میدان پھر سج گیا ہے۔ صدر زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف کو ایک پیشکش کی تھی کہ ماضی کو دفن کر کے جنوبی افریقہ کی طرز پر ’’ٹروتھ اینڈ ریکنسیلیشن‘‘ کمشن بنایا جائے۔ صدر صاحب کی خواہش پر کمشن تو نہ بن سکا لیکن نئے سرے سے سوئس مقدمات ضرور بن گئے ہیں۔ میاں نواز شریف نے اپیل مستر د کرتے ہوئے عدالت کے ساتھ تعاون کا فیصلہ کیا ہے۔ یقینا صدر زرداری کو بابر اعوان یاد آئے ہوں گے جو اکیلے یہ نعرہ لگاتے تھے کہ ہم گڑھی خدابخش کی قبروں کا ٹرائل نہیں ہونے دیں گے اور آسمان گرتا ہے تو گر جائے، خط نہیں لکھا جائے گا۔ صدر نے اس نعرے پر بابر اعوان کو سزا دی اور ایک وزیراعظم کو فارغ کرا کے دوسرے وزیراعظم سے خط لکھوایا اور اب اس پراسرار خط نے انہیں پھر پھنسا دیا ہے۔ پیپلز پارٹی یہ توقع نہیں کرتی تھی کہ میاں نواز شریف اتنی جلدی صدر زرداری کے خلاف محاذ کھول لیں گے۔ ان کا خیال تھا کہ نواز شریف پہلے جنرل مشرف کے خلاف جنگ لڑیں گے اور پھر جب تک وہ صدر زرداری کی طرف توپوں کا رخ موڑیں گے‘ ان کی فوجیں جنرل مشرف سے لڑ لڑ کر اتنی تھک چکی ہوں گی کہ انہیں نشانہ بنانا آسان نہیں رہے گا ۔ اس لیے جان بوجھ کر صدر زرداری نے اپنے خطاب میں میاں نواز شریف کو جنرل مشرف کے خلاف کارروائی پر تعاون کا یقین دلایا۔ صدر خوش تھے کہ انہوں نے میاں نواز شریف کو ایک دفعہ پھر بارہ اکتوبر 1999ء والی صورت حال کی طرف دھکیل دیا ہے اور وہ اب بہت مصروف رہیں گے اور کسی کا دھیان ان کی طرف نہیں جائے گا۔ اس لیے جمعرات کے روز پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے اپنے تئیں دھمکی دی کہ سوئس مقدمات پر دونوں پارٹیوں کے درمیان تلخی شروع ہوسکتی ہے۔ اس پر چودھری نثار علی خان نے جواباً دھمکی دی کہ اگر تلخی ہوتی ہے تو ہونے دیں۔ مخدوم امین فہیم نے اپنے دھیمے انداز میں دھمکیاں دینے کی کوشش کی تو بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ پیپلز پارٹی کا خیال تھا کہ کیونکہ انہوں نے ان پانچ برسوں میں میاں نواز شریف کے خلاف نیب میں موجود چار کرپشن ریفرنسز کو نہیں چھیڑا تھا اور نہ ہی آئی بی کے سیکریٹ فنڈز سے سیف الرحمن کو ادا ہونے والے 17 کروڑ روپے کا کوئی حساب کتاب لیا ، لہٰذا اس کے بدلے میں میاں نواز شریف بھی ان پر ہاتھ ہولا رکھیں گے۔ تاہم لگتا ہے کہ میاں نواز شریف کو وہ سب تقریریں یاد ہیں جو صدر زرداری نے لاڑکانہ میں بینظیر بھٹو کی برسی پر کی تھیں کہ رائے ونڈ کے اس مولوی کو سیاست کرنی نہیں آتی تو وہ ان سے سیکھ لیں‘ اس لیے چودھری نثار اس موڈ میں نہیں لگ رہے تھے کہ ان کے ساتھ ماضی میں میاں نواز شریف کے مقدمات کو نہ چھیڑ کر کوئی احسان کیا گیا تھا لہٰذا انہوں نے امین فہیم کو یاد دلایا کہ جب چارٹر اف ڈیموکریسی پر لندن میں مذاکرات ہورہے تھے تو پیپلز پارٹی چاہتی تھی کہ اس معاہدے میں یہ لکھا جائے کہ اگر وہ پارٹیاں اقتدار میں آ گئیں تو ایک دوسرے کے خلاف کرپشن مقدمات واپس لے لیں گی۔ چودھری نثار کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف کیمپ نہیں مانا تھا اور یہاں تک کہا تھا کہ اس سے پاکستان کے لوگوں میں برا تاثر پیدا ہوگا کہ شاید سیاستدان اپنی کرپشن چھپانا چاہتے ہیں لہٰذا نواز لیگ نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کو احساس ہوا ہے کہ اسے گھیر لیا گیا ہے۔ اس وقت اس کے دو وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف نیب کے پاس تحقیقات کے لیے پیش ہونے کے نوٹس وصول کر رہے ہیں تو کچھ وزراء ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کیے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم حسین پر الزام ہے کہ انہوں نے آخری دنوں میں سی این جی اسٹیشن کے لائسنس ایشو کر کے مال کمایا تھا تو راجہ پرویز اشرف کا کہنا ہے کہ انہوں نے لائسنس ڈاکٹر عاصم کے کہنے پر جاری کیے تھے۔ وزیراعظم گیلانی پر پہلے ہی ڈیڑھ سو سے زیادہ لائسنس جاری کرنے کا الزام ہے۔ نوید قمر نیب کو توقیر صادق کیس میں کچھ اور کہانی سنا رہے ہیں اور اس وقت سب لوگ اپنے آپ کو بچانے کے لیے کچھ بھی کہنے اور کرنے کو تیار ہیں۔ یہ طے ہے کہ میاں نواز شریف نے جہاں جنرل مشرف کو سرپرائز دیا ہے وہاں انہوں نے صدر زرداری کو بھی حیران کر دیا ہے۔ اگرچہ صدر زرداری انہیں اپنے فارم ہائوس کے آم بھیج کر رام کرنا چاہتے تھے لیکن بات نہیں بن پارہی۔ صدر زرداری اس وقت اس حالت سے گزر رہے ہیں جو انہوں نے کبھی جنرل مشرف کی کی تھی‘ جب انہیں بھی مجبوراً استعفیٰ دینا پڑ گیا تھا۔ صدر زرداری کو ایک ایڈوانٹیج ہے کہ ان کے پارٹی کے لوگ سینٹ میں موجود ہیں اور سندھ میں حکومت ہے لہٰذا وہ میاں نواز شریف سے اتنی جلدی دبائو کا شکار نہیں ہوں گے۔ تاہم میاں نواز شریف مسلسل دبائو بڑھاتے جارہے ہیں ۔ میاں نواز شریف نے کئی محاذ اکٹھے کھول دیے ہیں ۔ اب سینٹ چیئرمین نیّر بخاری کی سکیورٹی واپس لے لی گئی ہے اور خورشید شاہ حیران تھے کہ اچانک نیّر بخاری سے سکیورٹی ہٹالی گئی تھی ۔ خورشید شاہ نے وی آئی پی کی فہرست پڑھی جس میں وزیراعظم کے بعد پروٹوکول پر سپیکر اور سینٹ چیئرمین کا نام تھا اور تیسرے نمبر پر چیف جسٹس تھے۔ خورشید شاہ نے اعتراض کیا کہ دوسرے نمبر پر وی آئی پی کی سکیورٹی ہٹائی گئی تھی جب کہ چیف جسٹس کی نہیں ہٹائی گئی تھی اور نہ ہی ہٹائی جانی چاہیے۔ ہو سکتا ہے خورشید شاہ کو علم نہ ہو کہ نیّر بخاری نے چند دن قبل کیا کیا تھا‘ جب چینی وزیراعظم کو سینٹ کے اجلاس سے خطاب کرنے آنا تھا۔ جن چودہ وی آئی پی کی فہرست تیار کی گئی گئی ان میں میاں نواز شریف‘ جو اس وقت وزیراعظم کے لیے نامزد ہو چکے تھے، کا نام آخر پر تھا ۔ فوج کے سربراہ، گورنر، نگران وزیراعلیٰ وغیرہ سب کا نام میاں نواز شریف سے پہلے تھا۔ اگر کوئی کسر رہ گئی تھی تو اس وقت پوری ہوگئی جب باقی سب وی آئی پی کو تو گریڈ بیس تک کے سینٹ افسران پروٹوکول کے لیے دیے گئے تھے جب کہ میاں نواز شریف کے لیے گریڈ سولہ کے سپرنٹنڈنٹ کی ڈیوٹی لگی تھی۔ اسحاق ڈار نے اس پر اعتراض بھی کیا تھا کہ یہ ملک کے نامزد وزیراعظم کا مناسب پروٹوکول نہیں تھا۔اس لیے اب اگر نیر بخاری کا نام سکیورٹی میں دوسروں سے پیچھے کر دیا گیا ہے تو میاں نواز شریف کے یقینا ذہن میں یہ بات ہوگی کہ چینی وزیراعظم کے خطاب کے موقع پر ان کا پروٹوکول کا نمبر بھی نیّر بخاری نے آخر پر کر دیا تھا۔ اگرچہ صدر زرداری چاہتے ہیں کہ \"forgiven and forget\"کی پالیسی پر چلا جائے؛ تاہم انہیں میاں نواز شریف سے معافی ملنا اتنا آسان نہیں لگ رہا۔ معافی سے یاد آیا کہ جنرل مشرف کے اکلوتے وکیل احمد رضا قصوری‘ جنہوں نے اپنے والد کے قتل کے الزام میں ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیا کے ہاتھوں پھانسی دلوائی تھی، میرے ساتھ ایک ٹی وی شو میں جنرل مشرف کو معاف کرنے کے فوائد پر گفتگو فرما رہے تھے۔ میں نے کہا ، قصوری صاحب معاف کردینا اتنا آسان کام تھا تو آپ بھی بھٹو کو جنرل ضیاء کے ساتھ مل کر جلاّد کے حوالے کرنے کی بجائے معاف کر دیتے تاکہ سر اور چہرے پر کالا غلاف چڑھائے اورپیٹھ پر جکڑے ہاتھوں میں رسّی کا کھردرا پن اپنی کلائی پر محسوس کرتے ہوئے بھٹو کو تارا مسیح کو سرگوشی میں یہ نہ کہنا پڑتا \" پلیز فنش اٹ\" !!