بدھ کا دن پاکستانی تاریخ میں کئی حوالوں سے یاد رکھا جائے گا۔ جہاں میاں نواز شریف نے ایک تاریخ رقم کی اور اپنے پیش روئوں میر ظفر اللہ جمالی، چودھری شجاعت حسین، شوکت عزیز، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی تقریروں سے نسبتاً بہتر اور معنی خیز تقریر کی، وہاں صحافیوں نے جو کچھ دیکھا اور سنا‘ وہ بھی ایک تاریخ سے کم نہیں ہے۔ ہم صحافی دانتوں میں انگلیاں دبائے حیرانی سے خوشامدیوں کی ٹولیاں دیکھتے رہے جو میاں صاحب کے گرد منڈلا رہے تھے اور ایک دوسرے کو دھکے مار کر ان کے ساتھ فوٹو کھنچوانے کے لیے بے چین تھے۔ انہیں میاں صاحب کے قریب بیٹھنے کے لیے ایک دوسرے کو دھکے دیتے دیکھ کر یاد آیا کہ یہی حضرات اس وقت بھی فلک شگاف نعرے ماررہے تھے جب جنرل مشرف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے بعد مکے دکھائے تھے۔ آج وہ اسی شدو مد سے میاں نواز شریف سے آٹوگراف لے رہے تھے۔ ان کی دکان بند نہیں ہوئی۔ تہمینہ دولتانہ اپنے ہاتھ میں گلاب کا چھوٹا سا پھول لے کر پھر رہی تھیں۔ چودھری نثار کے قریب گئیں تو وہ پیچھے ہٹ گئے۔ تھوڑی دیر بعد وہی پھول میاں نواز شریف کو پیش کیا ۔ کیا کرتے۔ پوری دنیا کے سامنے پھول قبول کرنا پڑا۔ یہ خوشامد کی حد تھی۔ سابق وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی نے جب محسوس کیا کہ وہ خوشامدیوں کی اس طویل قطار میں کہیں پیچھے نہ رہ جائیں تو گرتے پڑتے میاں صاحب کے پاس ایسے کھڑے ہو گئے جیسے ان کے اسٹاف افسر ہوں۔ جمشید دستی تو دولہا میاں لگ رہے تھے۔ وہ‘ جو کبھی قومی اسمبلی میں شہباز شریف کی حکومت پر تخت لاہور کا نعرہ لگا کر تنقید کرتے تھے، اب میاں نواز شریف کے سامنے بچھے جارہے تھے۔ جتنے جھک سکتے تھے وہ جھکے ہوئے تھے۔ مزید جھکنے کی گنجائش نہیں تھی وگرنہ روایتی سرائیکی انداز میںکوشش ضرور کرتے۔ سنا ہے جمشید دستی ساری محنت اپنے چھوٹے بھائی کو مظفر گڑھ کی اس سیٹ کے لیے نواز لیگ کا ٹکٹ دلوانے کے لیے کر رہے تھے جو انہوں نے خالی کی ہے۔ جمشید دستی کو میاں صاحب سے خصوصی طور پر ملوایا گیا۔ خواجہ سعد رفیق انہیں چودھری نثار کے پاس لے گئے۔ اپنی مغرور طبیعت کے برعکس چودھری نثار جمشید دستی کو تپاک سے ملے۔ پھر خواجہ آصف اور احسن اقبال سے ملوایا گیا ۔دستی صاحب نے اپنے آپ کو شاید اتنا معزز کبھی نہ محسوس کیا ہو جتنا اس وقت کر رہے تھے۔ بس چلتا تو اسمبلی کے اندر ڈھول منگوا کر سرائیکی جھمر ڈالتے۔ اس کے بعد فوٹو سیشن کا دور شروع ہوا ۔ ایک ایک ایم این اے میاں نواز شریف کے ساتھ فوٹو کھنچوانا چاہ رہا تھا۔ سب ہاتھ ملانا چاہتے تھے۔ میاں صاحب کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہاتھ آگے کرتے۔ اٹھ کر ہاتھ ملانے کی زحمت نہیں کی ۔ ہمارے دور کے سیاسی \"شیخ سعدی \" اپنے جناب شیخ رشید درست فرماتے ہیں کہ اس دفعہ جو بے توقیری ایم این اے کی ہورہی تھی وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ میاں صاحب کو علم ہے سب اقتدار چاہتے ہیں۔ آفتاب شیرپائو اور امیر حیدر خان ہوتی نے بہرحال اپنی شان برقرار رکھی اور اس ہجوم میں شامل نہیں ہوئے۔ ایم کیوایم کا ایک گروپ چل کر میاں صاحب کے پاس گیا۔ میاں صاحب خود کسی کے پاس چل کر ووٹ مانگنے نہیں گئے۔ سب ان کے پاس چل کر آئے۔ شیخ رشید جب انہیں مبارکباد دینے گئے تو دونوں کو احساس تھا کہ مشکل مرحلہ ہے۔ میاں صاحب دوسروں سے گلے مل رہے تھے لیکن انہوں نے شیخ صاحب کو اپنی چھاتی سے دور رکھا ۔ جاوید ہاشمی چل کر گئے اور گلے لگے۔ گلے ملنے کا اثر جاوید ہاشمی پر اتنا زیادہ ہوا کہ وہ بھول گئے کہ اب ان کا لیڈر عمران خان ہے۔ سب ششدر رہ گئے جب جاوید ہاشمی نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ان کے لیڈر نواز شریف تھے اور رہیں گے۔ تحریک انصاف کے ایم این ایز حیران پریشان کہ اگر نواز شریف لیڈر تھے تو پھر عمران خان کون تھے؟ ایک سینئر صحافی کی اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یوں لگا جاوید ہاشمی معافی کی عرضی نواز شریف کی خدمت میں پیش کر رہے تھے کہ جناب اس قدیم باغی کو معاف کر دیا جائے۔ عمران خان یقینا دکھی ہوئے ہوں گے۔ جب جاوید ہاشمی نے نواز لیگ چھوڑی‘ تب میں نے کالم میں لکھا تھا کہ اس باغی کے لیے بہتر ہوتا کہ سیاست سے ریٹائرڈ ہو جاتے۔ میاں نواز شریف نے دل کھول کر سابق سپیکر فہمیدہ مرزا کی تعریف کی ۔ تعریف کرنا بنتا ہے کیونکہ اس بہادر خاتون نے سپیکر بننے کے بعد قرضہ معاف کرایا اور تاحیات مراعات لیں۔ ارکان اسمبلی کا الائونس ڈیڑھ لاکھ سے تین لاکھ کیا۔ نئے سپیکر ایاز صادق نے فہمیدہ مرزا خاندان کو ڈنر دیا۔ ایاز صادق فہمیدہ مرزا سے وہ راز پوچھنا چاہتے ہوں گے کہ سپیکر بننے کے بعد بنک قرضے کیسے معاف کرائے جاتے ہیں، تاحیات مراعات اور پچاس لاکھ روپے کی نئی پروٹوکول گاڑی کیسے لی جاتی ہے اور کے آر ایل ہسپتال میں سترہ گریڈ کے پی آر او کو قومی اسمبلی میں ڈپیوٹیشن پر لا کر دو سالوں میں بیس گریڈ دے کر دنیا کا کم عمر ترین جوائنٹ سیکرٹری کیسے بنایا جاتا ہے۔ شیخ رشید نے میاں نواز شریف کے گلے نہ لگانے کا بدلہ اس طرح لیا کہ ان کی تقریر نے نواز لیگ کے رنگ میں بھنگ ڈال دی۔ میں نے شیخ رشید سے پوچھا جناب آپ اپنے تجربے کی بنیاد پر بتائیں کہ آپ کتنے دن اپوزیشن میں رہ سکیں گے؟ ان کے چہرے کے تاثرات بدلے تو میں نے کہا کہ چلو دوسری طرح پوچھ لیتے ہیں‘ میاں نواز شریف کتنے دنوں تک آپ کو اپوزیشن میں رہنے دیں گے ؟ محمود اچکزئی بولنا شروع ہوئے تو لگا کہ کنفیوز ہو چکے ہیں۔ ایک طرف وہ جنرل مشرف اور دیگر کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں اور اس تماشا کو بند بھی کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف وہ ان لوگوں کے پیچھے‘ جنہوں نے جنرل مشرف کو اس ہائوس سے وردی کے ساتھ الیکشن جتوایا تھا‘ قطار میں لگ کر میاں صاحب کو ووٹ بھی ڈالتے ہیں۔ اگر جنرل مشرف غلط تھے تو کیا پھر انہیں ووٹ ڈالنے والے درست تھے؟ جن کے پیچھے آج اچکزئی کھڑے تھے؟ اب اچکزئی ا صول کی بات کر رہے تھے تو کیا جنہوں نے مشرف کو ووٹ ڈالا تھا ان سے نواز شریف کو ووٹ لینا چاہیے تھا؟ کیا اچکزئی اصول کی بنیاد پر بغاوت نہیں کر سکتے تھے؟ وہ ووٹ دینے سے انکاری ہوجاتے کہ وہ ان لوگوں کی قطار میں نہیں کھڑے ہوں گے جنہوں نے جنرل مشرف کو وردی کے ساتھ صدر بنا کر اس ہائوس کی توہین کی تھی۔ یاد پڑتا ہے مجھے اچکزئی نے دکھی دل کے ساتھ بتایا تھا کہ کیسے میاں نواز شریف نے 2008ء میں ان سے دغا کیا تھا ۔ ان سے وعدہ کیا کہ وہ جنرل مشرف کی حکومت کے تحت الیکشن نہیں لڑیں گے۔ سب پکے رہے، عمران خان بھی وعدے پر قائم رہے لیکن میاں صاحب نے انتخاب میں حصہ لے لیا۔ اچکزئی ہم سے پوچھتے رہے کہ اب وہ پنجاب کے سیاستدانوں پر کیسے اعتبار کریں؟ مبارک ہو خان صاحب نے ڈھلتی عمر کے ساتھ بالآخر پنجاب کے سیاستدانوں پر اعتبار کرنا سیکھ لیا ہے۔ اعتبار کرنے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ نئے پاور شیرنگ فارمولے کے تحت اب بلوچستان کا گورنر محمود اچکزئی کی مرضی کا ہوگا!