بدھ کی رات چھوٹے بیٹے نے ٹیکسٹ میسیج کیا کہ دفتر سے واپسی پر میری دوائی لیتے آئیں ۔ رات کے بارہ بج چکے تھے۔ وہ فائل اٹھائی جس میں ان سیاستدانوں کے نام تھے جنہوں نے بنکوں سے قرضے معاف کرائے یا واپس نہیں کیے۔ نام پڑھ کر مسکرا اٹھا ۔ نواز شریف ، شہباز شریف ، حمزہ شہباز ، فہمیدہ مرزا، ذوالفقار مرزا، چوہدری شجاعت،پرویز الٰہی، وجاہت حسین، جعفر لغاری، سیف اللہ فیملی، گوہر ایوب، منظور وٹو، مسز فوزیہ گیلانی، ہمایوں اختر اور دیگر جنہوںنے تیس برسوں میں ڈھائی سو ارب روپے معاف کرائے تھے ۔ سوچاکالم لکھتے ہیں کیا آرٹیکل 62-63 کا مطلب صرف کلمہ سننا ہے یا پھر قرضے ادا نہ کرنے اور معاف کرانے والوں کو بھی الیکشن لڑنے سے روکنا ہے۔ بیٹے کے لیے دوائی لی ۔ میلوڈی مارکیٹ سے حبیب بنک کے قریب پہنچا تو سڑک پر ایک چھوٹا سا بچہ نظر آیا جس نے مجھے ہاتھ دے کر لفٹ مانگی۔ میں نے گاڑی نہیں روکی۔ کورڈ مارکیٹ کا موڑ مڑنے تک وہ بچہ ذہن پر سوار ہوچکا تھا ۔ مجھے لگا میں نے غلط کیا تھا ۔ مجھے رکنا چاہیے تھا ۔ہو سکتا ہے بچہ راستہ بھول گیا ہو۔ ماں باپ ڈھونڈ رہے ہوں۔ صبح ریڈیو پروگرام سنا تھا ’’ یہ بچہ کس کا ہے‘‘ ۔ اس معصوم بچے کی باتیں یاد آئیں۔ وہ ہوٹل پر کام کرنے والے باپ سے مل کر لوٹ رہا تھا کہ پولیس نے پکڑ کر ایدھی ہوم بھیج دیا اور وہ چِلّاتا رہا اس کا گھر قریب ہی ہے۔ میں نے سوچا اگربچے نے کہہ دیا، راولپنڈی جانا ہے۔ پہلے ہی آدھی رات بیت چکی تھی اور تھکاوٹ سے برا حال تھا ۔ پھر کیا کروں گا ؟ کہیں کوئی مسئلہ نہ ہوجائے۔ یہ سوچتے ہوئے گھر پہنچ گیا۔ گاڑی روکی تو اترا نہ گیا ۔ اسٹارٹ گاڑی میں بیٹھا سوچتا رہا کہ کیا کروں۔ گھرپر سوئے اپنے بچوں کے پاس جائوں یا اس اجنبی بچے کے پاس لوٹ جائوں۔ گاڑی موڑی اور دعا مانگتا گیا کہ اس بچے کو کسی اور نے لفٹ دے دی ہو ۔ پھر ڈرا رات کو کوئی غلط بندہ ہی اس بچے کو نہ مل جائے ۔ وہ بچہ دور سے ہی مجھے نظر آگیا ۔ گاڑی روک کر پوچھا کہاں جانا ہے اور رات کو یہاں کیا کر رہے ہو ۔ ایک سنجیدہ چہرے کے حامل اس بچے کی عمر مجھے دس برس لگی ۔ وہ بولا میں قائداعظم یونیورسٹی کے ہوسٹل نمبر نو کے ساتھ کچے گھروں میں رہتا ہوں۔ شکر کیا چلیں زیادہ دور نہیں جانا پڑے گا ۔ مجھے لگا بچے کو تکلیف ہورہی ہے۔ پوچھا تو بولا دوپہر کو گاڑی دھوتے ہوئے بازو گاڑی کے ٹائر کے نیچے آگیا تھا ۔ مجھے کلائی کے قریب ٹائروںکے سرخ نشانات نظر آئے۔ وہ بارہ گھنٹوں سے اس تکلیف کے ساتھ گاڑیاں دھوتا رہا تھا ۔ گاڑی میں بٹھایا اور پولی کلینک کی طرف چل پڑا ۔ ایمرجنسی میں پہنچا تو وہاں تین ڈاکٹر بیٹھے تھے۔ انہوں نے بچے کا معائنہ شروع کیا تو مجھے اکیس فروری کی صبحیادآ گئی جب یہیں نعیم بھائی کو موت کے منہ میں جاتے دیکھا تھا ۔ بے ساختہ نظر اس بیڈ کی طرف اٹھ گئی جہاں وہ لیٹے تھے کہ شاید۔۔۔! ڈاکٹر نے کہا اس کا ایکسرے کر ا کر لائیں ۔ پرچی پکڑی اور ایکسرے کرا لایا ۔ پوچھا آپ پڑھتے ہو۔ بولا جی میں تیسری جماعت میں پڑھتا ہوں ۔ صبح سکول جاتا ہوں۔ دوپہر کو میلوڈی مارکیٹ آجاتا ہوں اور رات تک گاڑیاں دھوتا ہوں ۔ آج دیر ہوگئی تھی کہ پیسے پورے کرنے تھے۔ میں ایمرجنسی لوٹا ، ڈاکٹر نے ایکسرے دیکھا ۔ ہڈی نہیں ٹوٹی تھی۔ دوائی لی اور بچے کو گاڑی میں بٹھایا کہ اسے یونیورسٹی چھوڑ آئوں۔ رات کا ایک بج چکا تھا ۔ پوچھا ماں باپ کیا کرتے ہیں۔بولا: میرا نام کاشف ہے۔ تین ماہ پہلے بھی میرا بازو ٹوٹ گیا تھا ۔ ایک موٹر سائیکل سوار نے لفٹ دی اور اس نے ویلنگ شروع کی تو میں نیچے سڑک پر گرگیا تھا ۔ باپ تین سال قبل مر گیا تھا ۔ ہم چھ بھائی بہن ہیں ۔ بڑا بھائی پھول بیچتا ہے۔ کچھ بہنیں چھوٹی اور کچھ بڑی ہیں ۔ ماں گھر پر ہوتی ہے۔ میں اور میرا بھائی کماتے ہیں ۔ میں دن کا دو ڈھائی سو روپے گاڑیاں دھو کر کما لیتا ہوں۔ ایک بہن تیسری اور دوسری چوتھی جماعت پڑھتی ہے۔ گیارہ بجے سکول جاتے ہیں۔ استاد کہتا ہے جب جی چاہے آ جایا کرو۔ وہ ہم یتیموں سے کوئی فیس نہیں لیتے۔ میں نے تیسری جماعت پاس کی تو میرا استاد بڑا خوش ہوا ۔ میری چھوٹی بہن نے کہا میرا پرچہ بھی حل کر کے دو ۔ میں نے بڑی بہن کا پرچہ بھی لکھ کر دیا ۔ ایک بہن خود پاس ہوگئی۔ وہ کچھ لکھ لیتی ہے۔ میںخاموش گاڑی چلاتا رہا ۔ وہ بولتا رہا ۔ میں اتنی دیر میں بری امام دربار پہنچ چکا تھا ۔ اچانک اس نے مجھ سے پوچھا انکل آپ کی شادی ہوئی ہے۔ ایک چھوٹے بچے کے منہ سے یہ سن کر حیران ہوا ۔ جواب دیا ، ہاں، کیوں ؟ پوچھا ، کتنے بچے ہیں ۔ دو ہیں ۔ ایک آپکا ہم عمر ہے۔ گاڑی ڈھلوان پر جانے لگی تو فورا ًبولا گاڑی احتیاط سے گزاریں۔ کیچڑسے آپ کی گاڑی خراب ہوجائے گی۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے بیرئرپر گارڈ نے روکا ۔ بتایا بچے کو ڈراپ کرنے جارہا ہوں۔ اس نے بچے کو حیرانی سے دیکھا ۔ یونیورسٹی میں داخل ہونے لگے تویونیورسٹی کے نشان کو دیکھ کر مجھے بتایا کہ یہ قرآن کریم کا ماڈل ہے۔ہاں آپ نے سیدھا جانا ہے، مڑنا نہیں ہے۔ رات کو بند کنٹینوںکے آگے سے گزرتے یونیورسٹی سے نکل گئے تو کہنے لگا اب دائیں ہاتھ موڑ لیں۔ یونیورسٹی کے ایک بلاک کے سامنے کچے گھروں کی آبادی نظر آئی۔ بولابس یہاں روک دیں۔ میں نے گاڑی روکی، اسے دوائیاں دیں اور سمجھایا ،انہیں کیسے استعمال کرنا ہے۔ وہ چپ چاپ سنتا رہا ۔ میں نے اسے اپنا فون نمبر دیا کہ اپنے بھائی کو کہنا کہ مجھے کل فون کرے ۔ چند روز کام نہیں کرنا کیونکہ چوٹ لگی ہے۔ اس نے میرا نام پوچھا اور دوائیوں کا لفافہ پکڑ کر اتر نے لگا۔ اچانک میں نے اس بچے سے خودغرض بن کر اپنی مدد کی قیمت وصول کرنے کا فیصلہ کیا ۔ میں بولا، بیٹا! پتہ ہے کہ آپ نے کیا کرنا ہے۔ مجھے لگا اس نے میرا ذہن پڑھ لیا تھا ۔ میں نے آپ کے لیے بہت ساری دعائیں کرنی ہیں ۔ اس نے گاڑی کا دروازہ بند کیا ۔ کچھ سوچ کر واپس پلٹا۔ میں نے ونڈو نیچے کی تو بولا انکل ایک بات بتانی تھی۔ میری حیرانی کا دھیان کیے بغیر وہ بولا : میرے با پ کا نام مسلم تھا ۔ وہ مر گیا تو ماں نے دوسری شادی کرلی۔ وہ بھی دوسال پہلے مرگیا ۔ اس کا نام بھی رئوف تھا ! پنجاب کے شریفوں، چودھریوں سے سندھ کے مرزائوں ، صنعت کاروں، شوگر مل مالکان تک کے ڈھائی سو ارب روپے قرضے معافی کی بھاری فائل بھول کر، اداس نظروںسے ،وقت سے پہلے ،ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائے اس معصوم کو دوائیوں کا لفافہ پکڑے ،اندھیرے میں غائب ہوتے دیکھتا رہا ، جس کا دوسرا باپ میرا ہم نام نکلا تھا !