گائوں میں بھائی کی وفات پر تعزیت وصول کرنے بیٹھا تو ایک اجنبی چہرے نے کہا کہ آپ سے ایک ضروری کام ہے۔ قریب بیٹھے بزرگوں کے چہروں پر ناگواری اُبھری کہ بھلا یہ کون سا موقع ہے کام کہنے کا ۔ میں نے بزرگوں کو روکا۔ ضرورت مند کو ان باتوں کی کیا پروا۔ متوجہ ہوا تو پتہ چلا مشتاق ایک بڑے عذاب کا شکار ہے۔ اس کی نوجوان بھابی کو کینسر ہے اور عمربتیس برس ہے ۔ تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ بڑا بیٹا صدام نیاز نویں جماعت میں ہے، دوسرا احتشام نیاز چھٹی، تیسرا بہرام نیاز تیسری جماعت اور سب سے چھوٹی بیٹی حدیقہ نیاز دوسری جماعت میں پڑھتی ہے۔ ان بچوں کا باپ سارا دن زمینوں پر محنت کرتا اور گھر کا خرچہ چلاتا ہے۔ غریب خاندان کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ مریضہ کا کیا کریں۔ کسی نے انہیں بتایا تھا کہ بھائی کی وفات پر میں گائوں آیا ہوا ہوں شاید ان کی کچھ مدد کر سکوں۔ میں خاموشی سے اس نوجوان کو دیکھتا رہا جو مجھ سے بھاری توقعات باندھ کر یہاں آیا تھا ۔ برسوں قبل کی وہ اذیت یاد آگئی جو اماں کے ساتھ نشتر ہسپتال کے کینسر وارڈ میں آٹھ ماہ تک نعیم بھائی اور میں نے برداشت کی تھی ۔ میں اٹھ کر اسے علیحدہ لے گیا اور کہا اُسے فوراً ملتان لے جائو اور وہاں کینسر سپیشلسٹ ڈاکٹر ابرار احمد سے ملو جن سے ہم نے اماں کا علاج کرایا تھا۔ وہ اچھے ڈاکٹر ہونے کے علاوہ ایک اچھے انسان بھی ہیں اور باقی جو کچھ ہوسکا میں بھی کروں گا۔ پھر یاد آیا میں تو آخری بار ڈاکٹر ابرار سے بیس برس قبل ملا تھا جب وہ نشتر کے پروفیسر تھے اور میں یونیورسٹی کا طالبعلم۔ اب تو دنیا بدل چکی ہوگی اور یقینا وہ ریٹائر ہو چکے ہوں گے۔ خیر‘ اس نوجوان کو کچھ تسلیاں دیں۔ اسلام آباد لوٹا تو اس کا فون آیا کہ ملتان پہنچ گئے ہیں۔ کینسر وارڈ میں کل آٹھ بستر ہیں اور اس وقت کوئی جگہ نہیں ہے اور وہ مریضہ کو واپس لیہ گائوں لے جا رہے ہیں۔ حیران ہوا کہ بیس برس قبل بھی اس کینسر وارڈ میں آٹھ ہی بستر تھے اور آج بھی اتنے ہی ہیں۔ یہ اکیلا کینسر وارڈ بلوچستان اور سرائیکی علاقوں سے لے کر سندھ تک کے کینسر کے مریضوں کے کام آتا ہے۔ اب تک ایک ہی وارڈ ہے۔ تخت لاہور کی ترقی اور شان و شوکت سے کبھی کسی کو فرصت ملی تو پھر ان علاقوں کے غریب لوگوں کے لیے بھی سوچا جائے گا۔ ایک شہر میں ایک سال میں ایک بس سروس، انڈر پاس اور فلائی اوور پر ہی ڈیڑھ سو ارب روپے خرچ ہوں گے تو پھر بیس برس بعد بھی ملتان میں آٹھ بستروں کا ایک ہی کینسر وارڈ کام کرے گا ۔ یاد آیا لیّہ میں ایک نیا ہسپتال چودھری پرویزالٰہی دور میں تقریباً مکمل ہونے کے قریب تھا کہ شریفوں کی حکومت آئی اور سب فنڈز روک کر لاہور منگوا لیے گئے۔ عمارت کا ڈھانچہ آج تک سب کا منہ چڑا رہا ہے۔ لوگوں کو داد دیں کہ پھر بھی نواز لیگ اس ضلع سے جیت جائے گی۔ اپنے مخالف سے محبت کا یہ بھی انوکھا انداز ہے۔ خیر رات کافی ہو چکی تھی اور اس غریب خاندان کے پاس ٹھہرنے کو کوئی جگہ نہ تھی۔ فون آیا اب کیا کریں؟ ایک جاننے والے ڈاکٹر نے اس غریب خاندان اور مریضہ کو ایمرجنسی میں کہیں زمین پر بستر لگانے کی اجازت لے کر دی اور یوں وہ رات گزر گئی۔ اگلے دن وہ ہزاروں روپے خرچ کرکے بغیر کسی علاج کے گائوں لوٹ آئے۔ اب کئی دن ہو گئے ہیں۔ وہ بے چاری عورت گائوں میں موت کا انتظار کر رہی ہے۔ سوچا دوست ہارون الرشید سے درخواست کروں کہ وہ عمران خان سے کہیں اس کا علاج شاید ان کے کینسر ہسپتال میں ہو سکے۔ پھر خیال آیا کہ سنا ہے کہ عمران خان اس معاملے میں مداخلت یا سفارش نہیں کرتے۔ یوں میرے گائوں کی چار بچوں کی ماں میری انا کی قیمت اپنی جان کی شکل میں ادا کررہی ہے۔ دیکھیں کتنے دن زندہ رہتی ہے۔ گائوں کے لوگ روزانہ فون کر کے پوچھتے ہیں کہ کچھ بنا؟ اس وقت جب یہ سب کچھ ایک ماں کے ساتھ ہورہا ہے، قومی اسمبلی کی اسپیکر فہمیدہ مرزا کے میڈیکل بلوں کی تفصیلات میرے سامنے موجود ہیں جو انہوں نے اپنے علاج کے لیے امریکہ میں خرچ کیے ہیں ۔ ان بلوں کی منظوری لینے کے لیے انہوں نے بارہ مارچ کو قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی کا اجلاس بلایا اور خود اس کی صدارت کرتے ہوئے اپنے لیے تاحیات بھاری مراعات بھی منظور کرالیں اور اپنے امریکہ کے دورہ جس میں انہوں نے اپنے کینسر کا علاج کرایا تھا‘ کاخرچہ بھی منظور کرالیا ۔ امریکہ میں کل خرچہ بیس لاکھ روپے ہوا اور وہ امریکہ میں 19جولائی2012ء سے لے کر 17 اگست تک رہیں۔ کچھ اخراجات پاکستانی سفارت خانے نے بھی ادا کیے۔ یوں 28 دن تک وہ امریکہ میں زیرعلاج رہیں اور اخراجات ہم سب نے برداشت کیے۔ اس اجلاس میں فہمیدہ مرز ا نے اپنے لیے تاحیات سرکاری خرچے پر علاج کی سہولت بھی لے لی اور اب ساری عمر اُن کا علاج ہمارے ٹیکسوں پر ہوتا رہے گا‘ چاہے وہ امریکہ سے علاج کرائیں یا برطانیہ جائیں۔ فہمیدہ مرزا ایک وفد لے کر سپین گئیں اور وہاں پانچ دن قیام فرمایا۔ کل بل 55لاکھ روپے بنا جو آپ اور ہم سب نے مل کر ادا کیا۔ لندن گئیں تو بل سات لاکھ روپے کا بنا ۔ عمرے کے لیے سعودی عرب گئیں تو بھی چار لاکھ روپے آپ اور ہم نے ادا کیے۔ کینیڈا کا دورہ کیاگیا تو اس پر اکتالیس لاکھ روپے خرچہ ہوا اور وہ بھی ہماری جیبوں سے ادا کیا گیا۔ ملائشیا کا پارلیمانی دورہ ہوا تو بیالیس لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ دوبئی میں کچھ روز فہمیدہ مرزا نے گزارے اور پانچ لاکھ روپے کا بل ہم نے ادا کیا۔ فہمیدہ مرزا کے دور میں ان کے چہیتے ترقیوں پر ترقی حاصل کرنے والے جوائنٹ سیکرٹری شمعون ہاشمی نے تیس ملکوں کے دورے ہمارے اور آپ کے خرچے پر کیے جس پر ایک کروڑ روپیہ مزید خرچ ہوا۔ چار دن کی علاقائی پارلیمانی اسمبلی کے اسلام آباد میں ہونے والا اجلاس پر نوے لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ ہوٹل کا خرچہ پینتیس لاکھ روپے، کھانا پینا سترہ لاکھ روپے، ثقافتی شو گیارہ لاکھ روپے، جھنڈے، ناموں کی پلیٹ اور بیگ بنانے پر دس لاکھ روپے، مترجم چھ لاکھ روپے، پرنٹنگ ڈیڑھ لاکھ روپے، ٹرانسپورٹ پٹرول خرچہ تین دنوں کا ایک لاکھ روپے، ائرپورٹ پر مہمانوں کو چائے پانی اور ویٹروںکو ٹپ دینے پر ایک لاکھ روپے، تحائف ایک لاکھ روپے، دعوت نامے بذریعہ کوریئر بھیجنے پر ستر ہزار روپے اور فوٹو البم بنانے پر بتیس ہزار روپے خرچ ہوئے۔ ہاں اس دوران فہمیدہ مرزا اور ان کے خاوند ذوالفقار مرزا نے پیپلز پارٹی کی حکومت بنتے ہی اپنی مرزا شوگر ملز کے ذمے پچاس کروڑ روپے کا قرضہ بھی چار بنکوں سے معاف کرالیا ۔ یہ ہے بدین کی فہمیدہ مرزا اور لیّہ کی حسینہ بی بی کی کہانی۔ دونوں کو کینسر کا مرض لاحق ہوا ۔ ایک امریکہ میں اٹھائیس دن گزارنے کے بعد علاج سے تندرست ہوگئیں اور لاکھوںروپے قومی خزانے سے ادا ہوئے اور اب تاحیات ان کا سرکاری خرچ پرعلاج ہوگا۔ دوسری طرف نام کی حسینہ اور قسمت کی بدنصیب عورت کی گائوں کے کچے گھر کے اداس صحن میں رکھی چارپائی کے گرد اس کے تین چھوٹے بیٹے اور ایک چھوٹی بیٹی اپنے متوقع عظیم نقصان سے بے خبر بغیر کسی علاج دوائی کے بے بسی سے اپنی ماں کو موت کے منہ میں جاتا دیکھ رہے ہیں!