ہمیں بتایا گیا تھا ضلعی حکومتوں کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ناظم کرپٹ ہیں۔ اب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے فرشتوں کی جوکہانیاں سامنے آرہی ہیں وہ کسی کو بھی پاگل کرنے کے لیے کافی ہیں۔ فائلیں پڑھ پڑھ کر تھک گیا ہوں۔ سکینڈلز ہیں کہ ختم ہونے کو نہیں آرہے۔ آئیں‘ ایک نیا سکینڈل پڑھ لیں: آٹھ مارچ کو سابق مشیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین ای سی سی کے اجلاس میں جاکر فرماتے ہیں کہ اوگرا انہیں ملک میں گیس کے نئے کنکشن دینے کی اجازت نہیں دے رہا۔ اوگرا کی اس پابندی کو ختم کیا جائے۔ (یہ حکومت ختم ہونے سے سات دن پہلے کی بات ہے) وزیرخزانہ سلیم مانڈی والا نے پابندی ختم کر دی تو عاصم حسین نے کہا پانچ ارب روپے بھی دیے جائیں تاکہ گیس کنکشن لگوائے جاسکیں۔ گیس کمپنی کو حکم دیا گیا کہ وہ صارفین سے وصول کیے گئے بلوں میں سے پانچ ارب روپے کی گیس سکیمیں منظور کرے۔ یہ وہی عاصم حسین ہیں جو فرماتے رہے کہ ملک میں گیس نہیںہے۔ انہوں نے خود مزید کنکشن دینے پر پابندی عائد کروائی تھی۔ سات مارچ کو پتہ چلا کہ جو فنڈز ایم این اے اور وزرا کے لیے مخصوص کیے گئے تھے وہ کم پڑ گئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے اسی دن حکم دیا کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ کا سائز فوراً بڑھایا جائے۔ چنانچہ گیارہ مارچ کو (حکومت ختم ہونے سے چار دن قبل) دو ارب روپے کا اضافہ کر کے یہ فنڈ ارکان قومی اسمبلی اور وزرا کو دے دیا گیا۔ اس مقصد کے لیے رقوم ان منصوبوں سے نکالی گئیں جو پہلے سے چل رہے تھے۔ لہٰذا ان پر کام رک چُکا ہے۔ خاتون ایم این اے شہناز شیخ جو 2002ء میں پیپلز پارٹی چھوڑ کر جنرل مشرف سے مل گئیں اور پھر ق لیگ میں چلی گئیں، وہ صدر زرداری کے پاس گئیں اور ان سے چالیس لاکھ روپے کا ترقیاتی فنڈ منظور کرا لیا۔ ایک سکیم بنا کر بھیجی کہ اسلام آباد کے اللہ ڈتہ گائوں میں بجلی لگوائی جائے۔ اس کی کل لاگت 33 لاکھ روپے تھی۔ پتہ چلا وہ ان کا اپنا زرعی فارم ہے۔ سرکاری محکمے شور مچاتے رہ گئے کہ یہاں صرف ایک فارم ہائوس ہے جبکہ قانون کے تحت دس گھر ہوں تو بجلی کی سکیم دی جاسکتی ہے۔ لیکن وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے حکم دیا کہ اس فارم ہائوس پر سرکار کے خرچ پر بجلی لگائی جائے۔ یوں شہناز شیخ نے ٹیکس گزاروں کے پیسوں سے اپنے گھر بجلی لگوالی۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ محترمہ پہلے ہی دوہری شہریت پر نااہل ہو چکی ہیں۔ دوست محمد کھوسہ پر اپنی اہلیہ سپنا کو قتل کرنے کا مقدمہ چل رہا تھا۔ وہ نواز لیگ کو بلیک میل کرنے کے لیے پیپلز پارٹی سے اندر کھاتے مل گئے اور کروڑوں روپے کا فنڈ پیپلز پارٹی سے لے گئے۔ مصطفی کھوکھر کروڑوں کا فنڈ لے گئے۔ قیوم سومرو کو بھی فنڈ ملا۔ مرتضیٰ ستی نے ستر کروڑ روپے سے زیادہ کا فنڈ وصول کیا۔ راجہ پرویز اشرف نے تین ارب روپے پنجاب کے ایک سو تیس معززین میں بانٹ دیے۔ چالیس کروڑ روپے کی شکل میں سب سے زیادہ خیرات اپنے بھائی کو دی۔ وہ گجر خان کے معزز جو ٹھہرے۔ مسلم لیگ (ن) کے ظفر علی شاہ کو حکم ہوا کہ اپنا ایک کروڑ روپیہ پوٹھوہار کے غریبوں پر خرچ کرنے کے لیے دے دیں؛ چنانچہ وہ میاں نوازشریف کے داماد کیپٹن صفدر کو بجھوا دیا گیا۔سینٹر پرویز رشید نے ایک کروڑ‘ ملتان کے رفیق رجوانہ نے بھی ایک کروڑ روپیہ مانسہرہ بھجوایا جو کیپٹن صفدر کا حلقۂ انتخاب ہے۔ رحیم یار خان کے سینیٹر چودھری جعفر اقبال گجر نے بھی جن کا پورا خاندان اقتدار میں رہتا ہے، اپنا ایک کروڑ اپنے قائد کے داماد پر قربان کر دیا کیونکہ چولستان کے مفلوک الحال باسیوں کو اس کی ضرورت نہیں تھی۔ لاہور سے اسحاق ڈار کا بھی یہی خیال تھا کہ ان کے ایک کروڑ روپے کے حقدار پنجاب کے عوام سے زیادہ کیپٹن صفدر کے حلقے کے لوگ ہیں۔ بہاولپور کی خاتون ایم این اے شیریں ارشدکو بتایا گیا کہ چولستان میں پیاس سے مرتے پکھی واس لوگوں سے زیادہ حقدار کیپٹن صفدر ہیں اور یوں ان کے پانچ کروڑ روپے مانسہرہ بجھوا دیے گئے۔ بہاولپور کی ایک اور ایم این اے پروین بھٹی زیادہ سمجھدار نکلیں۔ انہوں نے جہاں اپنے پیسے کیپٹن صفدر کو دیے وہاں چپکے سے لاکھوں روپے لکی مروت بھی بھیج دیے۔ اے این پی مردان کی ایم این اے جمیلہ گیلانی کو حکم ہوا کہ اپنا پانچ کروڑ روپیہ چارسدہ میں اسفندیار ولی کے حلقے میں بھجوا دو۔ حکم کی تعمیل کی گئی۔ مردان جائے بھاڑ میں! پیپلز پارٹی کے سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے بھی یہی سوچا کہ سندھ کی ترقی تو راتوں رات ہونے سے رہی، پہلے لکی مروت میں پریشر پمپ لگنا چاہیے؛ چنانچہ ستر لاکھ کا فنڈ وہاں بھیج دیا ۔ چکوال کی پلوشہ بہرام نے اپنا ایک کروڑ چکوال کی بجائے لکی مروت بجھوایا ۔ وہ کہتی ہیں ان کے آبائو اجداد اس علاقے سے آئے تھے۔ پیپلز پارٹی کی روبینہ قائم خانی نے بھی گنگا میں ہاتھ دھونے کا فیصلہ کیا اور ایک کروڑ روپیہ لکی مروت بھجوا دیا۔ سینیٹرز فرماتے ہیں کہ وہ اپنا فنڈ کہیں بھی دے سکتے ہیں۔ کیا وہ دوسرے صوبے سے سینٹ کا الیکشن بھی لڑ سکتے ہیں ؟ ان دنوں میں ہر ایم این اے کیا کچھ لے گیا‘ سب کو علم ہے۔ یہ پیسہ ضائع ہوگا اور اس میں بڑے پیمانے پر کمیشن کھائے جائیں گے۔ سب لوٹنے کو تیار بیٹھے ہیں ۔ لکی مروت کی تقدیر کھل گئی۔ اچانک ہر ایم این اے کو فکر پڑ گئی کہ وہاں پریشر پمپ نہیں ہے۔ یوں ایک کے بیس کا کھیل شروع ہوگیا ۔ ایک کروڑ روپے دیں اور بیس لاکھ روپے اپنی جیب میں رکھ لیں۔ میڈیا کے بعض لوگوں کو استعمال کرتے ہوئے سمجھدار سیاستدانوں نے طے کر لیا کہ لوٹ مار ان کا حق ہے۔ لوئر مڈل کلاس سے اوپر آنے والا بیوروکریٹ ڈپٹی کمشنر بننے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتا ہے۔ پانچ سال تک ہر ضلع ایم این اے اور ایم پی اے کے حوالے کر دیا گیا کہ کھل کر موجیں کرو‘ کوئی نہیں پوچھے گا۔ پنجاب میں بابوئوں نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر لوٹا تو سندھ میں یہ کام پیپلز پارٹی کے سائے میں کیا گیا۔ دونوں پارٹیوں کو ملک پر رحم نہیں آیا۔ تبدیلی کیسے آتی؟ اس کے برعکس تبدیلی کو روکنا ضروری ہو گیا کہ نئی لیڈرشپ ابھر رہی تھی۔ لاہور میں مسلم لیگ (ن) کی ریلی کی قیادت حمزہ شہباز اور مریم نواز نے کی۔ ادھر بلاول بھٹو زرداری ملک سے باہر گیا تو سب پریشان ہوگئے کہ اب الیکشن ریلی کی قیادت کون کرے گا۔ سیاسی پارٹیاں دربار کی شکل اختیار کر گئی ہیں۔ باپ کے بعد بیٹا یا بیٹی۔ صدیوں سے ذہنی اور جسمانی غلامی کے عادی برصغیر کے لوگ اس نفسیاتی عذاب سے کب چھٹکارا پائیں گے؟