عجیب افراتفری کا عالم ہے۔ ہم سمجھتے تھے میڈیا اور عدالت کے ہوتے ہوئے اب شاید کوئی نادہندہ، قرض معاف کرانے والا یا عدالتوں میں سنگین مقدمات بھگتنے والا دوبارہ قومی اسمبلی میں نہیںجا پائے گا۔ ہم غلط نکلے اور وہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے دُھول جھونک کر نکل گئے۔ اسٹیٹ بینک فرماتا ہے کہ وہ اربوں روپے کے قرض معاف کرانے والوں کے نام نہیں جاری کرے گا۔ ملکی آئین کہتا ہے کہ بیس لاکھ روپے سے زیادہ قرض معاف کرانے والا الیکشن نہیں لڑ سکتا جب کہ اسٹیٹ بنک کہتا ہے کہ ہم انفارمیشن نہیں دیں گے کہ کس نے کیا معاف کرایا ۔ گورنر اسٹیٹ بینک لگنے کی کچھ قیمت تو ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی بھی کرنی پڑتی ہے ! چلیں اس قوم کے حکمرانوں کو نمک خوار ملازمین تو مل گئے جو ان کے مفادات کا خیال ان کے گھر چلے جانے کے بعد بھی رکھتے ہیں۔ نمک خواری کی کچھ روایت باقی ہے! دوسری طرف نواز شریف فرماتے ہیں کہ اگلی پارلیمنٹ کو اختیار ہوگا کہ وہ آرٹیکل 62,63 کو تبدیل کر دے۔ جی بالکل تبدیل ہونا چاہیے کہ اس کی وجہ سے سیاستدانوں کی بدنامی ہورہی ہے اور اگر وہ بدنام ہوگئے تو جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی۔ اگر جمہوریت چاہتے ہو تو ان سیاستدانوں کی کرپشن پر آنکھیں بند کیے رکھو۔ یوں ہم بلیک میل ہورہے ہیں۔ ان کا فارمولا بڑا سادہ ہے کہ خود بھی مال بنائو اور دوسروں کو بھی بنانے دو۔ بھلا یہ اختیار کسی اور کو کیسے دیا جا سکتا ہے کہ وہ ان سیاستدانوں سے پوچھے کہ آپ نے پانچ سالوں میں کیا کچھ کمایا اور کتنا ٹیکس ادا کیا ۔ کسی بینک سے قرضہ معاف تو نہیں کرایا ؟ نواز شریف سے تو بالکل نہیں پوچھا جا سکتا کہ وزیراعظم ہوتے ہوئے اپنی تاریخ ساز تقریر میں تین ارب روپے کا قرضہ اتارنے کے نام پر اتفاق فائونڈری کا سکریپ اور خاندانی متنازعہ جائیداد بینکوں کو کیوں تھما دی کہ وہ بے چارے پندرہ برسوں سے عدالتوں میں دھکے کھا کھا کر ہلکان ہوگئے ہیں۔ اس لیے آرٹیکل 63 کا ختم ہونا تو بہت ضروری ہے جو قرض معاف کرانے اور نادہندگان کو الیکشن لڑنے سے روکتا ہے۔ اور سن لیں کہ پانچ سالوں میں قومی اسمبلی پر دس ارب روپے خرچ ہوئے اور اب جو ٹیکسوں کی تفصیل چھپ رہی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اکثریت نے ایک روپیہ نہیں دیا ۔ سب نے لیا ہے اور دیا کچھ نہیں۔ ان ایم این ایز اور سینیٹرز نے کس طرح اس ملک اور قوم کو لوٹا ہے اس کی ایک اور مثال میرے سامنے موجود ہے۔ میرا جی چاہ رہاہے کہ میں شرم سے ڈوب مروں کہ کیا ہم واقعی اتنے گر چکے ہیں کہ اب پیسہ ہی ہمارا ایمان اور دین بن کر رہ گیا ہے۔ کوئی خاندانی وقار، ذاتی انا کوئی چیز نہیں رہی۔ پیسہ دکھا کر جو کوئی ہم سے کروانا چاہے، کرا لے۔ ذرا دل تھام کر پڑھیں کہ میرے ہاتھ ایک غیرمعمولی سرکاری فہرست لگی ہے کہ کیسے بہت سارے(سب نہیں) ایم این ایز اور سینیٹرز ترقیاتی کاموں کے نام پر ملنے والے کروڑوں روپے کے فنڈز صوبہ خیبر پختون خواہ کے چند اضلاع کے کرپٹ ٹھیکداروں کو بیچتے رہے ہیں۔ ان ٹھیکوں سے ایک کروڑ پر بیس لاکھ روپے کمایا گیا۔ سب سے زیادہ حیرانی مجھے سندھ کے کچھ سینیٹرز پر ہوئی جن کے نام اس فہرست میں شامل ہیں جنہوں نے لکی مروت کے کرپٹ ٹھیکیداروں کو اپنے ترقیاتی فنڈز بیچے۔ ایک سینٹر کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ ملک کے جس شہر میں چاہے فنڈز دے سکتا ہے۔ اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔ خیبر پختون خواہ کے چند اضلاع کے ٹھیکیداروں اور سرکاری محکموں کے افسران نے مل کر ایک اپنی ٹیم بنالی جنہوں نے پنجاب اور سندھ کے ایم این ایز اور سینیٹرز کو گھیرنا شروع کردیا کہ جناب آپ اپنے ترقیاتی فنڈز ہمیں دیں، ہم آپ کو کمشن دیں گے۔ یوں ایک ایسا گھنائونا کھیل کھیلا گیا کہ بندہ حیران ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ مزے خواتین کی مخصوص نشستوں کی ایم این ایز نے کیے۔ ان سب ایم این ایز اور سینٹرز نے ٹھیکیداروں کی چاندی کرائی اور ٹھیکیداروں نے بھی انہیں مایوس نہیں کیا ۔ اگر کابینہ ڈویژن میں سوشل ایکشن پروگرام کے کسی افسر نے اعتراض کیا تو یہ خواتین وہاں پہنچ گئیں۔ دھمکیاں اور گالیاں دے کر پیسے ریلیز کرالیے۔ اپنے پیسے کھرے کیے اور چلتے بنے۔ ایک خاتون ایم این اے نے مجھے بتایا کہ میں آپ کو بتائوں گی کہ کس خاتون ایم این اے نے خیبر پختون خواہ کے کس گائوں میں اپنا فنڈ بیچا ہے۔ میں نے اپنے پاس موجود فہرست پڑھی تو پتہ چلا کہ اس خاتون نے خود اپنا فنڈ ایبٹ آباد میں بیچا ہوا تھا۔ سبحان تیری قدرت! کچھ ایم این ایز اور سینیٹرز نے اسلام آباد میں پیسہ ریلیز کرنے والے افسران اور اہلکاروں کو بھی مال کھلایا تاکہ وہ پیسے جاری کرنے پر اعتراض نہ کریں۔ اگر کسی نے اعتراض کیا تو اس کی جیب گرم کردی گئی یا پھر اس پر گالیوں کی بمباری۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ سندھ کا سینیٹر بھلا کیسے لکی مروت میں پریشر پمپ لگنے کے لیے لاکھوں کروڑوں روپے دے سکتا ہے جب کہ سندھ میں خود پینے کو پانی نہیں ہے۔ ایک سندھی سینیٹر جو میں سمجھتا تھا کہ پیپلز پارٹی کا عام ورکر ہے اور صدر زرداری نے انہیں میرٹ پر سینیٹر بنایا اور وہ روزانہ ٹاک شوز پر بیٹھ کر عوام کا رونا روتے ہیں، کم از کم وہ اس گندے کھیل میں شریک نہیں ہوں گے۔ جب میرے سورس نے مجھے ان کے بارے میں بتایا تو مجھے یقین نہیں آیا کہ وہ بھی اپنا فنڈ لکی مروت کے ٹھیکیداروں کو دے سکتے ہیں۔ سورس نے مجھے ان کا دستخطی خط دکھایا اور میں ششدر رہ گیا۔ کیا پیسہ ہی سب کچھ رہ گیا ہے؟ انسانی آدرش، وقار، عزت سب کچھ ختم اور اب مال بنائو اور چلتے بنو کا موسم آگیا ہے۔ میں نے ایک ٹی وی شو میں لکی مروت کا ذکر کیا تو ایک ٹھیکیدار کا فون آیا کہ آپ کو صرف لکی مروت ہی نظر آتا ہے، جو پنجاب اور سندھ کے ایم این ایز اور سینیٹرز نے بنوں اور ایبٹ آباد کے ٹھیکیداروں کو اپنے فنڈز بیچے ہیں، ان پر بھی تو بولیں۔ میں نے پوچھا چھوڑیں اس بات کو اور یہ بتائیں کہ ایک کروڑ روپے فنڈ پر ایک ایم این اے یا سینیٹر کتنا لیتا ہے۔ وہ بولا ریٹ بیس لاکھ سے لے کر بائیس لاکھ روپے ہے۔ جو ایم این اے اور سینیٹر بہتر ڈیل کر سکتا ہے وہ دو لاکھ اوپر لے لیتا ہے۔ ایک کروڑ روپے کا فنڈ دو اور ایڈوانس میں بیس لاکھ روپے لے لو ۔ ٹھیکیدار جانے، سرکاری محکمے جانیں اور باقی کا اسی لاکھ روپیہ آپس میں تقسیم۔ کمال ہے۔ ایک طرف یہ سینیٹرز اور ایم این ایز غیرت کے نام پر ڈرون حملوں کے خلاف قراردادیں پاس کرتے رہے اور دوسری طرف اندر کھاتے ایک کا بیس بھی کماتے رہے۔ واہ واہ !!