ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کی کتاب کی تقریب رونمائی‘ جو اسلام آباد کلب کے ایک ہال میںہوئی، میں بیٹھا ریٹائرڈ جنرل حمید گُل اور دیگر کی تقریریں سن رہا تھا اور خود کو تسلّی دے رہا تھا کہ قوم ویسے ہی دہشت گردوں سے گھبرا گئی ہے، ابھی تو کافی فتوحات باقی ہیں۔ پروفیسر نعیم قاسم (نام سے بزرگ لگتے ہیں لیکن ماشااللہ نوجوان ہیں) نے تقریب کی میزبانی کے فرائض شاندار انداز میں ادا کیے اور کسی کو بوریت کا شکار نہ ہونے دیا۔ جنرل گُل کے علاوہ جنرل اسد درّانی، جنرل احتشام ضمیر بھی موجود تھے۔ چند برس قبل پنڈی کے ایک ہوٹل میں جنرل حمید گُل کی ایک تقریر سننے کا اتفاق ہوا تھا جب ایکس سروس مین ایسوسی ایشن نے اُنہیں اپنے اجلاس میں تعارفی خطاب کرنے کی دعوت دی تھی۔ پندرہ منٹ کا خطاب ڈیڑھ گھنٹہ میں ختم ہوا۔ اُنہوں نے وہیں کھڑے کھڑے افغانستان، وسطی ایشیا اور تقریباً پوری دُنیا کو فتح کر کے پاکستان کے قدموں میں ڈال دیا۔ کاش ہم سب اُس رات نہ سوئے ہوتے تو آج وہ تمام ممالک ہمارے ہوتے جن کا ذکر موصوف نے کیا تھا۔ ہماری سونے کی بیماری نے ہمیں ان فتوحات سے محروم رکھا۔ ایک کشمیری لیڈر نے ان جرنیلوں کے منہ پر بہت کچھ کہہ دیا کہ کیسے کشمیر پر اُن سے فریب کیا گیا۔ وہ لیڈر بھی یہ بتانے کی ہمت نہ کر سکے کہ انہوں نے جانتے بوجھتے فریب کھایا۔ رات کے اندھیرے میں چار جرنیلوں نے اُنہیں بتایا تھا کہ کارگل آخری فیصلہ کُن محاذ ہے اور چند دنوں بعد بھارت ہمارے قدموں میں گرا معافی کی بھیک مانگ رہا ہو گا اور ہم اس کے بے حد اصرار پر کشمیر اپنے پاس رکھ کر باقی ماندہ بھارت سے اپنی فوجیں واپس بُلا لیں گے۔ اب وہی بزرگ کشمیری لیڈر سٹیج پر کھڑے حمید گل اور دیگر سے ان ڈیڑھ لاکھ کشمیریوں کے خون کا حساب مانگ رہے تھے جو اُن تاریک راہوں میں مارے گئے اور جن کی قبروں کے نشانات تک نہ ملے۔ مائیں روتی رہ گئیں اور ہمارے خاکی اسلام آباد میں بیٹھ کر چند جگادری کالم نگاروں کی مدد سے بھارت کو فتح کرنے کے منصوبے بناتے رہے۔ تاہم جنرل حمید گُل نے اپنے خطاب میں اُن سب کو بُری طرح کوسا جو اتنی جلدی ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اصل جنگ تو اب شروع ہوئی ہے۔ اصل محاذ تو اب کھلا ہے کہ امریکی فوجیں افغانستان سے جا رہی ہیں۔ شاید اب ہماری نئی نسلوں کو جنگ کا ایندھن بنانے کا وقت آن پہنچا ہے۔ میں نے جنرل حمید گُل سے کہا کہ آپ بیتی کیوں نہیں لکھتے؟ مُسکرا کر بولے: ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ شاید وہ کشمیر کی آزادی تک آپ بیتی نہیں لکھیں گے جیسے کبھی دکاندار اپنی دکان کے باہر یہ لکھ کر لٹکا دیتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی تک اُدھار بند ہے۔ جنرل شاہد کی کتاب میں امریکہ سے نفرت بھری ہوئی ہے جو ہو سکتا ہے عام پاکستانیوں کو بہت پسند آئے۔ یہ سوال میں نے اپنی تقریر کے دوران پوچھ بھی لیا کہ ایک طرف آپ افغانستان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، ویسے بھٹو کسی فوجی کو پسند نہیں لیکن اُس کا نعرہ آج تک چل رہا ہے کہ بھارت سے سو سال تک جنگ لڑیں گے۔ اسلحہ و سازوسامان، جنگی طیارے اور امداد امریکہ سے لینی ہے اور جنگ بھی امریکہ سے کرنی ہے۔ یہ محبت اور نفرت کا کیسا عجیب کھیل ہے جس میں ہم پھنس چکے ہیں۔ ہم آج تک امریکہ کو طعنے دے دے کر نہیں تھکتے کہ اُس نے ہمیں بھارت سے بچانے کے لیے چھٹا بحری بیڑہ نہیں بھیجا اور اس سے اب لڑنا بھی چاہتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ لڑائی ہم افغانیوں کے ذریعے لڑنا چاہتے ہیں۔ لاکھوں افغانی مارے گئے، نسلیں تباہ ہو گئیں، باقی ماندہ پاکستان میں بھیک مانگ رہی ہیں یا پھر تشدّد اور دہشت گردی میں ملوث ہیں اور پھر بھی ہم نے اُنہیں بہادری کے ایک عظیم مینار پر کھڑا کر رکھا ہے کہ جناب افغانی تو بہادر قوم ہے۔ جب وہ دوسرے ملکوں کی سڑکوں پر مارے مارے پھرتے ہیں تو پتہ نہیں اُنہیں اپنے بارے میں بہادری کے خطاب سُن کر کیسا لگتا ہو گا۔ جب جنرل حمید گل مستقبل کے منصوبے بتا رہے تھے کہ ابھی ہم پاکستانیوں نے اور کیا کچھ کرنا ہے اور کھیل تو اب شروع ہوا ہے، تو میں چپ بیٹھا سوچتا رہا کہ اس قوم کو بیوقوف بنانا کتنا آسان ہے۔ جس ملک میں پچاس ہزار سے زیادہ افراد دہشت گردی سے مارے گئے ہوں وہ اس قابل ہو سکتی ہے کہ اپنی سرحدوں سے نکل کر دوسری قوموں پر قبضہ کرے؟ حالت یہ ہو چکی ہے کہ اب سری لنکن فوج کے سابق سربراہ فرماتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مدد کرنے کو تیار ہیں ۔ مطلب یہ کہ پاکستان کی فوج اور ایجنسیاں یہ جنگ ہار چکی ہیں جو کبھی سُپر پاور کو شکست دینے کے دعوے کرتے تھکتی نہیں تھیں۔ کسی زمانے میں سری لنکا نے بھارت سے فوج منگوائی تھی کہ وہ تامل ٹائیگرز کے خلاف اس کی مدد کرے اور آج بائیس برس بعد وہی سری لنکا ہمیں دہشت گردوں کے خلاف مدد فراہم کرنے کی پیشکش کر رہا ہے۔ شاید سری لنکا کے سابق آرمی چیف کو پتہ چل گیا ہے کہ پاکستان خود پُوری دُنیا پر قبضے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے لہٰذا اُنہیں پاکستان کا اندرونی محاذ سنبھال لینا چاہیے۔ پاکستان بھر میں جتنے شیعوں کو قتل کیا جا چکا ہے اس پر دکھ، افسوس اور شرمندگی ہے کہ کون لوگ ہیں جو بچوںکو مار رہے ہیں اور پُوری ریاست خاموش ہے۔ شاید صدر زرداری سے لے کر شہباز شریف تک سب نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اس ملک میں جتنی ریاستیں بن سکتی ہیں، بننے دو۔ جس نے جتنے بندے مارنے ہیں، مار لے۔ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ ہم تو بنکروں میں بیٹھے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ فوج ہی ملک کو دہشت گردی سے نجات دلوا سکتی ہے۔ حیران ہوتا ہوں‘ کیسے کر سکتی ہے؟ جی ایچ کیو پر چار دن دہشت گردوں کا قبضہ رہا اور پچاس سے زیادہ افسران اور فوجی اہلکار مارے گئے۔ اگر فوج نے کچھ کرنا ہوتا تو اس وقت کرتی اور دہشت گردوں کے خلاف ایسی جنگ کرتی کہ اب تک وہ ختم ہو چکے ہوتے۔ جہاں سیاسی قیادت ناکام ہوئی وہاں ہماری وہ ایجنسیاں اور فوج بھی ناکام ہوئی ہیں لیکن حمید گل ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس نے پُوری دنیا میں اپنے جھنڈے لہرانے ہیں۔ ملک تباہ ہو رہا ہے اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے بندے توڑنے میں مصروف ہیں۔ لشکری رئیسانی نے نواز لیگ میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ اپنے بھائی اسلم رئیسانی کی بلوچستان حکومت سے اسّی کروڑ روپے نقد وصول کیے کہ رند قبائل سے لڑائی میں اُن کے باغات کا نقصان ہوا تھا۔ دونوں بھائیوں نے چالیس چالیس کروڑ روپے بانٹ لیے۔ اب نواز لیگ میں گُھس کر موج کریں گے۔ مال مفت دل بے رحم! برطانوی ہائی کمشنر فرماتے ہیں کہ دہشت گردی سے پاکستانیوں کا مستقبل تباہ ہو رہا ہے اور لندن سے گرفتار کر کے نکالے گئے پاکستانیوں کی پہلی فلائٹ اسلام آباد پہنچ رہی ہے اور جنرل حمید گُل فرماتے ہیں کہ قوم صبر کرے کہ ابھی کچھ فتوحات باقی ہیں۔