"RKC" (space) message & send to 7575

قاتلوں کی بھی اخلاقیات ہوتی ہے!

انیس ستمبر کو استنبول سے ٹکٹ لیا اور لندن آگیا۔ استنبول ایئر پورٹ سے روانگی سے پہلے ایک سپاہی میرے پاس آیا اور پوچھا کہاں جانا ہے؟ میں نے بے دلی سے جواب دیا، لندن۔ بولا کیوں جانا ہے؟ پاسپورٹ دکھائو۔ میں حیران ہوا کیونکہ یہ سوال تو لندن ایئر پورٹ پر پوچھا جانا ہے‘ ترک سپاہی کیوں پریشان ہے؟ اُس نے پاسپورٹ الٹ پلٹ کر دیکھا‘ پھر پوچھا ترکی کیوں آئے تھے؟ دل میں شدید خواہش ابھری‘ کاش یہ سوال ہم بھی ان مسلمان جنگجوئوں سے کر سکتے جو ہمارے علاقے میں آباد ہوگئے اور خاندان تک بنا لیے تو شاید آج ہماری حالت یہ نہ ہوتی۔ اگر ریاست نے کوشش بھی کی کہ ان کو رجسٹر کیا جائے تو نہ صرف انہوں نے ہمارے فوجیوں کو نشانہ بنایا بلکہ ہمارے دانشوروں اور کالم نگاروں نے بھی حکومت کو رگید کر رکھ دیا کہ اپنے مسلمان بھائی سے پوچھ لیا کہ یہاں کیوں رہ رہا ہے۔ اور یہاں ترک سپاہی مجھ سے میرے ترکی میں گزارے ہوئے چھ دنوں کا حساب مانگ رہا تھا۔ میں خاموش رہا تو اس نے سوال دہرایا کہ آپ ترکی کیوں تشریف لائے تھے؟ کسی دوست نے اچھا مشورہ دیا تھا کہ دنیا کے کسی بھی ائرپورٹ پر مبہم جواب نہ دیں‘ لہٰذا بتایا کہ آپ کے وزیراعظم نے ہمارے وزیراعظم کو بلوایا تھا‘ میں ان کے دورے کی کوریج کرنے آیا تھا۔ جی چاہا‘ اسے بتائوں کہ ہمارے وزیراعظم نے آپ کے ملک کو نقد اربوں روپے کا کاروبار دیا ہے۔ معاہدوں کے تحت ہمیں ہر چیز آپ سے بنوانی ہے۔ آپ ایک روپیہ پاکستان نہیں لائیں گے بلکہ اپنا مال ہمیں بیچیں گے اور رقم لے جائیں گے۔ آپ کا کاروبار ہماری وجہ سے چمکنے والا ہے اور آپ مجھ سے سوال پر سوال کرتے جا رہے ہیں۔ گاہک کے ساتھ ایسا سلوک تو نہیں ہونا چاہیے۔ امریکی اگر اپنے ایئرپورٹس پر پاکستانیوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں تو وہ سالانہ ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی گرانٹ بھی دیتے ہیں‘ سالانہ چھ سو ملین ڈالرز سے زیادہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کو ڈیوٹی میں رعایت دیتے ہیں‘ ایساف فنڈ کے نام پر بیس ارب ڈالرز دے چکے ہیں اور مزید کی ہم امید لگائے بیٹھے ہیں ۔ ترکوں کے تو ہم گاہک ہیں اور خریدار کے ساتھ یہ سلوک! اس نے پاسپورٹ لیا اور کسی مشین پر جا کر چیک کیا اور اس پر ایک نشان لگا دیا جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ ابھی مزید پیشی کہیں اور بھی ہوگی۔ اس کے چہرے پر چھائی افسردگی سے مجھے دکھ ہوا کہ وہ مجھے پاکستانی دہشت گرد ثابت نہ کر سکا۔ لندن ایئر پورٹ پر خاتون افسر نے وہی سوال دہرایا کہ جناب آپ یہاں کیسے؟ میں نے سوال خوشی سے سنا کیونکہ برطانیہ ہر سال ہمیں سات سو ملین ڈالرز سے زیادہ گرانٹ دیتا ہے۔ اس نے ایک نظر میرے تھکے ہارے چہرے پر ڈالی ۔ میں نے شکل کچھ معصوم بنالی تاکہ مزید سوال و جواب سے بچ سکوں۔ تاہم وہ رحم کھانے کے موڈ میں نہیں تھی۔ اس نے پوچھا کہاں رکنا ہے؟ وہ آپ کو کیوں اپنے پاس رہنے دیں گے ؟ آپ ان کے کیا لگتے ہیں؟ شاید حیران ہورہی گی کہ لندن میں بھی کوئی پاکستانی مہمان یعنی متوقع دہشت گرد کو اپنے گھر میں دس دن رکھنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ پاکستان واپسی کا پورا پلان خاتون افسر کو بتا کر ایئر پورٹ سے روانہ ہوا۔ لندن آنے کی کچھ وجوہات ہوتی ہیں۔ سامان اٹھا کر مجمع میں سے صفدر بھائی کو ڈھونڈنا اور ان کے ساتھ قریبی کیفے میں گرما گرم کافی پینا پہلا کام ہوتا ہے۔ سامان گھسیٹتے ہوئے لندن کی سرد ہوا کو اپنے گالوں پر محسوس کرتے ہوئے گھر پہنچ کر شکیلہ باجی کے ہاتھوں کی بنی ہوئی نہاری کھانی ہوتی ہے جس کے لیے پورا سال انتظار رہتا ہے۔ ان کے بچے بھی انتظار کرتے ہیں کہ رئوف انکل آئیں گے تو ماما نہاری بنائیں گی اور پھر طویل واک اور کتابوں کی خریداری ۔ لندن کا موسم اپنے اندر عجیب سی اداسی رکھتا ہے۔ شاید اسی اداسی کو اپنے اندر تک محسوس کرنے کے لیے ہر سال یہاں کچھ دن گزارتا ہوں۔ دوستوں نے ای میلز کیں کہ ترکی کے بارے میں لکھوں۔ کیا لکھوں ؟ ترکی میں کچھ صحافی دوستوں نے ترکی کے بارے میں کہنا شروع کیا کہ دیکھو یہاں یہ ہوتا ہے اور وہ ہوتا ہے اور ہمارے ہاں یہ نہیں ہوتا اور وہ نہیں ہوتا۔ میں چڑ گیا ۔ کیوں آپ لوگ اس طرح کی گفتگو کرتے ہیں؟ جب آپ لوگ خود یہاں والے اچھے کام اپنے ہاں نہیں کر سکتے تو کیوں دوسرے ملکوں کی مثالیں دیتے ہیں؟ سب کو علم ہے کہ ہم کام چور ہیں، کرپشن ہماری رگوں میں رچ بس گئی ہے تو پھر کیوں دل جلاتے ہیں۔ ہمارے لیڈر پوری دنیا دیکھتے ہیں لیکن مجال ہے اپنے ملک میں وہی کچھ کرنے کی کوشش کریں۔ ترکی کے لیڈروں سے سب متاثر ہیں لیکن جانتے بوجھتے ہوئے بھی اپنے ہاں بلدیاتی الیکشن کرانے کو تیار نہیں؛ حالانکہ ان کے پسندیدہ رہنما عبداللہ گل اور طیب اردوان بلدیاتی انتخابات کی پیداوار ہیں اور انہوں نے ترکی کا نقشہ بلدیاتی اداروں کی مدد سے بدل کر رکھ دیا ہے۔ ہمارے جو پاکستانی لیڈر بلدیاتی انتخابات تک کرانے کو تیار نہیں ہیں‘ آپ کے خیال میں وہ پاکستان کو چین، لندن اور ترکی بنا دیں گے؟ سب کہتے ہیں‘ یہ ہو سکتا ہے‘ وہ ہو سکتا ہے۔ جونہی اپنے ملک لوٹتے ہیں‘ اپنا وتیرہ شروع کردیتے ہیں۔ مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ ہمارے لیڈروں کو معلوم ہے کہ اس قوم کو پس ماندہ رکھ کر ہی الیکشن جیتے جا سکتے ہیں اور وہ یہی کچھ کر رہے ہیں۔ لیڈروں کے علاوہ بیوروکریسی کی بھی سن لیں۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف ترکی کے وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کر رہے تھے اور ہم صحافی باہر بیٹھے تھے۔ وقت گزارنے کے لیے میں نے پنجاب سے گئے ہوئے ایک بابو سے کہا‘ آپ اربوں کے منصوبے ترکی کو بیچ رہے ہیں، آبادی روکنے کا بھی کوئی پلان ہے؟ اگر آبادی بڑھتی رہی تو اتنے منصوبے بنانے کا کیا فائدہ؟ فرمایا ایک آئیڈیا ہے۔ اگر پہلے دو بچوں کی سکول فیس کم ہو اور تیسرے کی فیس تین ہزار کردی جائے تو آبادی رک جائے گی۔ ہم صحافی ششدر رہ گئے۔ لوگ بچوں کو مفت سکول بھیجنے کو تیار نہیں اور موصوف نے کیا کمال کا آئیڈیا دیا ہے! سب نے داد دی کہ کیسے کیسے ہیرے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اکھٹے کر رکھے ہیں۔ میاں شہباز شریف سے بات ہوئی تو میں نے کہا جناب ہرکوئی ترکی میںصفائی کی تعریف کر رہا ہے۔ یہ کون سی راکٹ سائنس ہے۔ آپ بلدیاتی نظام کا گلا تو گھونٹ ہی چکے ہیں کم از کم ہر ضلعے کے ڈپٹی کمشنر سے کہیں کہ آپ ہر ماہ ایک ضلعے کا دورہ کریں گے‘ کسی دیوار پر کسی بابابنگالی کا اشتہار نظر نہیں آنا چاہیے۔ اس سے معاملات کچھ بہتر ہوجائیں گے۔ روکھے سے انداز میں کہا‘ ہاں تجویز اچھی ہے۔ میرے عزیز ڈپٹی کمشنر صاحبان پریشان نہ ہوں کیونکہ وہ یہ کہتے ہوئے سنجیدہ نہیں لگ رہے تھے۔ لندن پہنچا تو پتا چلا پشاور میں چرچ حملے میں 85 بے گناہ لوگ مارے گئے ہیں۔ اس وقت میں فلم Replacement killersدیکھ رہا تھا۔ جو سین دیکھ رہا تھا اس میں ایک تربیت یافتہ قاتل نے ایک پولیس افسر کے سات سالہ بیٹے کو گولی مارنی ہوتی ہے جس کا حکم اس کے باس کی طرف سے دیا گیا ہوتا ہے۔ اس کرائم باس کے بیٹے کو اس پولیس افسر نے چھاپے کے دوران گولی ماردی تھی۔ اب وہ اس افسر کے سامنے اس کے بچے کو گولی مروانا چاہتا ہے تاکہ انتقام لے سکے۔ جب قاتل گولی چلانے لگا تو اس کے ضمیر نے اجازت نہ دی کہ وہ بچے کو گولی مارے۔ بچے کی ماں بھی ساتھ کھڑی تھی۔ وہ قاتل کافی دیر کشمکشں میں مبتلا رہا کہ کیا کرے۔ کرائم باس کو خوش کرے اور نشانے پر آئے ہوئے ٹارگٹ کو اڑا دے یا پھر اپنے انسانی ضمیر کی بات مانے کہ ایک بچے کو اس کے ماں باپ کے سامنے گولی نہیں مارنی چاہیے‘ چاہے باس کا حکم ہی کیوں نہ ہو۔ آخر وہ قاتل اپنے کرائم باس کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس بچے پر گولی نہیں چلاتا؛ حالانکہ اس کو علم ہے کہ اسے اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی؛ چنانچہ وہی ہوتا ہے۔ اس کا باس حکم عدولی کی سزا دینے کے لیے چین میں اس کی ماں اور بہن کو مارنے کے لیے اپنے بندے بھیج دیتا ہے۔ پشاور کے چرچ میں میں جس طرح بے گناہ پاکستانی عورتوں اور بچوں کو مارا گیا اس سے تو یہ فلمی قاتل ہی بہتر ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ قاتل بھی انسانی قدروں اور اخلاقیات پر یقین رکھتے ہوئے عورت اور بچے پر گولی نہیں چلاتے، چاہے اس کے بدلے میںا س کی اپنی ماں اور بہن کی زندگیوں کو ہی دائو پر کیوں نہ لگانا پڑے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں