اس دفعہ کتنا کچھ مواد لکھنے کو تھا ۔ ان کروڑوں روپوں مالیت کے تحائف کی فہرست نکال کر بیٹھا تھا جو جنرل مشرف پاکستان سے جاتے وقت ساتھ لے گئے تھے۔ ان سے درخواست کرنی تھی کہ وہ وطن واپس لوٹتے وقت ساتھ لے آئیں خصوصا وہ ستر لاکھ روپے کا ہیروں کا ہار‘ جو بیگم صہبا مشرف کو اقتدار کے دنوں میں تحفہ ملا تھا جسے وہ سرکاری خزانے میں جمع کرانے کی بجائے ساتھ گئیں۔ امریکی وزیردفاع رمز فیلڈ کے عنایت کیے گئے پستول جو انہوں نے امیر مقام کو تحفے میں دیے تھے، وہ شاید انہوں نے نواز لیگ جوائن کرتے وقت نواز شریف کو عنایت کر دیے ہوں لہٰذا وہ ہم نہیں مانگتے۔ نواز اور مشرف کی نئی ڈیل پر کچھ روشنی ڈالتا یا پھر چوہدری شجاعت حسین کا درد شیئر کرتا کہ کیسے زرداری صاحب انہیں بھی ہاتھ دکھا چکے ہیں ۔مگر کیا کروں سات سو گونگے بہرے بچوں کی استاد کے ایک خط نے میرے ہاتھ پکڑ لیے ہیں۔ سوچا کس کو مخاطب کیا جائے ؟ شہباز شریف کا نام ذہن میں آیا کیونکہ انہوں نے اپنے دور میں سرائیکی علاقوں میں دودھ کی نہریں بہا دی ہیں۔ چیف سیکرٹری پنجاب ناصر کھوسہ کا نام ذہن میں آیا جن کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے ہے اور یہ سات سو گونگے بہرے بچوں کی فریاد اسی علاقے سے گونجی ہے۔ یاد آیا ایک دفعہ ملتان کے دوست کی نرس بہن کو دو سال بغیر تنخواہ چھٹی چاہیے تھے۔ وہ مقابلے کا امتحان دینا چاہتی تھی۔ جو کام ناصر کھوسہ صاحب نہ کرا سکے‘ وہ دوست بیس ہزار روپے میں لاہور سیکرٹریٹ میں ایک کلرک کو دے کر کراگیا تھا ۔ پھر سپریم کورٹ کے قابل وکیل شعیب شاہین کا نام ذہن میں آیا کہ وہ بھی ڈیرہ غازی سے ہیں اور ان پر بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے علاقے کی غریب لڑکیوں کا مقدمہ لڑیں۔ پہلے یہ خط پڑھ لیں اور پھر مل کر سوچتے ہیں کہ کس کے نام لکھا جائے۔ عفیفہ ریاض کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے ہے۔ وہ خصوصی بچوں کے سکول میں پڑھاتی تھی۔ اب اچانک اس سمیت پنجاب بھر کے درجنوں ٹیچرز کو جو ان خصوصی بچوں کو پڑھاتے تھے‘ برطرف کر دیاگیا ہے۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اسے اپنا نام اس خط کے ساتھ دینا چاہیے یا نہیں۔ سب نے اسے ڈرایا اورکہا گونگے بہرے بچوں کو پڑھاتے پڑھاتے خود بھی گونگے بہرے بن کر زندگی گزارو ۔ظلم پر خاموش رہو کہیں محکمہ ناراض نہ ہو جائے جس نے چند دن قبل ان سب کو نوکریوں سے فارغ کر دیا ہے۔ یہ وہ خوف ہے جس نے سرائیکی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔کوئی ظلم پر آواز اٹھانے کو تیار نہیں۔ عفیفہ جیسی استانی احتجاج کرتی ہے تو سب ڈراتے ہیں۔ آخر عفیفہ نے اس کا ایک حل ڈھونڈا۔ درود شریف پڑھ کر دو پرچیاں بنائیں۔ ایک پر ناں لکھا اور دوسری پر ہاں۔ اٹھایا تو ہاں والی پرچی نکلی تو مجھے کہا کہ نام دے دیں، جو ہوگا دیکھا جائے گا ۔ اپنے آپ کو خطرات میں ڈال کر عفیفہ ریاض لکھتی ہیں، ’’ڈیرہ سال قبل گورنمنٹ ہائی سکول برائے بہرے و متاثرہ سماعت میں انہیں اور دیگر لڑکیوں کو چھ ماہ کے لیے بطور اعزازی استانی کے طور پر تعینات کیا گیا ۔ ہم سب نے محنت کے ساتھ خصوصی بچوں کو تعلیم سے روشناس کرایا ۔اشاروں کی زبان سیکھی۔ ایسے بچوں کو پڑھانا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن بچوں کے والدین، سکول کے ہیڈ ماسٹر، اور دیگر سٹاف نے ہماری بہت حوصلہ افزائی کی۔ چھ ماہ بعد کنٹریکٹ بڑھا دیا گیا ۔ اس وقت خصوصی سکول میں پانچ سنٹرز کام کر رہے ہیں جن میں سلو لرنر، جسمانی معذوری، دماغی معذوری، نابینا اور بہرے بچوں کے طلباء اور طالبات کو تعلیم دی جارہی ہے۔ سنٹر میں سات سو کے قریب بچے داخل ہیں ۔ سکول میں پڑھانے کے لیے پنجاب پبلک سروس کے ذریعے مستقل اساتذہ کی تعداد صرف چار ہے جو نہ ہونے کے برابر ہے۔ باقی سکولوں کی حالت اس سے مختلف نہیں ہے۔ اساتذہ کی شدید قلت کے باعث علاقے کی تعلیم یافتہ لڑکیوں اور لڑکوں کو وقتی طور پر بھرتی کر لیا جاتا ہے اور کنٹریکٹ ختم ہونے کے بعد بے رحمی سے فارغ بھی کردیا جاتا ہے۔ لیّہ، بھکر، تونسہ، جامپور، راجن پور، مظفر گڑھ، میلسی میں بھی خصوصی بچوں کے سکولز ہیں اور وہاں بھی عارضی اساتذہ کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپر پنجاب کی طرف سے ہر دو سال بعد بھرتیاں ہوتی ہیں اور وہی لوگ نوکریاں لے کر سرائیکی علاقوں میں کچھ دن آتے ہیں ۔ ہمیں پس ماندہ اور دیگر القابات دے کر پھر اپنا تبادلہ کرا کے مرکزی پنجاب لوٹ جاتے ہیں۔ یوں سرائیکی علاقوں کے معذور بچے متاثر ہوتے ہیں اور پھر عارضی سٹاف رکھ لیا جاتا ہے جسے ہر چھ ماہ بعد یہ کہہ کر برطرف کر دیا جاتا ہے کہ لاہور سیکرٹریٹ نے کنٹریکٹ میں توسیع کی منظوری نہیں دی ۔ یوں نوکریاں اپر پنجاب کو مل رہی ہیں اور معذور بچوں کو پڑھانے کی ذمہ داری عارضی سٹاف پر ہے۔ جب بچے ان سے انسیت پیدا کرلیتے ہیں اسی وقت ہی انہیں برطرف کر دیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب حکومت ان بچوں کو سواری، کھانا پینا، رہائش، آٹھ سو روپے وظیفہ‘ مفت کتابیں‘ یونیفارم‘ جرسی‘ جوتے‘ جرابیں‘ تک مہیا کرتی ہے۔ لیکن دکھ ہوتا ہے کہ جو استاد انہیں پڑھاتے ہیں وہ ہر چھ ماہ بعد برطرف ہوجاتے ہیں۔ ان عارضی استاد لڑکیوں میں اکثریت سرائیکی علاقوں کی لوئر مڈل کلاس خاندانوں سے ہے جہاں پہلے بچی کو پڑھانا بہت بڑی بات سمجھی جاتی تھی، نوکری کا تو تصور تک نہیں تھا۔ پھر وقت بدلا۔ والدین نے پڑھایا لیکن نوکری کی اجازت سکول کی حد تک ہے۔ اب ڈیرہ غازی خان کی لڑکیوں کو نکال دیا گیا ہے اور ایسی ذلت محسوس ہورہی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ غریب گھروں سے تعلق رکھنے والی ان لڑکیوں کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ یوں ان کی زندگیوں میں کچھ روشنی آئی تھی، وہ ایک لمحے میں چھن گئی۔ اب کہتے ہیں کہ نئی حکومت آئے گی تو دیکھیں گے نیا کنٹریکٹ دینا ہے کہ نہیں ۔ کئی معذور بچوں نے پڑھنے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ وہ ان استادوں کے عادی ہوگئے تھے۔ بہت ساری اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ ہمارے علاقوں کی نوکریاں اپر پنجاب لے جاتا ہے اور ہم برطرفی کی ذلت کے ساتھ گھر لوٹ جاتے ہیں۔ ہم غریب لڑکیاں محنت کرتی ہیں تاکہ ہماری زندگیوں میں کوئی تبدیلی آئے۔ ہماری اس محنت کو سراہنے کی بجائے الٹا ہمیں دھتکار کر نکال دیا جاتا ہے ۔ ہمیں لگتا ہے کہ ان معذور بچوں کو پڑھاتے پڑھاتے ہم سب بھی معذور ہوگئے ہیں کہ نہ ہم اپنی آواز نکال سکتے ہیں اور نہ ہی ہماری کوئی آواز سننے والا موجود ہے‘‘ عفیفہ کا خط طویل ہے اور میں اتنا ہی پڑھنے کی ہمت کر سکا ہوں۔ ڈیرہ غازی خان کی لڑکیوں کو اس وقت برطرف کیا گیا کہ جب صوبے کا چیف سیکرٹری بھی مبینہ طور پر ڈیرہ غازی خان سے ہے۔ تختِ لاہور کے بادشاہوں سے درخواست ہے وہ بے شک ڈیرہ غازی خان کی ان غریب بچیوں کونوکریاں واپس نہ کریں اور لاہور سے ہی اپنے پیارے بھرتی کر کے وہاں بھیجتے رہیں ، لیکن اس خط کا انتقام بھی نہ لیں ۔ مائی لارڈ : تختِ لاہور کی دہشت تو ذرا ملاحظہ فرمائیں کہ عفیفہ کو نام شائع کرنے کی اجازت دینے کے لیے درود پڑھ کر ہاں، ناں کی پرچی ڈالنا پڑی؛ کیونکہ غریب بچیاں گونگے بہرے بچوں کو پڑھاتے پڑھاتے خود بھی اپنی آواز ، شناخت اور وجود تک کھو بیٹھی ہیں!!