"RKC" (space) message & send to 7575

Mission Possible

توقع نہیں تھی کہ ہمارے دنیا ٹی وی کے مارننگ نیوز شو ’’خبر یہ ہے‘‘ کی میزبان ثمینہ پاشا میرے دوست قاضی سعید اور مجھ سے یہ سوال پوچھ لیں گی کہ ہم نے آزادی کے چھیاسٹھ برسوں میں کیا پایا ہے؟ اس سوال سے یاد آیا محمود خان اچکزئی اپنی تقریروں میں اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر ترقی چاہیے تھی، پل، سڑکیں، ائرپورٹ اور ریلوے ٹریک بنانے تھے تو پھر انگریز نے سب سے زیادہ ترقی کرائی تھی، اس کے لیے آزادی کی کیا ضرورت تھی ؟ ہم نے آزادی کا نعرہ کیوں لگایا تھا ؟ وہ کیا چیز تھی جو ہم چاہتے تھے جو انگریز نہیں دے پارہے تھے حالانکہ ان کے دور میں سب کچھ تھا‘ جو آج نظر نہیں آتا۔ شاید اس ملک نے کچھ لوگوں اور طبقات کے لیے چراگاہ بننا تھا۔ سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ جس کے ہاتھ جو لگتا ہے لوٹ لو۔ اب جو نہیں لوٹتا اس کی خبر بنتی ہے کہ وہ ایماندار ہے۔دنیا کہیں کی کہیں نکل گئی اور ہمیں مسائل میں پھنسا دیا گیا۔ 1980ء میں جن لوگوں کو ہم نے افغانستان میں دوسروں کے لیے تیار کیا تھا وہی آج ہمارے خون کے پیاسے ہو چکے ہیں۔ ہم اپنا تحفظ افغانستان کی سنگلاخ پہاڑیوں میں تلاش کرتے رہے اور پتہ چلا کہ اپنے گھر میں ہی محفوظ نہیں رہے۔ پچاس ہزار بے گناہ افراد کو قتل کر دیا گیا اور ملک میں اس بات پر بحث کی جا رہی ہے کہ یہ جنگ کس کی ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ ہماری جنگ نہیں‘ تو پھر اب کیا کریں ؟ کہتے ہیں کہ جنگ سے نکل جائو! کیسے نکل جائو؟ ایک طرف امریکہ ہے اور دوسری طرف طالبان‘ اور ہم دونوں سے نہیں لڑ سکتے۔ امریکی طالبان کو مارتے ہیں تو طالبان ہمارے در پے ہیں۔ پوچھتے ہیں کہ کیوں مارتے ہو توکہتے ہیں کہ تم امریکہ کو ہمیں مارنے سے روکو۔ اب طالبان کو کون سمجھائے کہ اگر ہم اس قابل ہوتے تو انہی کو نہ روک لیتے۔ریٹائرڈ جرنیلوں سے ملیں تو پتہ چلے گا کہ ان کے پاس افغانستان سے لے کر سینٹرل ایشیا تک سبھی علاقوں کو فتح کرنے کے منصوبے پچھلے تیس برس سے تیار پڑے ہیں ۔ بھٹو صاحب نے اپنے دور میں افغانستان کے معاملات میں مداخلت کا پروگرام بنا لیا تھا۔ جنرل ضیاء نے ان کا مشن پورا کیا۔ کام تاحال جاری ہے‘ چاہے اب ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل بھی نہیں رہ گئے۔ ملک تباہ ہوچکا ہے لیکن ہم آج تک فیصلہ نہیں کر سکے کہ یہ ہم کس کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کوہسار مارکیٹ میں ایک سرونگ فوجی افسر مل گیا۔ کہنے لگا کہ جب پوری قوم اور اس کے دانشور دن رات یہ کہیں کہ یہ ہماری جنگ نہیں تو پھر ایک فوجی یا سپاہی کیوں طالبان کے لشکر پر گولی چلائے گا ؟ پھر اس ملک میں جیل بریک ہوگا۔ اس نے طعنہ دیا کہ آپ بحث کرتے رہیں اور آپ کا ملک تباہ ہوتا رہے گا۔ ثمینہ پاشا کے سوال سے یاد آیا کہ نواز شریف نے2005ء میں جدہ میں مجھے بتایا تھا کہ جب وہ کراچی جیل میں قید تھے تو انہوں نے بی بی سی کے ایک پروگرام میں بھارت کے پانچ وزیراعظموں کو شریک دیکھا۔ جب میزبان نے پوچھا کہ آزادی کے ان برسوں میں بھارت کا سب سے بڑا کیا کارنامہ تھا تو سب کا جواب تھا کہ جمہوریت ۔ نواز شریف کے بقول‘ وہ حسرت سے دیکھتے رہے کہ کیا پاکستان کا کوئی وزیراعظم یہ دعوی کر سکتا ہے؟ آج اسی بھارت اور پاکستان کے مابین کشیدگی ایک بار پھر بڑھ چکی ہے۔ دونوں نے آزادی کے بعد جو سفر جہاں سے شروع کیا تھا محسوس ہوتا ہے کہ اب بھی وہیں کھڑے ہیں۔ دونوں ملکوں کے انتہا پسند ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ سوال یہ ہے کیا حکمرانوں نے حالات و واقعات سے کچھ سیکھا ہے؟ پاکستان تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور حکمران سیریں کرتے پھر رہے ہیں جبکہ سینکڑوں پولیس اہلکار ان کے راستوں پر ڈیوٹی پر مامور رہتے ہیں۔ کیا جمہوریت اس چیز کا نام تھا کہ ایک وزیراعظم نو بنکوں کے آٹھ ارب روپے واپس نہ کرے اور ملک کے صدر پر سوئس بنکوں سے ساٹھ ملین ڈالر نکال کر لے جانے کا الزام ہو۔ نام لیتے جائیں تو شام ہوجائے لیکن نام ختم نہ ہوں۔ جس کے ہاتھ جو لگا وہ اٹھا کر لے گیا۔ کسی نے رعایت نہیں برتی۔ اب نیا انکشاف ہوا ہے کہ یونیورسل سپورٹ فنڈ کے 62 ارب روپے اٹھا کر آئی پی پیز کو دے دیے گئے اور جس مقصد کے لیے یہ فنڈ بنایا گیا تھا وہ بھاڑ میں جائے ۔سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف سوموٹو چل رہا ہے کہ انہوں نے پچاس ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز کچھ دوسرے پراجیکٹس سے نکال کر ایم این ایز کو دیے اور یہاں دیہات میں آئی ٹی کے انفراسٹرکچر کے لیے رکھے گئے باسٹھ ارب روپے راتوں رات شفٹ کر دیے گئے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو سکی۔ ابھی مزید سنسنی خیز انکشافات سامنے آرہے ہیں کہ کون کون سے محکموں سے پیسے نکال کر آئی پی پیز کو دیے گئے ہیں۔ جو سرکاری بابو اس وقت وزرات خزانہ کو چلا رہے ہیں‘ وہ جنرل مشرف سے لے کر شوکت عزیز تک یہی کام کرتے رہے ہیں۔ جانتے ہیں کہ کیسے سرکاری محکموں کا پیسہ ہوشیاری سے نکالنا ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں جعلی تیزی دکھانی ہو یا پھر جعلی سرمایہ کاری ظاہر کرنی ہو کہ دیکھو سرمایہ کاروں کو نئی حکومت پر کتنا بھروسہ ہے‘ وہ سب کرتب جانتے ہیں۔ یہ انہی کا کارنامہ اور الارم ہے کہ جو پیسے کسی بھی ادارے کے پاس پڑے ہیں، وہ نکال لو۔ یہی کچھ شوکت عزیز دور میں ہوا اور اربوں روپے سرکاری محکموں سے نکال کر اسٹاک میں لگائے گئے اور اربوں ہی ڈوب گئے تھے۔ این ایل سی میں چار ارب روپے کا ڈوب جانا اسی طرح کے ایک فیصلے کا شناخسانہ تھا‘ جب وہاں بیٹھے چار افراد نے ایک نوٹیفکیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے این ایل سی کے دو ارب روپے سٹاک میں جھونکے اور جب وہ ڈوب گئے تو پانچ بنکوں سے دو ارب روپے کا قرضہ لے لیا اور وہ بھی ڈوب گئے۔ ہمیں بتایا جاتا رہا کہ جناب یہ دیکھیں سٹاک مارکیٹ اوپر جارہی ہے۔ کراچی کے بروکرز کے ساتھ مل کر اربوں روپے کھائے گئے اور ہم خوش ہوتے رہے کہ سٹاک مارکیٹ اوپر جارہی ہے۔ وہ چاروں افراد آج گھروں میں مزے کررہے ہیں اور این ایل سی ان کے قرضے واپس کر رہا ہے۔ لگتا ہے اسی طرح کا ایک مشورہ کسی صاحب نے اسحاق ڈار کو بھی دیا تھا کہ جناب تمام سرکاری محکموں کا پیسہ اٹھا لو۔ چالاکی یہ کی گئی اس پیسے کو consolidated fund میں ڈال دیا گیا اور وہاں سے یہ آئی پی پیز کو دے دیے گئے۔ یوں راتوں رات سرکاری محکمے اپنی بچت اور مال سے محروم ہوگئے۔ لگتا ہے عوام نے پانچ سو ارب روپے ادا کر کے اندھیرے خریدے ہیں۔ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ تو کم نہیں ہوا۔ جشن آزادی کی مبارک دینے سے پہلے ایک اندرونی خبر سن لیں۔ لاہور کے ایک ایم این اے کا بیٹا اپنے باپ کے الیکشن جیتنے اور پھر باپ کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے سے قبل ایک فرم میں ملازمت کررہا تھا ۔جب سے ان کے والد اسلام آباد میں اہم عہدے پر فائز ہوئے ہیں، اس فرم نے انہیں فورا پاکستان میں اپنی ڈیلرشپ دے دی ہے۔ برخوردار کا پہلا \"Mission Possible\" یہ ہے کہ وہ اپنے ابا کے ادارے کا کنٹریکٹ لیں۔ یقینا برخوردار کو مایوس نہیں کیا جائے گا۔ بیٹا بھی مایوس نہیں کرے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں