چند روز قبل ایک ڈاکٹر دوست کے ہاں گیا تو وہاں ایک چھ فٹ دو انچ کی قدآور متاثر کن شخصیت کو بیٹھے پایا۔ ڈاکٹر صاحب نے تعارف کرایا کہ یہ پاکستان کے سابق فاسٹ بولر فاروق حمید ہیں۔ 1960ء کی دہائی میں ان کا بڑا نام تھا اور انہوں نے حنیف محمد کی قیادت میں کرکٹ میچ کھیلے ہیں۔ انہوں نے مجھے بہت تنگ کیا ہوا ہے۔ وہ ہنس کر بولے ’’ڈاکٹر صاحب! سب مجھ سے تنگ تھے‘ اسی وجہ سے میں نے صرف چوبیس برس کی عمر میں کرکٹ چھوڑ دی تھی‘‘۔ ایک فاسٹ بولر کا مزاج اگر گرم نہیں ہوگا تو وہ ڈیڑھ سو کلومیٹر کی رفتار سے کیسے بال پھینک سکتا ہے۔ فاروق حمید مجھے ایک دلچسپ انسان لگے تو میں باتوں میں دلچسپی لینے لگا۔ میں نے پوچھا کہ ریٹائرمنٹ اتنی جلدی کیوں لے لی؟ بولے ’’یار بس دل ٹوٹ گیا تھا۔ میرے اندر بھی جارحانہ پن بہت تھا‘ اب یہ بات کون سمجھتا کہ فاسٹ بولر کے اندر غصہ اور جارحیت ہی تو اسے فاسٹ بولر بناتے ہیں وگرنہ وہ سپنر بن جائے‘‘۔ بتانے لگے کہ نیوزی لینڈ میں ولنگٹن کے مقام پر انہوں نے سات وکٹیں کچھ رنز کے عوض لے لیں اور صرف پچاس پر ان کی ٹیم آئوٹ ہوگئی۔ سب نے تعریفوں کے پل باندھ دیے لیکن کپتان حنیف محمد نے تعریف کاایک لفظ منہ سے نہ نکالا‘ جس کا نوجوان بولر کو دکھ ہوا۔ آصف اقبال کو شرارت سوجھی اور ڈریسنگ روم میں اونچی آواز میں کہا ’’کپتان جی آج فاروق نے تو نیوزی لینڈ ٹیم کی دھجیاں بکھیر دی ہیں‘‘۔ حنیف محمد نے جواب میں ایک ایسا فقرہ کہا ‘ جس سے فاروق کا دماغ گھوم گیا۔ دوسری اننگز شروع ہوئی اور حنیف نے بال پھینکی تو کہا کہ اس کاکندھا خراب ہے‘ خود ہی بال کرا لو۔ فاروق نے دل میں یہ بات رکھی ہوئی تھی۔ وطن لوٹے تو لاہور اور کراچی کے درمیان ایک میچ تھا۔ حنیف محمد بیٹنگ کے لیے آئے تو اس کے قریب سے گزرتے ہوئے کہا ’’کپتان میں نے آپ کے لیے ایمبولینس منگوالی ہے۔ آج میں نے آپ کا حشر کردینا ہے‘‘۔ حنیف محمد ان کی تیسری گیند پر آئوٹ ہو گئے۔ روہن کنہائی کو اپنے دور کا سب سے بڑا بیٹسمین سمجھا جاتا تھا۔ ان سے بہتر بائونسر کو کوئی ہٹ نہیں کر سکتا تھا ۔ فاروق کے تیسرے بائونسر پر روہن کنہائی زمین پر لیٹا تھا ۔ کالن کاوڈرے ٹیم لے کر پاکستان آیا تو اسے اگر کسی سے خوف تھا تو صرف فاررق حمید سے تھا اور جب اسے پتہ چلا کہ اسے اپنی اندرونی سیاست کی وجہ سے نہیں کھلایا جارہا تو اس کے چہرے پر خوشی دیدنی تھی۔ ماضی میں کھوئے فاروق حمید کو یاد آیا کہ ایک دفعہ لاہور میں ایک لڑکے کو میدان کے باہر کٹ اور بیٹ کے ساتھ دیکھا تو حیران ہوا ۔ پوچھا کہ تم کون ہو۔ جواب دیا میں روزانہ یہاں آجاتا ہوں‘ کسی دن ان ٹیموں کا کوئی لڑکا نہیں آتا یا زخمی ہوجائے تو یہ مجھ سے فیلڈنگ کرا لیتے ہیں۔ فاروق نے اس لڑکے کو ساتھ لیا اور اپنے ایک کھلاڑی کو کہا کہ تم جائو آرام کرو۔ اس لڑکے کو کہا کہ اب تم ہمارے ساتھ فیلڈنگ کرو۔ برسوں بعد جب وہ کھلاڑی پاکستان کا عظیم ترین کرکٹر بنا اور فاروق حمید کی اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا کہ وہ دن اسے یاد تھا جس دن اس نے اسے گرئوانڈ میں جا کر فیلڈنگ کا موقع دیا تھا۔ یہ کھلاڑی عمران خان تھا ۔ فاروق نے کہا کہ یہ واقعہ بتانے کا مقصد کسی بھی کھلاڑی کے اندر جنون کے بارے میں بتانا ہے کہ جنون کے بغیر کچھ نہیں ملتا۔ وہ پاکستان کی چیمپئن ٹرافی میں شکست پر افسردہ تھے۔ کہنے لگے کہ اگر وہ آج ان کھلاڑیوں کی اپنی ایک ٹیم بنا لیں جنہیں سلیکٹ نہیں کیا گیا تو وہ سیمی فائنل تک کوالیفائی کر لیں گے۔ ان کا خیال تھا کہ وسیم اکرم میں سب سے بڑی یہ خوبی تھی کہ وہ بال کو باہر اور اندر دونوں طرح گھما سکتا تھا۔ وہاب ریاض میں وہ خوبی ہو سکتی ہے لیکن وہ بال کو صرف باہر لے جا سکتا ہے‘ اندر لانے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ محمد عرفان کے بارے میں کہا کہ اس کے پٹھوں کو کھولنے کی ضرورت ہے۔ اس کے رن اپ پر کام ہونے والا ہے اور جس دن ہوگیا عرفان کی بال پھینکنے کی رفتار 160 کلو میٹر تک جا سکتی ہے لیکن اب ان فاسٹ بولرز پر کون کام کرے۔ شعیب اختر کے بارے میں فاروق حمید کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اس فاسٹ بولر کو ضائع کیا۔ ان کو درست طور پر ہینڈل نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب اس ملک میں کرکٹ کیسے پروان چڑھے گی جہاں کبھی اس کا چیئرمین ایک فوجی جنرل بن جاتا ہے، کبھی فارن سروس کا کوئی بندہ یا پھر انسانی ریسورس کا کوئی چیئرپرسن۔ کہنے لگے ڈاکٹر ظفر الطاف جیسے تجربہ کار بندے کی پاکستان کرکٹ ٹیم کو ضرورت تھی جو آئی سی سی کے ساتھ متھا لگا سکے اور پاکستان کرکٹ کو سنبھال سکے۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ابھی تو ڈاکٹر صاحب اشتہاری ملزم ہیں۔ اگر جیل جانے سے بچ گئے تو پھر دیکھا جائے گا۔ کہنے لگے اگر ظفر الطاف پسند نہیں ہے تو پھر احسان مانی کو لائیں اور اسے چیئرمین بورڈ بنا دیں تو کرکٹ دوبارہ اوپر جا سکتی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ گراس روٹ لیول کا نام سب کو آتا ہے لیکن کسی کو علم نہیں ہے کہ گراس روٹ لیول سے کیسے ٹیلنٹ کو قومی سطح پر لانا ہے۔ کرکٹ ایک کاروبار بن کر رہ گیا ہے۔ بیٹسمین کی بات ہوئی تو حیران ہوئے کہ جاوید میانداد کو پاکستان کرکٹ بورڈ کس چیز کے ہر ماہ آٹھ لاکھ روپے ادا کررہا ہے۔ پاکستانی بیٹسمین کے بارے میں کہنے لگے کہ ان کے پاس کوئی ٹیکنیک نہیں ہے اور کرکٹ تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ ان کے خیال میں چیمپئن ٹرافی میں احمد شہزاد، اظہر محمود، عبدالرزاق اور شاہد آفریدی کو استعمال کرنا چاہیے تھا۔ میں نے کہا ’’فاروق صاحب ایک بات پر حیران ہوں کہ اس وقت پاکستان کرکٹ سلیکٹر آپ کے والد کے ذاتی دوست تھے۔ اپنے والد سے سفارش نہیں کرائی جو متحدہ ہندوستان کے بہت بڑے ایتھلیٹ تھے؟ ‘‘ کہنے لگے کہ کپتان حنیف محمد نے مسائل پیدا کرنے شروع کیے تو والد سے کہا چیف سلیکٹر ان کے دوست ہیں، وہ ان سے بات کریں۔ انہوں نے کہا ’’بیٹا اپنے کام خود کیا کرو ۔ میں کسی سے تمہاری سفارش نہیں کروں گا ۔ میں تو متحدہ ہندوستان کے اتھلیٹس کے ساتھ مقابلہ کرتا تھا اور جب میں چھاتی پھلاتا تھا تو فیتا تک چھوٹا پڑ جاتا تھا اور ہندو سلیکٹرز کو نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے سلیکٹ کرنا پڑتا تھا‘‘۔ اپنے کپتان کی سازشیوں کے شکار اپنے دور کے تیز ترین نوجوان فاسٹ بولر بیٹے نے پرانی روایات کے امین ایتھلیٹ والد کی بات خاموشی سے سنی اور کچھ کہے بغیر 24برس کی عمر میں ہی کرکٹ چھوڑ دی!!