وزیراطلاعات پرویز رشید اور مشیر برائے خارجہ طارق فاطمی کی دورہ امریکہ کے بعد دفتر خارجہ میں صحافیوں کو دی گئی بریفنگ کے دوران اپنے ساتھیوں کی امریکہ سے تعلقات کے بارے میں لہجے میں تلخی محسوس کرکے تھوڑا سا حیران ہوا۔ عوام تو پہلے ہی تلخی اور فرسٹریشن کا شکار ہوچکے ہیں‘ اب فارن کوالیفائیڈ صحافیوں کی سوچ بھی اسی طرح کی ہو گئی ہے۔ جب باتیں تلخی کی حد عبور کرنے لگیں تو میرے پسندیدہ صحافیوں میںسے ایک محمد مالک کو مذاق میں بہت سخت بات کہنا پڑ گئی کہ اگر امریکہ اپنی سرحدیں کھول دے تو دیکھیے گا کہ اس قوم کے کتنے لعل وہاں جانے کے لیے قطاریں بنا کر کھڑے ہوں گے۔ طارق فاطمی کو معلوم نہیں تھا کہ شکیل آفریدی کس جرم میں قید ہے۔ میں نے کہا‘ آپ کو علم نہیں ہے تو وزیراعظم کو بھی علم نہیں ہوگا لیکن آپ لوگوں نے امریکہ کے ساتھ شکیل آفریدی پر مذاکرات بھی کر لیے۔ میں نے کہا‘ آفریدی پر مقدمہ امریکہ کی مدد کرنے کا نہیں بلکہ طالبان کی مدد کرنے کا ہے لیکن دنیا سمجھتی ہے شکیل آفریدی پر اسامہ کو پکڑوانے کے حوالے سے مقدمہ ہے۔ اگر میاں نواز شریف ارکان کانگریس کو یہ بات بتاتے تو شاید پاکستان پر اتنی تنقید نہ ہوتی۔ امریکہ سے ہمارا تعلق عجیب ہے۔ آج تک ہم ناراض ہیں کہ امریکہ نے چھٹا بحری بیڑا ہماری مدد کے لیے کیوں نہ بھیجا۔ چھ امریکی صدور کے ساتھ کام کرنے والے بروس ریڈل کی نئی کتاب کے بقول صدر نکسن نے چینی سفیر کو بلا کر کہا تھا کہ پاکستان کی مدد کس طرح کرنی ہے اور ہمارے دوست چین نے 1971ء کی جنگ میں ہم سے ہاتھ اٹھا لیا تھا ۔ نکسن نے بحری بیڑے کی روانگی کا حکم دے دیا تھا لیکن اسے علم نہیں تھا کہ ہم سولہ دن کے اندر ہتھیار ڈال دیں گے۔ امریکہ سے ہم آج تک ناراض اور چین کے ساتھ ہماری ہمالیہ سے بھی اونچی دوستی! حالانکہ اربوں روپے کے ہر دوسرے سکینڈل میں چینی کمپنیاں شامل ہیں۔ دو ملکوں کے مابین اس طرح کی دوستیاں نہیں ہوتیں۔ ہم امریکہ سے اسلحہ لیتے ہیں، ڈرون کی ٹیکنالوجی مانگتے ہیں، کیری لوگر بل کے تحت سات ارب ڈالر لیتے ہیں، کولیشن سپورٹ فنڈ کے نام پر اب تک دس ارب ڈالر لے چکے ہیں، اب ایک ارب ساٹھ کروڑ کی نئی فوجی امداد لے رہے ہیں، کچھ دن پہلے تین سو ملین ڈالرز سے زیادہ کے رکے ہوئے بل ریلیز ہوئے ہیں۔ ہم امریکہ سے مارکیٹ تک رسائی مانگتے ہیں ، بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے ہوں یا بھارت سے جنگ سے بچنا ہو‘ ہمیں امریکہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھی امریکہ کی مدد چاہتے ہیں۔ اگر امریکہ ہماری اتنی ضروریات پوری کرتا ہے تو وہ ہم سے بھی توقعات رکھتا ہے اور وہ اس کی ہمیں قیمت ادا کرتا ہے۔ ہم امریکہ کے ساتھ وہ رویہ رکھے ہوئے ہیں جو ہمارا بھارت کے ساتھ ہے۔ کبھی بھارت ہم سے بات چیت کرنے کے لیے بے تاب رہتا تھا لیکن اب وہ ہماری منتوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ میں نے فاطمی صاحب سے کہا‘ ہماری لیڈرشپ کیوں اپنے لوگوں کو نہیں بتاتی کہ امریکہ سے دوستی پاکستان کے مفادات میں ہے۔ ہم عوام کو کیوں اس راہ پر لگا رہے ہیں جس کا انجام بہتر نہیں ہوگا۔ عوام کی بڑھتی ہوئی نفرت کا انجام کیا ہوگا؟ ہم چین، ایران اور بھارت جیسی پالیسی کیوں نہیں اختیار کر پاتے۔ ایرانی لیڈرشپ کو داد دینا ہوگی کہ انہوں نے امریکہ اور اسرائیل کی تمام تر کوششوں اور خواہش کے باوجود حملہ نہیں کرنے دیا اور اپنے لوگوں کا وہ انجام نہیں کرایا جو ان کے ہمسایہ صدام حسین اور ملا عمر نے کرایا تھا۔ دنیا کے سب ملک امریکہ سے دبتے ہیں۔ چین امریکہ سے تجارت بچانے کے لیے پاکستان کو پاک ایران گیس پائپ لائن کے لیے پانچ سو ملین ڈالرز کا وعدہ پورا نہ کر سکا۔ بھارت نے اس منصوبے سے علیحدگی اختیار کر لی۔ ان ملکوں کے عوام نے تو اپنے لیڈروں کو امریکہ کا ایجنٹ یا غلام ہونے کے طعنے نہیں دیے۔ کیا آپ کے پاس قوم کو سمجھانے کی کوئی حکمت عملی ہے؟ پرویز رشید کا شکریہ کہ انہوں نے میرے اس طویل وعظ کو سراہا لیکن طارق فاطمی نے کہا یہ آپ کا تبصرہ ہے‘ میں کیا کہہ سکتا ہوں ۔ یہ بات طے ہے کہ ہماری قیادت ان خطرات سے بے خبر ہے جو پاکستان میں تیزی سے بڑھ رہے ہیں ۔ قیادت میں کوئی ایسا نہیں رہا جو انہیں کوئی نئی منزل دکھا سکے۔ عمران خان کے پاس بھی ان مسائل کا کوئی حل نہیں۔ دوسری طرف یورپ اور پاکستان میں خلیج بڑھ رہی ہے۔ یورپی عوام کہتے ہیں مسلمانوں اور پاکستانیوں کو اپنے ہاں شہریت مت دو۔ لہٰذا امیگریشن قوانین سخت ہوتے جارہے ہیں۔ ہم ہر بات کو مذہبی تناظر میں دیکھنے کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی فرسٹریشن کے ذمہ دار ہمارے لیڈر اور مجھ جیسے لکھاری ہیں جنہوں نے عوام کو جدید دنیا کے ساتھ چلانے کی بجائے سازشی تھیوریوں کے پیچھے لگا دیا ہے۔ سیاستدانو ں کو چاہیے تھا کہ وہ اس خوفناک رجحان کو روکنے کے لیے رول ماڈل بنتے لیکن وہ عوام کے پیچھے چلتے ہیں۔ فرانسیی صدر ڈیگال جیسی جرأت کسی میں نہیں کہ اقتدار کو لات مار کر اپنے گائوں چلے جائیں کہ اگر میری بات نہیں سننی یا میرے خیالات اہم نہیں ہیں تو پھر عوام جانیں اور ان کا کام ۔ کچھ عرصے بعد فرانسیسی عوام ڈیگال کے گائوں چل کر گئے کہ لوٹ آئیں۔ اتنی جرأت اب کون دکھائے۔ ہمارے ہاں نفرت اور سازش کا سودا بہت بکتا ہے۔ نوے فیصد مجھ جیسے لکھاری اب نفرت ، سازش اور ماضی کی کہانیاں بیچتے ہیں۔ ان کے پاس آج کی دنیا میں رہنے کے لیے نفرت اور سازش کے علاوہ کوئی سودا بیچنے کو نہیں ہے۔ ان لیڈروں اور لکھاریوں نے ہمیں معصوم اور دنیا کو ظالم بنا کر رکھ دیا ہے۔ دوسری طرف حکمرانوں نے لوٹ مار کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں، انہیں اس بات کی پروا نہیں کہ ہمارا ملک افغانستان، عراق، لیبیا اور مصر جیسی صورت حال کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ملک بنیاد پرستی کا شکار ہورہا ہے۔ میں تو خود کو مجرم سمجھنے لگا ہوں کہ سکینڈلز کیوں فائل کرتا ہوں۔ یہ سکینڈلز ملک میں بہتر ی لانے کی بجائے بنیادپرست جمہوریت کے خلاف نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔ سیاستدان کرپشن کے علاوہ کچھ اور کر ہی نہیں سکتے اور مجھے خبروں کے علاوہ اور کچھ کرنا نہیں آتا۔ یہ طے ہے کہ سیاستدان اور بیوروکریسی اس ملک کو لوٹنا نہیں چھوڑیں گے اور ہماری منافقت اور سازش ڈھونڈنے کی عادت کبھی ختم نہیں ہوگی۔ میں سوچتا ہوں‘کوئی اور کام ڈھونڈ لوں تاکہ نوجوان نسل میں سکینڈلز کے ذریعے مزید نفرت نہ پھیلائوں! خرابی کہاں ہے ؟اس معصوم سوال کے جواب میں شیکسپیئر کا جولیس سیزر یاد آتا ہے‘ جب اس عظیم ڈرامے کا ایک کردار کہتا ہے: \"The fault, dear Brutus, is not in our stars, But in ourselves that we are underlings\" . (میرے پیارے بروٹس قصور ہماری قسمت کا نہیں بلکہ ہمارا اپنا ہے کہ ہم ہی شودر ہیں)