاحب تمہیں میرا خط دے تو اس سے عزت سے پیش آنا ۔ یہ خط نجیب آباد لے کر چلے جانا‘ وہاں ایک منشی ہے جوانگریزی پڑھ سکتا ہے۔ اگر منشی تم سے یہ خط پڑھنے کے لیے پیسے مانگے تو فوراً چاقو نکال کر اس کی گردن پر رکھ دینا۔ یہ بات یاد رکھنا کہ تمہارا باپ جب تک جِیا‘ اس نے چوری ڈاکے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ۔ جب وہ چوری نہ کر سکتا تو ڈاکے مارتا ۔ ضروری ہوا تو لوگوں کو قتل کیا ۔ نجیب آباد میں بچّے سے بھی پوچھو گے یا بجنور میں کسی امیر دکاندار سے یا بریلی کے زمیندار سے، سب کہیں گے سلطانہ ڈاکو سب سے عظیم ڈاکو تھا۔ دو برس بعد تمہاری عمر چھ برس ہوجائے گی۔ اس عمر میں بچے کو باپ کے کاروبار بارے جاننا چاہیے کہ وہ کیا کرتا ہے۔ اب تم غور سے سنو منشی تمہیں کیا سُنا رہا ہے۔ ا سے کہو کہ وہ دوبارہ پڑھ کر سُنائے تاکہ تم بھول نہ جائو۔ منہ کے اندر تین خالی جگہیں ہوتی ہیں‘ جہاں چھوٹے موٹے سکّے، انگوٹھیاں اور چاقو چھپائے جا سکتے ہیں۔ دو جگہیں تو منہ میں گالوں کے اندر اور بالائی ہونٹ کے درمیان اطراف میں ہوتی ہیں اور تیسری گلے کی گہرائی ہوتی ہے۔ چوتھی خالی پاخانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ وہاں چاندی چھپا سکتے ہو۔ خبردار وہاں سونا نہ چھپانا۔ جب سات برس کے ہو جائو تو تمہیں یہ فن سیکھنے ہیں کہ اپنی انگلیوں سے کیسے سکّے اپنے کُرتے کی بغلوں میں پلک جھپکتے میں چھپانے ہیں‘ کیسے بندوق کو اپنے بدن کے ساتھ چپکانا ہے تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔ سپاہی سے کیسے خوابیدہ انداز میں بات کرنی ہے تاکہ اسے لگے کہ تم ابھی نیند سے جاگے ہو، انگریز پولیس افسر سے کیسے ہمدردی لینی ہے جو تمہیں گرفتار کرنے والا ہو۔ ( یہ اور بات ہے کہ وہ تمہیں پھر بھی گرفتار کرے گا)، تاہم اس کے سپاہی تمہیں لاتیں نہیں ماریں گے۔ دکاندار کو باتوں میں اُلجھا کر کیسے اس کی چیزیں چوری کرنی ہیں۔ ساڑھے سات برس کی عمر میں تم نے جنگل کی زبان سیکھنی ہے۔ اگر تم کوئل کی طرح بول سکتے ہو، پرندے کی طرح سیٹی بجا سکتے ہو اور بلبل کی طرح آواز پیدا کر سکتے ہو تو کبھی لفظوں کی کمی کا شکار نہیں ہوگے۔ جب پولیس تمہارے پیچھے لگی ہوئی ہو تو ان آوازوں کو استعمال کرو تاکہ دوسرے ڈاکوئوں کو پتہ چل سکے۔ اس کتے کی طرح بھونکو جس پر کسی چیتے نے حملہ کر دیا ہو ، بندر کی طرح شور مچائویا پھر لومڑی کی طرح جیسے پیچھے شکاری کتے لگے ہوئے ہوں۔ آٹھ برس کی عمر میں تمہارے جسمانی اعضاء نرم ہوں گے۔ تمہیں دیواروں کے اندر سوراخ سے ہوشیاری سے گزرنا سیکھنا ہوگا ۔ ایک سمجھدار بچّہ تو اس راستے سے بھی آسانی سے گزر سکتا ہے جہاں سے اگر سانپ بھی گزرے تو اس کی کھال زخمی ہوجائے۔ایک ڈاکو کو اندھیرے سے ڈر نہیں لگتا اور نہ ہی اسے گھٹن کا احساس ہوتا ہے۔ ڈاکو اندھیرے میں ماں کے پیٹ میں موجود ایک بچے کی مانند رہتا ہے اور جب جی چاہے زور لگا کر باہر نکل آتا ہے‘ جب پولیس جا چکی ہوتی ہے۔ ہمیشہ دروازے کے نیچے سے نقب لگائو اور کنڈی کھول لو۔ ہاں سنو جہاں چوری سے کام چلتا ہو وہاں ڈاکہ نہ مارنا۔ کوئی جاگ جائے تو چاقو نکالنے میں دیر نہ کرنا ۔ ضرورت پڑنے پر ہی بندہ مارنا۔ کسی کو زہر سے مارنا ہو تو دھتورا کا بیج استعمال کرو۔ جب وہ سارا دن کام کے بعد تھکا ہُوا ہو تاکہ پولیس سمجھے اسے گرمی لگی ہوگی۔ پولیس کی گولی لگ جائے یا سانپ کاٹ لے تو جنگل میں برہمابھوتی بوٹی تلاش کرنا ۔ تین پتے ہاتھوں میں رگڑو اور رَس زخم پر لگائو۔ یہ فوراً آرام دے گا۔ جب بارہ بور کی بندوق سے فائر کرو تو یاد رکھنا کہ یہ اسّی فٹ سے زیادہ دور نہیں جاتی۔ روہیل کھنڈ پولیس کو جو اب نئی بندوقیں دی گئی ہیں وہ بہت دھواں پیدا کرتی ہیں‘ اس لیے دھیان سے فائر کرنا ۔ گورے صاحب ، نواب، مہاراجہ، ڈی ایس پی، اے ایس پی، ایس پی اور پولیس افسروں کو کو کبھی نہ لُوٹنا۔ زیادہ سے زیادہ تم ڈی ایس پی کو لُوٹ سکتے ہوکیونکہ وہ ٹھاکر ہوگا یا برہمن نہ کہ ولایت سے لوٹا نیا جوان۔ اگرچہ ڈی ایس پی کو تنخواہ کم ملتی ہے تاہم اس نے پیسے بہت جمع کر رکھے ہوں گے۔ بڑھاپے میں فوراً اپنی زندگی کے خوف سے سب کچھ تمہارے حوالے کر دے گا ۔ سال میں دو دفعہ بجنور پولیس نجیب آباد آتی ہے اور گیٹ پر ڈیسک بناتی ہے۔ سب کو ایک قطار میں کھڑا کر کے پولیس ان کے ہاتھوں کے فوٹو لیتی ہے۔ جب تم بارہ برس کے ہو جائو تو تمہیں بھی قطار میں کھڑا کیا جائے گا اور تمہاری انگلیوں پر کالی سیاہی لگا کر سفید کاغذ پر چپکا دی جائیں گی۔ جب وہ تصویریں لے چکیں گے تو پولیس کو فوراً پتہ چل جائے گا جب بھی کبھی تم چاقو استعمال کرو گے یا کسی دروازے کو انگلیوں سے کھولو گے۔ گارڈز سے پوچھ لینا کہ انہوں نے کب آنا ہے ۔ گارڈ نظر تو سخت آتے ہیں لیکن وہ بھی اندر سے ڈاکو ہوتے ہیں۔ برسوں تک میرا دادا اس دروازے پر تعینات رہا ہے۔ جس دن پولیس آئے گی تو کیلا گارڈز کو دے کر جیل کی دیوار کے ساتھ کیلوں میں چھپ جانا تاکہ تمہاری انگلیوں کے نشانات وہ گورے نہ لے سکیں۔ تیرہ برس کی عمر میں تم اکیلے باہر نکل سکتے ہو۔ نجیب آباد، بجنور اور مراد آباد جیسے شہروں میں تمہیں ٹھاکر اور بنیے ملیں گے، پنڈت گنگا پانی سے نہا رہے ہوں گے اور غریب چمار اور بھنگی تمہیں ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ تم اس وقت اپنے آپ سے پوچھو گے کہ تمہارے اندر کیسا خون ہے کہ چمار بھی تمہیں ہاتھ لگانے کو تیار نہیں ہے۔ انسان اپنے باپ کے حسب نسب سے پہچانا جاتا ہے اور تم اس گورے صاحب سے کم خاندانی نہیں ہو جو تمہارے لیے یہ خط لارہا ہے۔ ایک ڈاکو کا لہو ٹھاکر سے زیادہ سرخ ہوتا ہے اور اس کا دل تیز دھڑکتا ہے۔ چار صدیاں قبل، ہمارے آبائو اجداد راجپوت تھے اور ریاست چترگڑھ راجھستان (راجپوتانہ) کے حکمران تھے۔ انہوں نے مغل بادشاہ کی شراب چکھی، چرس کے سوٹے لگائے اور ان کی بیویوں سے اٹکھیلیاں کیں۔ اکبر بادشاہ نے ہمارے آبائو اجداد پر حملہ کیا اور اسے قلعے سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ اس وقت سے ہم راجپوتوں کی نسل جو کسی اور کی حکمرانی نہیں مانتی، جنگلوں اور صحرائوں میں بھٹک رہے ہیں۔ کسی دن ہم پھر سے چترگڑھ ریاست پر حکمرانی کریں گے اور یہ ٹھاکر اور بنیے ہمارے خوف سے کانپیں گے۔ اس وقت تک ہم جتنا مال چوری کر سکتے ہیں، ڈاکے مار سکتے ہیں، اور ضروری ہو تو قتل کرتے رہیں گے۔ اب میں تمہیں بتائوں گا کہ میں کیسے ڈاکو بنا اور کیسے پولیس کے ساتھ آنکھ مچولیاں کھیلیں۔‘‘ سلطانہ ڈاکو درست کہہ رہا تھا۔ ڈاکو ہر زمانے میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ ہر دور کے سلطانہ ڈاکو کے لُوٹ مار کے اپنے اپنے طریقے ہوتے ہیں ۔ سلطانہ ڈاکو آج زندہ ہوتا تو لُوٹ مار کے طریقے جو ہمارے لیڈران اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں، وہ سُن کر ہی شرم سے ڈوب مرتا کہ وہ کس قدیم دور میں اپنے بیٹے کو ڈاکے مارنے کے فرسودہ طریقے بتایا کرتا تھا اور پھانسی بھی لگ جاتا تھا !! ( یہ کالم بھارت میں چھپنے والی کتاب The Confession of Sultana Daku کے ایک باب سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے۔ سجیت صراف نے یہ اعلیٰ کتاب ریسرچ کے بعد لکھی ہے)