الیکشن کا ہنگامہ کم ہوا تو خیال آیا کہ کچھ کتابیں پڑھنے کے لیے رکھی ہیں۔ سب سے پہلے شورش کاشمیری کی ’’پسِ دیوارِ زنداں‘‘ اٹھالی ۔ کیا شاندار کتاب ہے۔ پڑھ کر پانچ برس پرانا بوجھ کندھوں سے اُتر گیا۔ گولڈ اسمتھ کالج لندن میں برطانیہ کی تاریخ کے پروفیسر نے ہمیں بتایا کہ جنگ عظیم دوم کے بعد گوروں کو علم ہوگیا تھا کہ دنیا بدل گئی ہے لہٰذا بہتر ہوگا اپنی عزت بچائی جائے۔ فیصلہ کیا گیا کہ دنیا کے جن ملکوں پر برطانیہ کی حکومت ہے انہیں آزادی دے دی جائے وگرنہ برطانیہ کو بچانا مشکل ہوجائے گا۔ میں نے پروفیسر سے پوچھ لیا: ہمیں تو بتایا گیا ہے کہ ہمارے آبائو اجداد نے بڑی جدوجہد کے بعد انگریزوں سے آزادی حاصل کی تھی۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ خود انگریز اس قابل نہیں رہ گئے تھے کہ وہ ہندوستان پر مزید حکومت کرسکتے‘ لہٰذا اسے آزادی دے دی گئی۔ پروفیسر بولا: اگر آپ کے آبائو اجداد اتنے بہادر اور باغی تھے تو پھر وہ برطانیہ سے 1920ء کی دہائی میں آزادی لے لیتے جیسے کچھ اور ملکوں نے لے لی تھی۔ یہ کہہ کر پروفیسر دوبارہ لیکچر دینے لگا اور میں ڈیپریس ہو کر بیٹھ گیا۔ تحریکِ احرار کے سرکردہ راہنما شورش کاشمیری کی کتاب پڑھتے ہوئے اندازہ ہوا کہ میں غلط ڈیپریس ہوا تھا ۔ ملتان میںانگریز فوج میں بھرتی کے خلاف تقریر کرنے پر شورش کاشمیری کو عدالت میں پیش کیا گیا تو جج نے پوچھا آپ نے کیا جرم کیا ہے؟ جواب دیا: ’’میں نے کوئی جرم نہیں کیا‘۔ میں نے اپنے ملک کی عزت اور آبرو کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔ جب تک ہندوستان کی آزادی تسلیم نہیں کی جاتی فوج میں بھرتی ہونا قطعی حرام ہے۔ یہ کہنا اگر جرم ہے تو میں واقعی مجر م ہوں ورنہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ جج صاحب! غور فرمائیں‘ غیرملکی حکمرانوں نے ہمیں کہاں تک شرف انسانی سے محروم کر رکھا ہے ؟ اس عہد استبداد کا یہ پہلو کس قدر خوفناک ہے کہ ہماری غلامی کی زنجیریں ڈھالنے کے لیے ہمارے ہی بھائی بندوں کو مقرر کیا گیا ہے۔ یہ شرمناک تماشا صرف ہندوستان کی سرزمین پر ہی کھیلا جارہا ہے کہ جو لوگ ملک کی آزادی چاہتے ہیں ان کا گلا گھونٹنے کے لیے ہمارے ملک کے باشندوں کو ہی استعمال کیا جارہا ہے۔ پولیس کے سپاہی، استغاثہ کے گواہ، پراسیکیوٹنگ انسپکٹر‘ یہ سب کون ہیں؟ یہ ہمارے ہی بھائی بندہیں۔ آپ انصاف کی کرسی پر، میں ملزموں کے کٹہرے میں ۔ کیا ہم ایک ہی مادر ِوطن کے فرزند نہیں ؟عدالت کا ضمیر بھی تسلیم کرتا ہوگا کہ استغاثہ کے گواہوں نے جھوٹ بولا ہے، پولیس نے دھاندلی کی ہے اور یہ جو ڈرامہ کیا گیا ہے اس کی بنیاد میں ظلم کے سوا کچھ نہیں ۔ میں نے اس مقدمے کی کارروائی میں حصہ نہیں لیا ، کسی گواہ پر جرح نہیں کی۔ میں جانتا ہوں ان کے ایمان سلب ہو چکے ہیں، ان کی حمیت دفن ہوگئی ہے۔ ان کی غیرتوں کو قضا چاٹ گئی ہے۔ ان کے ضمائر ساقط ہیں۔ یہ لوگ جھوٹ بولتے رہے ہیں ۔ میں مسکراتا رہا۔ میرے نزدیک یہ سب پولیس کے طوطے ہیں۔ میں انہیں معاف کرتا اور دعا دیتا ہوں کہ اللہ تعالی انہیں معاف کرے۔ مجھے ان مسلمان گواہوں پر حیا آتی رہی جو اپنے رب کی قسم کھا کر گواہوں کے کٹہرے میں جھوٹ بولنے کے لیے کھڑے کیے گئے اور وہ کھڑے ہوگئے۔ جب میںیہ سوچتا ہوں کہ انہوںنے اپنے مسلمان بھائی کے خلاف انگریز جبر کی حمایت میں جھوٹ بولا تو میرا سر ندامت سے جھک جاتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ حشر کے دن اللہ کو کیا جواب دیں گے۔ کس منہ سے کہہ سکیں گے وہ سرور کائناتؐ کی شفاعت کے طلب گار ہیں جو تمام غلاموں کو نجات دلانے کے لیے مبعوث ہوئے تھے۔ جج صاحب! آپ کو بھی کرسی چھوڑ دینی چاہیے کہ انگریز حکومت کے ساتھ تعاون بھی گناہ ہے اور اس کے خلاف بغاوت ایک قومی فریضہ ۔ مجھے مت ٹوکیں۔ مجھے سب کچھ کہنے دیں ۔ ممکن ہے مقدمہ کی یہ فائل آئندہ کسی تاریخ کا حصہ ہو۔ اگر صرف استغاثہ کا ریکارڈ رہا تو تاریخ ادھوری رہے گی۔ میں نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہے۔ پولیس نے میرا جرم پیش کر دیا ہے لیکن اپنا جرم پیشں نہیں کیا۔ اگر پولیس شیوہ مردانگی رکھتی تو اپنا جرم بھی تسلیم کرتی کہ اس نے جلسہ عام میں ظالمانہ تشدد روا رکھا اور حوالات میں بہیمانہ سلوک کیا۔ تعجب ہے کہ اب اسی پولیس نے عدالت میں شریف زادی کا روپ دھار لیا ہے۔ کیا پراسیکیوٹنگ افسر ایک ایسے انسان کو فریاد کا حق بھی نہیں دینا چاہتے جو پولیس کے قہروغضب کا شکار ہوا ہے‘ جس کو اتنے تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ زندگی اور موت کے درمیان برائے نام فاصلہ رہ گیا تھا ۔ جو کچھ پولیس نے بھرے جلسۂ عام میں کیا اور جو سلوک تھانے میں روا رکھا گیا، اس کی روحانی اور جسمانی ضربیں اتنی مہلک ہیں کہ میں اپنے دل میں پولیس کے لیے کوئی عزت اور احترام نہیں رکھتا۔ میں یہی کہوں گا‘ خواہ مجھے اس کے لیے جان ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ جان کوئی چیز نہیں، عزت بڑی چیز ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ پولیس نے انسان کی عزت کے مسئلہ پر کوئی غور نہیں کیا۔ عدالت کے ریکارڈ پر نہ سہی لیکن آپ نے سنا ہوگا کہ پولیس نے میرے ساتھ کیا کیا۔ جلسہ گاہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ لٹھ بند پولیس نے ہر طرف سے ناکہ بندی کرلی۔ پولیس نے نہتے عوام پر اس طرح حملہ کردیا جیسے دشمن غیر ملکیوں پر چڑھ دوڑتا ہے۔ عوام کو بری طرح بے عزت کیا گیا ۔ ہزاروں آدمی اپنے جوتے اور پگڑیاں چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ مجھے اسٹیج سے کھینچ کر زمین پر گرالیا ۔ ڈنڈے، مکے گھونسے، طمانچے‘ گالیاں… بعض کانسٹیبلز مجھ پر اس طرح ٹوٹ پڑے جیسے چیل جھپٹا مار رہی ہو۔ مسٹر ایون لوگوں کو پیٹ کر پلٹتا تو مجھے پیٹنے لگتا۔ چھڑی اور ہاتھ کے کرتب دکھاتا رہا۔ ایک رخسار پر چھڑی مارتا دوسرے پر طمانچہ۔ ملتان حرم دروازے کے تھانہ میں یہ ظلم انتہا کو پہنچ گیا۔ اراٹون، ٹیل اور ایون… ان تینوں نے مجھے حوالات سے نکلوایا۔دو مشٹنڈے کانسٹیبلوں نے مجھے فرش پر پٹخا‘ دو نے بازو دبائے، لیکھ راج سب انسپکٹر اور صالح محمد نے جوتے مارنے شروع کیے۔ یہ تماشہ کوئی آدھ گھنٹہ جاری رہا۔ آخر جب میں حواس کھو بیٹھا تو مجھے حوالات سے اٹھا کر ایک علیحدہ کمرے میںبند کر دیا جہاں فرش پر پیشاب کا چھڑکائو کرایا گیا تھا اور چٹائی نکال لی گئی تھی۔ میں نے جلسہ میں کہا تھا کہ گھر سے ملتان آنے کے لیے نکلا تھا تو بہن کی شادی میں ایک ہفتہ باقی تھا۔ اس کو صدمہ ہوا۔ اس نے کہا بھیا کہاں جارہے ہو۔ میں نے کہا جیل خانے۔ وہ اداس ہوگئی اور بولی تو اب اس وقت آنا جب انگریز جا چکا ہو اور ملک آزاد ہو۔ یہ آئے دن کا آنا جانا ٹھیک نہیں۔ایون کو میرے یہ الفاظ یاد تھے۔ اس نے مجھے مارتے ہوئے کہا‘ حرام زادہ‘ ہم ادھر تھانے میں تمہاری بہن کو بھی بُلا کر بے عزت کرے گا اور اس کی ٹانگوں پر بید لگائے گا۔ میں معاف کرتا ہوں ان تمام پولیس والوں کو جنہوں نے کلمہ پڑھ کر مجھے زدوکوب کیا۔ میں معاف کرتا ہوں صالح محمد تھانے دار کو جس نے اپنے نام کو رسوا کیا ۔ میں معاف کرتا ہوں ایون، اراٹون اور ٹیل کو جو حادثاتی طور پر مر ے۔ ان کی موت ان لوگوں کے لیے تازیانہ عبرت ہے جو ظلم کے انجام سے بے خبر ہیں اور جن کی مائوں نے انہیں برطانوی استعمار کے لیے پیدا کیا ہے۔ آپ میر ا فیصلہ لکھ لیجئے۔ خدا اپنا فیصلہ لکھوا رہا ہے بلکہ لکھوا چکا ہے۔ وہ تمام ضربیں جن کے نشانات میرے جسم پر موجود ہیں‘ اس حکومت کے تابوت میں آخری میخ ثابت ہوں گے اور جن لوگوں کو اپنی غلامی پر فخر ہے وہ ایک دن عوام کے انقلاب کی زد میں ہوں گے۔ تب انہیں محسوس ہوگا وہ نئی صبح کے باغی تھے اور ایک مٹ جانے والی رات کے پرستار۔۔یہ سب کچھ میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں۔ انقلاب اپنی پوری تابانیوں کے ساتھ آرہا ہے۔ جنگ عظیم دوم کوئی جیتے، ملک آزاد ہوگا ۔ انقلاب زندہ باد‘‘۔ شورش کاشمیری نے عدالت میں بیان ختم کیا تو دیکھا سب دوست رو رہے تھے۔ لالہ سنت رام کی آنکھوں میں بھی نمی آگئی تھی ! انگریز کی عدالت میں 72برس قبل دیا گیا شورش کاشمیری کا یہ بیان پڑھ کر ہم سب کی آنکھوں میں نمی اتر آئے گی۔ یہ سب کچھ پڑھ کر پانچ برس قبل انگریز پروفیسر کے طنزیہ جملے کا بوجھ میرے کندھوں سے اتر گیا ہے !