"RKC" (space) message & send to 7575

جنرل پاشا صاحب: اب کیا خیال ہے؟

حسین حقانی کو اسلام آباد سے اجازت مل گئی تھی کہ جو بھی امریکی پاکستان کا ویزا لینا چاہتا ہے‘ اسے فوراً دے دیا جائے اور یوں امریکیوں نے پاکستان میں بڑی تعداد میں اپنے جاسوس بھیجنے کا فیصلہ کیا اور اس کا علم آئی آیس آئی یا دیگر ایجنسیوں کو نہیں تھا۔ سی آئی اے کے ان جاسوسوں میں ریمنڈ ڈیوس بھی تھا جنہوں نے لاہور میں کام کرنا تھا۔ جب ریمنڈ ڈیوس نے لاہور کی شاہراہ پر دو بندے مارے تو معاملہ بگڑ گیا اور پہلی دفعہ پاکستان کو پتہ چلا کہ کچھ گڑ بڑ تھی۔ امریکی ہر قیمت پر ریمنڈ ڈیوس کو واپس لے جانا چاہتے تھے۔ امریکی سفیر منٹر کا خیال تھا کہ بہتر ہوگا کہ آئی ایس آئی سے ہی ڈیل کر لی جائے تو زیادہ شور شرابا نہیں ہوگا اور ریمنڈ فوراً باہر نکل آئے گا۔ تاہم سی آئی اے کے اسلام آباد میں نئے چیف کا خیال تھا؛ چونکہ آئی ایس آئی ان کی دوست نہیں لہٰذا ان سے ڈیل نہیں ہوسکتی۔ سی آئی اے اسلام آباد چیف نے پاکستان میں امریکی سفیر منٹر کو واضح انداز میں کہہ دیا تھا کہ انہیں یہ بندہ ہر قیمت پر چاہیے اور پلان بننا شروع ہوگیا کہ کیسے اسے رہا کرانا ہے۔ اس سلسلے میں وائٹ ہاوس، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور سی آئی اے کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ منٹر نے جنرل پاشا سے رابطہ کیا اور اسے بڑے واضح انداز میں بتادیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ امریکی سفیر نے جنرل پاشا کو بتایا کہ وہ ہر صورت میں اپنے بندے کو پاکستان سے باہر بھجوانا چاہتے ہیں۔ تاہم جنرل پاشا کے ذہن میں ایک اور پلان تھا کہ اب امریکیوں پر کیسے انہوں نے ذاتی احسان کرنا ہے۔ جب اوباما نے اس معاملے پر پریس کانفرنس کرنے کا فیصلہ کیا اور ریمنڈ کو سفارت کار کہہ کر اس کی رہائی کا مطالبہ کیا تو جنرل پاشا کو فوری طور پر امریکہ بلایا گیا۔ جنرل پاشا نے فلائٹ پکڑی اور سیدھے امریکہ گئے جہاں ان کی ملاقات سی آئی اے کے لیون پینٹا سے ہوئی تاکہ وہ جان سکیں کہ امریکن کیا چاہتے تھے۔ گفتگو سے پاشا کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ریمنڈ سی آئی اے کے لیے کام کرتا تھا۔ جنرل پاشا نے لیون پینٹا کو یہ تجویز دی کہ بہتر ہوگا کہ آئی ایس آئی اور سی آئی اے مل کر ریمنڈ ڈیوس کو خاموشی سے باہر نکالیں۔ جنرل پاشا نے ایک سوال پوچھ لیا کہ آیا ریمنڈ ڈیوس سی آئی اے کے لیے کام کر رہا تھا ؟ اس پر لیون پینٹا نے نفی میں جواب دیا۔ پینٹا نے یہاں تک جنرل پاشا کو بتایا کہ معاملہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا تھا اور اب اسے اوباما انتظامیہ براہ راست ڈیل کر رہی ہے۔ تاہم جنرل پاشا یہ سن کر پریشان ہوئے کہ لیون پینٹا نے ان سے جھوٹ بولا تھا۔ا س پر جنرل پاشا نے فیصلہ کیا کہ وہ اب یہ کام ہر صورت کرائیں گے تاکہ امریکیوں کو کچھ اندازہ ہو کہ کام کتنا مشکل تھا۔ جنرل پاشا کا خیال تھا کہ اگر مان لیا جاتا کہ ریمنڈ سی ائی اے کا جاسوس تھا تو وہ فوراً اس معاملے کو حل کرا لیتے۔ جنرل پاشا کی پاکستان واپسی پر جب امریکی سفیر نے جنرل پاشا سے کہا کہ وہ ہر قیمت پر ریمنڈ کو واپس چاہتے ہیں تو جنرل پاشا کے ذہن میں یہ بات موجود تھی کہ پہلے وہ لیون پینٹا کے جھوٹ پر اس پورے معاملے کو لٹکائیں گے اور پھر دیکھیں گے کہ امریکیوں کی کیسے مدد کرنی ہے۔ ایک ہفتے بعد لیون پینٹا نے امریکی سفیر سے رابطہ کیا اور اسے ایک حل تجویز کیا جو اس کے خیال میں اسلامی بھی تھا اور پاکستان کی روایت کے مطابق بھی۔ اس کا کہنا تھا کہ امریکہ دو مقتولین کے لواحقین کو خون بہا ادا کر دے تو معاملہ ختم ہوجائے گا اور عدالت میں کیس نہیں چلے گا۔ جنرل پاشا نے یہ پلان حسین حقانی کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔ سی آئی اے کو کہا گیا کہ وہ پیسوں کا بندوبست کرے۔ یہ بھی طے ہوا کہ معاملہ بہت سیکرٹ انداز میں کیا جائے گا تاکہ کسی کو بھنک نہ پڑے تاکہ ریمنڈ جیل سے باہر نکل سکے۔ یوں جنرل پاشا نے آئی ایس آئی کو حکم دیا کہ وہ سب معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لے۔ آئی ایس آئی کے افسران مقتولین کے گھر گئے اور انہوں نے انہیں بیس کروڑ روپے لینے پر راضی کر لیا اور اس کے بدلے وہ ریمنڈ کو معاف کرنے پرتیار ہوگئے۔ اوبامہ انتظامیہ کے صرف چند افسران کو علم تھا کہ آئی ایس آئی اور مقتولین کے ورثاء کے درمیان کیا مذاکرات ہورہے ہیں۔ ان کے پاس وقت کم تھا کیونکہ لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دینا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس سفارت کار تھا یا جاسوس اور اس سے پہلے چھوٹی عدالت سے یہ کام کرانا تھا۔ اس دوران ریمنڈ ڈیوس کو کچھ پتہ نہیںتھا کہ اس کی رہائی کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے تھے اور کس لیول پر اسے بچانے کا کام ہورہا تھا۔ جب 16 مارچ کو اسے عدالت کے روبرو ہتھکڑیاں لگا کر پیش کیا گیا تو اسے توقع تھی کہ اس پر فرد جرم عائد ہوگی اور مقدمہ چلے گا۔ اسے جج کے سامنے ایک آہنی پنجرے میں کھڑا کر دیا گیا‘ حیرانی کی بات یہ ہے کہ عدالت کی پچھلی کرسی پر آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا خود موجود تھے اور تمام کارروائی کو دیکھ رہے تھے۔ جنرل پاشا امریکیوں پر جتانا چاہتے تھے کہ انہوں نے یہ سب کام کیا تھا۔ جنرل پاشا عدالت میں بیٹھ کر اپنے موبائل فون پر سے امریکی سفیر منٹر کو ٹیکسٹ میسج کر رہے تھے کہ عدالت میں کیا کاروائی ہورہی ہے اور کس وقت ریمنڈ کی رہائی متوقع ہے۔ ہر لمحہ کی کارروائی امریکی سفیر کو موبائل ٹیکسٹ مسیج پر بتائی جارہی تھی۔ سماعت شروع ہوئی تو جج نے بتایا کہ کیسے مقدمہ آگے چلے گا اور کارروائی ہوگی۔ اچانک جج نے حکم دیا سب صحافی عدالت سے باہر نکل جائیں۔ جنرل پاشا کے پلان پر عمل درآمد شروع ہوچکا تھا۔ ایک اور خفیہ دروازے سے مقتولین کے اٹھارہ رشتے دار عدالت میں داخل ہوئے اور انہوں نے ریمنڈ ڈیوس کے پنجرے کے آگے باری باری کھڑے ہوکر اسے معاف کیا اور آگے بڑھتے گئے۔جنرل پاشا نے ایک اور ٹیکسٹ مسیج امریکی سفیر منٹر کو بھیجا کہ مشن پورا ہوگیا تھا۔ اب ڈیوس آزاد تھا۔ کیونکہ سب کارروائی اردو میں ہورہی تھی لہٰذا ریمنڈ ڈیوس کو کچھ علم نہیں تھا کہ یہ سب کچھ کیا ہورہا تھا۔ اس سے پہلے آئی ایس آئی ریہرسل کر چکی تھی کہ کیسے اسے عدالت سے نکال کر ائرپورٹ لے جانا ہے۔ جونہی عدالت نے ریمنڈ کو رہا کیا، آئی آیس آئی کے اہلکاروں نے اسے فوراً کار میں ڈالا اور ائرپورٹ کی طرف نکل گئے۔ جب جنرل پاشا نے امریکی سفیر منٹر کو ٹیکسٹ میسج کیا کہ اس کا بندہ اب ائرپورٹ جارہا ہے تو اسے پریشانی ہوئی کہ ریمنڈ کو تو کچھ علم نہیں تھا کہ سب کیا چل رہا تھا لہٰذا کہیں وہ کار میں موجود آئی آیس آئی کے اہلکاروں کو بھی قتل نہ کر دے۔ جب ائرپورٹ پر کارپہنچی تو ریمنڈ کو ایک جہاز میں ڈال دیا گیا اور تھوڑی دیر بعد وہ افغانستان پہنچ چکا تھا اور اسے سی آئی اے کے حوالے کر دیا گیا۔ جنرل پاشا کے بارے میں یہ سب سنسنی خیز انکشافات پڑھ کر یاد آیا کہ انہوں نے پاکستانی صحافیوں کے بارے میں ایبٹ آباد کمشن کے سامنے بیان دیا تھا کہ پاکستان صحافی امریکہ کے ہاتھوں شراب، عورت اور پیسے پر بک جاتے ہیں۔اب کیا خیال ہے ؟ تھوڑی سی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کر کے جنرل پاشا کچھ اپنے بارے میں بھی بتائیں گے ؟ (یہ کالم نیویارک ٹائمز کے ایوارڈ یافتہ رپورٹر Mark Mazzetti کی نئی کتاب The Way of the Knife پڑھ کر لکھا گیا ہے۔ دنیا ٹی وی اسلام آباد کے بیوروچیف اور اپنے دوست ارشد شریف کا شکریہ جس نے پاکستان کے سول اور ملٹری حکمرانوں کے بارے میں انکشافات سے بھرپور کتاب پڑھنے کے لیے دی)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں