"RKC" (space) message & send to 7575

انسانی حقوق سے جڑے رومانس کی موت!!

ہر انسان کی طرح میرے اندر بھی کئی رومانس موجود ہیں ۔ پرانے مر جاتے ہیں، نئے جنم لیتے ہیں۔ انہی خوابوں کے سہارے ہی سانسیں چل رہی ہیں۔ ایک پرانا رومانس اس وقت ختم ہوا جب انسانی حقوق کی علمبردار حناجیلانی کے ساتھ ایک ٹی وی شو میں ٹاکرا ہوا۔ان کا کہنا تھا ڈی ایچ اے لاہور اور کراچی کی سڑکوں پر دھرنا دیے نوجوان دھونس دھمکی دکھانا چاہتے ہیں جس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان میں پہلے ہی الیکشن میں چھوٹی موٹی دھاندلیاں ہوتی رہی ہیں، اگر اب ہوگئی ہیں تو کون سی انہونی بات ہے؟ حناجیلانی کے لہجے میں احتجاج کرتے نوجوان کے لیے تلخی محسوس کر کے نہ صرف میں حیران ہوا بلکہ کچھ اور لوگوں کو بھی حیرانی ہوئی۔ میں خود ایک لمحے کے لیے سُن ہو کر رہ گیا۔ کیا انسانی حقوق کمشن پاکستان کے عہدیدار بھی اس طرح کی بات کر سکتے ہیں جو ہم کبھی جنرل ضیاء اور جنرل مشرف سے سنتے آئے تھے ؟ کئی ٹاک شوز اور نجی محفلوں میں بیٹھ کر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اس ادارے کا اپنے دوستوں کے سامنے دفاع کیا۔ کئی تعلقات خراب کیے لیکن یہ سمجھ کر بحث کرتے رہے کہ اگر کوئی ادارہ پاکستان میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے کام کررہا ہے تو اس کی حمایت جاری رکھنی چاہیے۔ خود مجھے لگتا تھا کبھی ہم جیسے سر پھروں پر برا وقت آیا تو شاید کمشن کی طرف سے پریس ریلیز جاری ہوجائے۔ اب پتہ چلا ہے ان کے نزدیک انسانی حقوق وہ ہوتے ہیں جو ان کے ایجنڈے میں فٹ ہوتے ہیں، وگرنہ باقی لوگوں کا احتجاج ان کے نزدیک دھونس دھاندلی ہے اور اس پر زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ خود عاصمہ جہانگیر ان دو تین لوگوں میں سے تھیں جنہوں نے بارہ اکتوبر کی فوجی بغاوت کے خلاف کھل کر بات کی تھی جس کے بعد مجھ سمیت بہت سارے لوگوں کے دلوں میں ان کی عزت بڑھ گئی تھی ۔ میرا خیال ہے عاصمہ جہانگیر شاید یہ بات کبھی نہ کہتیں لیکن حنا جیلانی کے اندر ان نوجوانوں کے مطالبات پر تلخی محسوس کر کے میں خود افسردہ ہوا۔ اگر کسی کا اپنے ساتھ ہونیو الی زیادتی کے خلاف احتجاج دھونس کے مترادف ہے تو کیا انسانی حقوق کمشن اور حنا جیلانی خود ایسے مظاہرے نہیں کرتی رہیں تاکہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے ریاستی اداروں پر دبائو بڑھایا جائے ؟ جمہوریت اور آمریت میں کیا فرق ہے ؟ یہی فرق ہے کہ آمر اپنے خلاف احتجاج کو دھونس اور دھمکی سمجھ کر کارروائی کرتے ہیں۔ کسی کو اجازت نہیں ہوتی کہ چار لوگ ایک جگہ اکٹھے ہوسکیں ۔ جب کہ جمہوریت اپنے شہریوں کو یہ حق دیتی ہے وہ اپنے حقوق اور زیادتی کے خلاف پرامن مظاہرے کر سکتے ہیں۔ سول سوسائٹی باہر نکل سکتی ہے۔ کیا سول سوسائٹی وہ ہے جو انسانی حقوق کمشن کے ساتھ مظاہروں میں شریک ہوتی ہے اور جو سوسائٹی ان سے ہٹ کر مظاہرے کرتی ہے اُسے کوئی حق نہیں ہے کہ وہ مظاہرے کر سکے۔ تو کیا یہ نوجوان مطالبات منوانے کے لیے تشدد پر اتر آئیں؟ آمریت میں ہمیشہ تشدد بڑھ جاتا ہے کیونکہ لوگوں کو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف آواز اٹھانے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ جب کہ جمہوریت میں آپ بول سکتے ہیں، نعرے لگا سکتے ہیں، دھرنے دے سکتے ہیں، حکومتوں کو مجبور کر سکتے ہیں۔ ان دھرنوں کا سب سے بڑا اثر ہم نے اس وقت دیکھا جب کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ برادری کے لوگوں نے لاشیں رکھ کر پرامن احتجاج کیا ۔ یہ خاموش احتجاج اتنا مؤثر نکلا کہ صوبائی حکومت کو طرف کر دیا گیا۔ سول سوسائٹی کی طاقت کا یہ پہلا بڑا مظاہرہ تھا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے پوری سول سوسائٹی باہر نکلی اور اس وقت جنرل مشرف اور ان کے وزراء حنا جیلانی کی طرح ہمیں بتاتے تھے کہ یہ سب دھونس دھمکیاں ہیں اور وہ اس دبائو میں نہیں آئیں گے۔ تو کیا ہوا؟ سول سوسائٹی نے اپنے آپ کو پھر منوا لیا اور پہلی دفعہ نئی روایات پڑیں کہ لوگوں نے ریاستی اداروں کی نااہلی اور زیادتیوں کے خلاف احتجاج کر نے کے بنیادی حق کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔ پاکستانی معاشرہ اب انگڑائی لے رہا ہے۔ لوگ جائز مطالبات منوانے کے لیے گھروں میں نہیں بیٹھے رہیں گے۔ کسی کو ریاستی طاقت کی مدد سے لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ توقع یہ تھی کہ انسانی حقوق کمشن اس وقت نوجوانوں کے ساتھ کھڑا ہوگا جو سمجھتے ہیں کہ ان کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور ان کے ووٹ چرا لیے گئے ہیں۔ چاہے وہ نوجوان غلط ہی کیوں نہ ہوں لیکن یہ ان کا جمہوری اور انسانی حق ہے کہ وہ اپنے ساتھ زیادتی کے خلاف آواز اٹھائیں۔ان نوجوانوں نے اب تک سب کو متاثر کیا ہے۔ کسی نے کوئی پتھر نہیں مارا، کوئی جھنڈا نہیں جلایا، نہ کسی گھر کو جلایا، کسی گاڑی کا شیشہ نہیں توڑا۔ اس پروگرام میں حناجیلانی خود کہتی ہیں کہ لاہور الیکشن میں کسی حد تک دھاندلی اور بدانتظامی ہوئی ہے اور وہ خود اس کی گواہ ہیں۔ چونکہ یہ سب کچھ پاکستان میں چلتا ہے لہٰذا یہ کوئی ایسی بات نہیں۔ اگر ووٹ چوری ہونا کوئی بات نہیں ہے تو پھر پاکستان میں عورتوں سے زیادتیاں، اغواء، تشدد، بھٹے پر غریبوں کا استحصال‘ جاگیرداروں کی ہاریوں سے زیادتیاں بھی پاکستان میں معمول کی باتیں ہونی چاہئیں، ان پر کیوں انسانی حقوق کمشن شور مچاتا ہے ؟ کمشن کو سمجھنا ہوگا کہ اب یہ وہ پاکستان نہیں رہا جس میں کہ ’’سب چلتا ہے لہٰذا کسی کی دھونس میں آنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔ یہ نوجوان اس لیے باہر نکلے ہیں کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ الیکشن کمشن آزاد ہے، عدالتیں آزاد ہیں، میڈیا آزاد ہے اور سول سوسائٹی جاگ چکی ہے لہٰذا کسی کا ووٹ چرانا اب ممکن نہیں رہا۔ اس کے لیے بیسویں ترمیم لائی گئی اور ہمیں بتایا گیا کہ اب نگران حکومتیں الیکشن کرائیں گی ۔ سب کو بتایا گیا کہ تاریخ کے شفاف ترین الیکشن ہوں گے۔ تو یہ وہ شفاف الیکشن ہیں کہ بعض جماعتیں احتجاج کر رہی ہیں مگر اُنہیں یہ درس دیا جا رہا ہے کہ چپ رہیں اور جمہوریت کے نام پر کمپرومائز کریں کیونکہ یہ سب کچھ پاکستان میں الیکشن کے دوران ہوتا ہے؟ اُن کی تلقین کا صاف صاف مطلب ہے کہ پاکستان میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ یعنی دھاندلی کرنے والا ہی الیکشن جیت سکتا ہے ہمیں چپ رہنا چاہیے۔ تو کیا یہ سب اس وجہ سے ہے کہ عمران خان نے عاصمہ جہانگیر کے نگران وزیراعظم بننے پر اعتراض کیا تھا لہٰذا اب انہیں تحریک انصاف کے نوجوانوں کا احتجاج بھی دھونس دھمکی محسوس ہوتا ہے؟ کیا انسانی حقوق کے لیے تیس سال تک جدوجہد کرنے والوں کا یہ انجام ہونا تھا کہ عمران خان سے ذاتی عناد ان کے اپنے اصولوں سے زیادہ اہم ہوگئی ہے ؟ اب یہ سب سوچ کر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں سے جڑے اپنے اس رومانس کی موت پر افسردہ بیٹھا ہوں !

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں