اب جنرل مشرف وطن واپس لوٹنا چاہتے ہیں۔ پانچ برس قبل نواز شریف اور بینظیر بھٹو وطن واپس لوٹنا چاہتے تھے۔ اُس وقت کے حاکمِ مطلق جنرل مشرف خود تھے اور آج بھی مطلق العنان حکمران زندہ ہیں، بس چہرے بدل گئے ہیں۔ اُس وقت نواز شریف اور بینظیر بھٹو مظلومیت کی کہانیاں سناتے تھے اور آج جنرل مشرف کی باری ہے۔ فرق یہ ہے کہ بینظیر بھٹو کے پاس اپنے ایک شہید بابا تھے اور نواز شریف اس وقت تازہ تازہ سیاسی شہادت کے رُتبے پر فائز ہوئے تھے۔ اُن دونوں کے اپنے اپنے سچّ اور جھوٹ تھے جو ہم لندن اور دوبئی میں سُنتے رہتے تھے۔ ہمیں اُس وقت بھی خبر چاہیے ہوتی تھی اور آج بھی خبر کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ اس وقت بھی ہمیں نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی وطن واپسی کی تاریخ چاہیے تھے اور آج جنرل مشرف کی بھی۔ ان لیڈروں کے بیانات سُنیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ یہ ہمیں دنیا کی بیوقوف ترین قوم سمجھتے ہیں۔ پیرپگاڑا صاحب 1977ء سے لے کر اب تک اقتدار میں ہیں۔ انہوں نے ہر حکومت میں اپنے وزراء بنوائے۔ جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے بازو بنے رہے، زرداری صاحب کا ساتھ دیا اور آج وہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک کے مسائل کسی اور نے پیدا کیے ہیں، وہ تو مظلوم ہیں۔ نواز شریف 1983ء میں وزیر خزانہ بنے، 1985ء میں وزیر اعلیٰ پنجاب بنے، 1988ء میں جنرل ضیاء کے نگران وزیر اعلیٰ بنے، 1988ء میں ہی دوبارہ وزیر اعلیٰ پنجاب بنے، 1991ء میں مُلک کے وزیر اعظم بنے، 1997 ء میں دوسری بار وزیراعظم بنے، پچھلے پانچ سال سے اُن کی پارٹی ملک کی 62 فیصد آبادی پر ڈٹ کر حکومت کر رہی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ملک کسی اور نے برباد کیا ہے۔ وہ سندھ کی مظلوم عوام کا رونا تو روتے ہیں لیکن اپنے صوبے کے سرائیکی اور پوٹھوہاریوں، پنجابیوں کی غربت کا خیال اُنہیں کبھی نہیں آیا۔ وہ بھی ملک کے مسائل کا ذمہ دار کسی اور کو سمجھتے ہیں۔ غلام حیدر وائیں کے دور میں شہباز شریف ہی اصل وزیر اعلیٰ تھے، 1997ء میں وزیر اعلیٰ بنے، 2008ء میں دوبارہ وزیر اعلیٰ پنجاب بنے اور اس وقت بھی وہ پنجاب کے سیاہ و سفید کے اس حد تک مالک ہیں کہ انہوں نے بیس سے زیادہ وزارتیں اپنے پاس رکھ کر صوبے میں جمہوریت کی بھرپور خدمت کی ہے۔ پانچ برسوں میں کابینہ کے بمشکل پانچ اجلاس منعقد ہوئے ہوں گے۔ خوشنود علی خان لکھتے ہیں کہ بیوروکریسی صرف شہباز شریف کی سُنتی ہے۔ گریڈ اٹھارہ اور انیس کے افسروں کو اُٹھا کر صوبائی سیکرٹری لگائیں گے اور سینئر افسران کو کھڈے لائن تو بھلا وہ کیسے نہیں سُنے گا۔ کوئی ایک بھی سینئر افسر پنجاب میں نہیں رہا جو اُن کے غلط فیصلوں پر ان کو روک سکتا۔ چودھری پرویز الٰہی فرماتے ہیں کہ ان کی وجہ سے حکومت نے پانچ سال پورے کیے ہیں۔ اگر کیے ہیں تو اس کا فائدہ کس نے اٹھایا؟۔ کہاں قاتل لیگ اور کہاں ملک کا ڈپٹی وزیر اعظم۔ فائدہ کس کو ہُوا… مونس الٰہی کو یا ہمیں؟ حکومت نہ بچاتی تو مونس کو سزا ہو گئی تھی۔ اڑتیس کروڑ روپے بھی بچا لیے اور لیڈر بھی بن گئے۔ میرے مہربان وڈے چودھری صاحب دوبارہ ملک کے سیاسی گاڈفادر بن گئے۔ دوسرے بھائی چودھری وجاہت حسین لبیر کے وزیر بن گئے اور اُن کی وزارت نے چند دن قبل ورکرز ویلفیئر فنڈ کے پیسوں سے ایک پارٹی کو اسلام آباد میں ایک ہسپتال بنانے کا پندرہ ارب کا ٹھیکہ دیا ہے۔ دس ارب روپے کی بولی نظرانداز کر کے پندرہ ارب روپے پر ایک اور پارٹی کو یہ ٹھیکہ دیا گیا۔ پھر بھی ہمیں احسان جتلایا جا رہا ہے کہ جناب ہم نے پانچ سال پورے کرا دیے۔ وہ تو ابھی جنرل مشرف کو دس دفعہ وردی کے ساتھ صدر بنوانے کو تیار تھے، خود جنرل صاحب بے صبرے نکلے اور ملک سے چلے گئے۔ مولانا فضل الرحمٰن آج کل نواز شریف کے ڈارلنگ بن گئے ہیں۔ لندن میں ہر دوسری بات پر نواز شریف کے حواری جو لطیفہ سناتے تھے وہ مولانا کے بارے میں ہوتا تھا کہ ان دنوں مولانا اپنے سیاسی گرو جنرل مشرف کے ساتھ اٹھکیلیاں کر رہے تھے۔ خود اپوزیشن لیڈر اور دو صوبوں میں اپنے دو وزیر اعلیٰ تھے۔ نواز شریف کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ مولانا کو کچا چبا کر کھا جائیں اور آج کل دونوں کے درمیان سے سوئی بھی نہیں گزرتی۔ مولانا سمجھدار سیاستدان ہیں۔ پیر پگاڑا کی طرح بہت پہلے یہ قیمتی سیاسی راز پا لیا تھا کہ سیاست اقتدار کے لیے ہوتی ہے، عوام کے لیے نہیں۔ عوام محض گھوڑوں گدھوں کی طرح محنت کر کے اُن کے لیے پیسے اکٹھے کرتے ہیں اور وہ عیاشی کرتے ہیں۔ چار سال اپنے دوست زرداری صاحب کا ساتھ دیا ۔ ان کی جماعت کے وزیر ہائوسنگ نے 2015ء تک کے سرکاری گھروں کو دس دس دفعہ الاٹ کر کے بیچا، ہزاروں مقدمات عدالتوں میں پڑے ہیں کہ کون سا گھر کس کو الاٹ ہُوا تھا۔ وہ لٹ مچائی کہ کبھی ایسا کسی نے منظر نہیں دیکھا ہو گا۔ ایم کیو ایم نے سب سے اچھی سیاست سیکھ رکھی ہے۔ یہ حکومت میں ہوتے ہیں اور اپوزیشن بھی کرتے ہیں۔ نگران حکومت بننے کے دن آئے تو باقاعدہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف لندن پلان لے کر گئے اور واپسی پر ایم کیو ایم روٹھ کر اپوزیشن میں بیٹھ گئی کہ اب نگران وزیر اعلیٰ جو بنانا ہے۔ ایم کیو ایم کا سر اور انگلیاں ہمیشہ کڑاہی میں رہتی ہیں۔ گھاٹے کا سودا کبھی کرنا نہیں سیکھا اور نہ کریں گے۔ جنرل ضیاء سے لے کر بینظیر بھٹو، نواز شریف، جنرل مشرف اور زرداری تک سب کا جمہوریت کی بقا کے نام پر ساتھ دیا۔ ایم کیو ایم نے سیاسی اور فوجی آمروں کے درمیان فرق مٹا دیا۔ اس سے بڑا کارنامہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ زرداری صاحب نے تو حد کر دی۔ ایک وزیر اعظم گیلانی کرپٹ ہوئے تو دوسرا وزیر اعظم اُسے بنایا جو راجہ رینٹل کے نام سے مشہور تھا۔ قومی اسمبلی کے ایک عہدے دار نے راتوں رات سی ڈی اے سے چار ارب روپے کا پلازہ ہتھیا لیا تھا اور کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھی۔ رحمٰن ملک کی بھابی تک کو سی ڈی اے کا کھوکھا چاہیے تو پھر بندہ کہاں جائے‘ کس سے فریاد کرے اور کس کے سامنے روئے۔ خاکی وردی والوں کی سُن لیں۔ نو لیفٹننٹ جنرلز کے خلاف اربوں روپے کے مقدمات چل رہے ہیں۔ کسی کو چار گھنٹے تک جنرل کیانی سے ملاقات میں پوچھنے کی جرات نہ ہوئی کہ عدالت نے اُن کے سابق آرمی چیف اور ڈی جی آئی آیس آئی کے خلاف کورٹ مارشل کا حکم دے رکھا ہے، اُس پر عمل کیوں نہیں ہو رہا ؟ کوئی بہادر صحافی ہماری طرح اپنے آپ کو بلیک لسٹ صحافیوں کی فہرست میں شامل کرانے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔ لگتا ہے ہم ایک بانجھ دھرتی کے باسی ہیں جہاں نئی فصل نہیں اُگتی اور پرانے پودوں کی کونپلوں سے ہی اُمید رکھنی پڑتی ہے کہ شاید کوئی نئی کلی نکل آئے۔ ہم سے تو شاید وہ کسان بہتر ہے جو ایک فصل اٹھانے کے بعد اپنے کھیت کو آگ لگا دیتا ہے کہ کچھ بچھے کھچے ٹانڈے اور کیڑے مکوڑے نئی فصل کے بیج کو خراب نہ کریں۔ ہم سے تو یہ بھی نہ ہوا کہ پرانے سیاسی بیج کو آگ لگا کر کوئی نئی سیاسی فصل اگانے کی کوشش ہی کر لیتے!