برطانوی جنگی جہاز اڑتے ہیں اور پی آئی اے کے مسافر طیارے کو گھیرے میں لے کر اتارتے ہیں اور جن مسافروں کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوتا ہے وہ فرماتے ہیں ہم تو مذاق کر رہے تھے۔ دنیا نے ہمیں دھمکی دے دی ہے کہ پاکستان میں پولیو کیسز سامنے آنے کی وجہ سے پاکستانیوں کے بیرون ملک سفر بین کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ہم ہیں کہ پولیو ورکرز کو گولیاں مار رہے ہیں ۔ یہ بھی تو ایک مذاق ہے کہ کیوں چند لوگ ان کے بچوں کو معذور ہونے سے بچانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ جو قوم معذور ہونے کا فیصلہ کر چکی ہو‘ اسے کون بچا سکتا ہے! وہ دو مسافر اس ملک کے ساتھ مذاق کرنے والے اکیلے نہیں ہیں ۔ فہرست بہت طویل ہے۔ گجرات میں ہفتہ کے روز صبح سویرے ایک ویگن میں گیس سلنڈر پھٹنے سے بیس بچے جل گئے۔ سینکڑوں لوگ ویگنوں میں سلنڈر پھٹنے سے مر چکے ہیں۔ یاد آیا آزادکشمیر میں درجنوں سکول جاتے بچے ناپختہ ڈرائیور کی غلطی کی وجہ سے دریا میں جا گرے جن میں تین سگے بھائی بھی شامل تھے۔ ماں کو پتہ چلا تو اس نے بھی دریا میں کود کر جان دے دی۔ ہمارے نزدیک یہ بھی مذاق تھا ۔ خسرے کی بیماری کی وجہ سے ایک ہزار سے زائد بچے مر چکے ہیں ۔ وفاقی محتسب سلمان فاروقی نے جو انکوائری رپورٹ کابینہ کے اجلاس میں پیش کی، اسے پڑھ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کسی کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگی۔ راجہ پرویز اشرف اور ان کی کابینہ نے ایک منٹ کے لیے اس رپورٹ پر بحث نہیں کی کیونکہ ان کے نزدیک یہ سب کچھ مذاق تھا ۔ پنجاب کو 2012ء میں سوا سات کھرب روپے نیشنل فنانس کمشن سے حصہ ملا ۔ ان پانچ برسوں میں تختِ لاہور کے حکمرانوں کے پاس چند کروڑ روپے نہیں تھے کہ وہ لاہوریوں کے لیے آگ بجھانے کے جدید آلات ہی خرید پاتے اور یوں ہم سب نے ایل ڈی اے پلازہ سے لوگوں کو کود کر مرتے ہوئے دیکھا ۔ گھنٹوں آگ لگی رہی کسی کو توقیق نہ ہوئی کہ وہ نیچے زمین پر کوئی ایسا انتظام کر لیتے کہ لوگ چھلانگ لگا کر ہی جان بچا سکتے۔ سب منہ اٹھا کر اوپر سے گر کر مرنے والوں کا تماشہ دیکھتے رہے۔ ان سب کے نزدیک یہ بھی ایک مذاق تھا کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے سامنے کود کر جان دے رہے تھے۔ زندن دلانِ لاہور کو سلام جنہوں نے پھر بھی وہی حکمران اپنے لیے دوبارہ چنے۔ کوئی پوچھ کر دکھائے وہ سات کھرب روپے پنجاب میں کہاں خرچ ہوئے ہیں اور پنجاب کے کس ضلع کو کیا ملا ؟ پنجاب کے عوام بھی تماشوں پر خوش رہتے ہیں لہٰذا ان پر حکومت کرنا ہمیشہ آسان رہا ہے‘ چاہے وہ غیرملکی ہوں یا مقامی ۔ یاد آیا محمود غزنوی کے برخوردار کو غوریوں نے مار بھگایا تو وہ لاہور پر پانچ سال حکمران رہا ۔ پنجاب کے حکمرانوں کے بارے میں کوئی بات کرو تو سب ناراض ہوجاتے ہیں ۔ اب تو ویسے ہی مینڈیٹ مل گیا ہے لہٰذا کوئی بات کرنا گستاخی ہوگی۔ جب اچانک پورے ملک میں ناقص گیس سلنڈر سے اموات ہونا شروع ہوئیں تو کئی ماہ تک سوچ بچار ہوتی رہی کہ انہیں بین کیا جائے کہ نہیں۔ اس دوران مزید اموات ہوچکی تھیں۔ فیصلہ ہوا اب بین کر دیا جائے اور انہیں ویگنوں سے اتارا جائے۔ اس فیصلے پر عمل کون کرائے؟ ڈی سی صاحب ماسوائے حکمران جماعت کے ایم این اے اور ایم پی اے کے علاوہ کسی کو جواب دہ نہیں۔ ڈی سی تین لوگوں کو خوش رکھ کے پورے ضلع پر حکومت کرتا ہے۔ کیا یہ کام ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کا نہیں کہ وہ یہ دیکھے کہ بس ویگن ڈرائیورز کو لائسنس کیسے مل رہے ہیں۔ ایک سے زائد گیس سلنڈر کیوں لگے ہوئے ہیں؟ کیا ٹیسٹ ہورہا ہے؟ یا کچھ روپے سپاہی کی جیب میں ڈال کر لائسنس فروخت ہورہے ہیں؟ پولیس ہی بچوں کی قاتل ہے جسے ہم نے ہی پیسے لے کر سفارش پر بھرتی کرایا ہے۔ وہ لوگ اب اپنا گھر پورا کر رہے ہیں۔ سب گھر ہی میں موٹر سائیکل اور پھر ٹریکٹر چلا کر لائسنس لینے کے حقدار بن جاتے ہیں ۔ یوں ہر روز سڑکوں پر لوگ مارے جارہے ہیں اور کبھی کسی کونے سے کوئی آواز نہیں اٹھتی کہ اس قتل عام کا کون ذمہ دار ہے۔ عوام کو نعرے چاہئیں۔ جو جتنا بڑا مداری ہے اُتنا کامیا ب ہے۔ خسرہ انکوائری رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جن سیاستدانوں نے اٹھارویں ترمیم پاس کی تھی انہوں نے ہوم ورک پورا نہیں کیا تھا کہ کون سا محکمہ کس کو جائے گا ۔ صوبوں کو محکمے ملے تو انہوں نے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ۔ ویکسینیشن کی ضرورت پڑی تو پتہ چلا کہ کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے کہ کہاں سے خریدنی ہے اور کون منظوری دے گا ۔ بچے مرتے رہے اور سیاستدان اور بیوروکریٹ بچوں کے مرنے کا تماشہ دیکھتے رہے۔ رپورٹ مانگی گئی تو پتہ چلا کہ سب اچھا کی رپورٹ ہے۔ سب بچوں کو ویکسین پلا دی گئی ہے۔ سب جھوٹ تھا۔ پتہ چلا ان بچوں کو بھی خسرہ ہوا ہے جنہیں ویکیسن پلائی گئی تھی۔ جو ویکسین خریدی گئی تھی اسے باورچی خانوں میں رکھا گیا تھا جہاں چائے اور کھانے پکتے تھے حالانکہ اسے مخصوص ٹمپریچر پر رکھنا ہوتا ہے اور تین دن کے اندر اندر استعمال کرنا ہوتا ہے۔ ان بچوں کی اموات کا خون کس کی گردن پر ہے ؟ ان سیاستدانوں پر جنہوں نے ہوم ورک کیے بغیر محکمہ صحت صوبوں کو دے دیا اور اب مرکز کو کچھ علم نہیں ہے کہ صوبوں میں کون کیا کر رہا ہے؟ صوبائی خودمختاری کا نعرہ تو بہت اعلیٰ اور پرکشش تھا لیکن اس خودمختاری کے ساتھ جو ذمہ داریاں ہیں، انہیں نبھانے کا نہ حوصلہ ہے اورنہ ہی قابلیت۔ چلیں صوبائی خودمختاری تو مل گئی۔ ہماری بیوروکریسی سب سے زیادہ مزے میں ہے کہ اس سے کوئی پوچھنے کو تیار نہیں ہے۔ سب لوگ سیاستدانوں کو گالی دے کر خوش ہوجاتے ہیں ۔ کیا ان لاکھوں بیوروکریٹس اور سرکاری ملازمین کو تنخواہ نہیں ملتی؟ کیا ہر بیوروکریٹ اور افسر پر ایک سپاہی یا وزیر بٹھا دیا جائے جو ان کو بتائے کہ انہوں نے کیا کام کرنا ہے؟ ایک ضلع کے ڈرائیونگ محکمے کو درست کرنے میں کتنی دیر لگتی ہے؟ ڈی پی او اور ڈی سی کھڑے ہو کر سب کے ٹیسٹ لینے شروع کردیں تو معاملات درست نہیں ہوسکتے؟ ویگنوں میں لگے گیس سلنڈر اتروانے کے لیے کون سی راکٹ سائنس کا ہونا ضروری ہے؟ کیا یہ کام بھی ایم پی اے اور ایم این اے کے کہنے پر ہی ڈی سی اور ڈی پی او کرے گا تاکہ وہ خوش ہوجائیں اور ان کی ٹرانسفر نہ ہو ۔ کیا یہ بابو اپنی طرف سے کچھ نہیں کریں گے اور سڑکوں پر بچے جلتے رہیں گے اور ہم اسے اللہ کی رضا سمجھ کر جیے جائیں گے ؟ شور مچا مچا کر تھک گئے ہیں کہ جب تک ضلعی حکومتیں نہیں بنیں گی اور بیوروکریسی لوکل سطح پر ان کے تابع نہیں ہوگی، تبدیلی نہیں آئے گی ۔ کوئی ضلعی نظام نہیں چاہتا اور نہ ہی کوئی پوچھنا چاہتا ہے کہ پنجاب کو جو این ایف سی شیئر ملا تھا وہ کہاں خرچ ہوا ! اپنے بچے مروالیں گے لیکن تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ جس ملک کے عوام شعبدہ بازیوں اور مداری پن سے ہی خوش ہو جاتے ہوں ، وہاں لندن میں برطانوی جنگی جہازوں کا پی آئی اے طیارے کو اتارنا، پولیو کی وجہ سے غیرملکی سفر پر بین کا خطرہ ، خسرہ سے مرنیو الے سینکڑوں بچوں اور اب گجرات میں ناقص گیس سلنڈر پھٹنے سے بچوں کا جل مرنا، ایک مذاق ہی تو ہے!