آج کا کالم کس خبر سے شروع کیا جائے؟ یہ کہ بی بی سی نیوز نے خبر بریک کی ہے کہ پاکستان نے سعودی عرب کے لیے بھی ایک ایٹم بم بنا کر رکھا ہوا ہے جسے جب سعودی عرب چاہے لے کر جا سکتا ہے۔ یا پھر اس خبر سے آپ کو دلچسپی ہو سکتی ہے کہ حسین حقانی اپنی نئی کتاب میں انکشاف کرتے ہیں کہ صدر اوباما کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ایک خط لے کر صدر زرداری سے ملے تھے جس میں پیشکش کی گئی تھی کہ اگر پاکستان کالعدم جماعتوں کو روک لے تو وہ بھارت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے کشمیر کے معاملے پر مدد کر سکتے ہیں‘ یا آپ کو اس خبر سے تسلی ہوسکتی ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ایم این ایز میں سے کوئی نہیں چاہتا کہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہوں اور کوئی ان کے مقابلے پر کھڑا ہوجائے اور نئے سیاسی لوگ سامنے آجائیں۔ یا آپ یہ سن کر خوش ہوں گے کہ کیسے ہمارے وزیرداخلہ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا بلف کھیلا اور کسی کو علم نہیں ہے کہ کون لوگ تھے جو طالبان سے مذاکرات کرنے جارہے تھے کہ ڈرون حملہ ہوگیا۔ اس ملک میں جھوٹ کیوں بکتا ہے؟ اس خبر کے بارے میں کیا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمن فرماتے ہیں کہ کتا بھی شہادت کے درجے پر فائز ہوسکتا ہے۔ اس پر ایک اچھا ٹوئیٹ پڑھا کہ یہ فتویٰ سن کر پاکستان بھر کے آوارہ گرد کتوں نے ان علاقوں کا رُخ کر لیا ہے جہاں امریکی ڈرون گرتے ہیں تاکہ شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہو سکیں۔ آپ ذرا تصور کریں کہ یہ بیان کسی عام انسان نے دیا ہوتا تو کتنا بڑا ہنگامہ کھڑا ہونا تھا اور وہ بے چارہ سابق گورنر سلمان تاثیر کی طرح بے موت ماراجاتا یا پھر ملک سے فرار ہوتا اور ہو سکتا ہے کہ سڑک پر پٹرول ڈال کر اسے زندہ جلادیا جاتا ۔ تاہم اچھی بات یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے کو کچھ نہیں کہتے اور فتوے دوسرے لوگوں کے لیے رکھ چھوڑے ہیں۔ یہاں ثابت بھی ہوجائے کہ رمشا جیسی بچی پر جھوٹا الزام لگا تھا‘ پھر بھی وہ اس ملک میں نہیں رہ سکتی لیکن مولانا ایک کتے کو شہید کا درجہ دے دیں تو بھی ان پر شدید تنقید نہیں ہوتی۔ یہ ہے وہ معاشرہ‘ جس میں ہم زندہ ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم چاہتے کیا ہیں۔ دن رات ڈھول پیٹتے ہیں کہ امریکہ کشمیر کا معاملہ حل کرانے میں ہماری مدد نہیں کرتا ۔ امریکہ تیار ہوتا ہے تو ہم ان کا دل دکھی نہیں کرنا چاہتے جن پر وہ پابندی چاہتے ہیں ۔ ہم بھارت کے ساتھ مسائل حل کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارا حال کیلے فروخت کرنے والے اس بوڑھے کا ہو چکا ہے‘ جو سوچتا ہے کہ اگر سارے کیلے صبح فروخت کر دیے تو شام تک وہ کیا کرے گا۔ کیا ہم نے سوچ رکھا ہے کہ لاڈلوں کو کچھ نہیں کہا جائے گا چاہے دونوں اطراف سے بے گناہ انسان مرتے رہیں۔ کیا دہشت گردی کو ایجنڈا بنا کر اپنا لیا گیا ہے؟ مجھے یاد پڑتا ہے کہ 2008ء میں بنگلہ دیش میں ہونے والے انتخابات کور کرنے ڈھاکہ گیا اور وہاں کچھ علاقوں میں خودکش حملوں کی خبر چلی تو ایک بنگالی صحافی سے کہا کہ آپ کے ہاں بھی یہ کام شروع ہوگیا ہے‘ تو وہ فخر سے بولا تھا کہ نہیں جناب یہ کام یہاں نہیں چلے گا کیونکہ دہشت گردوں کے ہمدرد یہاں موجود نہیں۔ اور وہی کچھ ہوا کہ سپریم کورٹ نے بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی کہ مذہب کے نام پر سیاست نہیں ہوسکتی۔ منور حسن کی جانب سے حکیم اللہ محسود کو شہادت کے رتبے پر فائز کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے کیوں جماعت اسلامی کو بین کیا تھا اور کیسے معاشرے مذہب کے نام پر ہونے والی سیاست سے تباہ ہوتے ہیں۔ دوسری طرف دیکھیں کہ ہم نے اب دنیا کو ایٹم بم بھی فروخت کرنا شروع کر دیے ہیں ۔ پہلے ہم پر الزام تھا کہ ہم نے ایران، نارتھ کوریا اور لبیا کو کچھ مال بیچا تھا۔ اب پتہ چلا کہ ہم تو چھپے رستم نکلے اور ایک پورا ایٹم بم سعودی عرب کے لیے بنا کر رکھا ہوا ہے۔ اس خبر کے ساتھ ہی پاکستان کے دفتر خارجہ نے ان اطلاعات کی سختی سے تردید کردی ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان میں جوہری ہتھیاروں کے پروگرام میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اس سے بڑی تباہی کیا ہوسکتی ہے کہ ایک عرب ملک ناراض ہے کہ امریکہ نے شام پر حملہ کیوں نہیں کیا ۔ اسے منانے کے لیے امریکی وزیرخارجہ خود اس ملک جا پہنچے ہیں۔ اگر اس بار روس اکڑ گیا ہے تو کوئی بات نہیں اگلی دفعہ کوئی بہتر بہانہ بنا لیں گے۔ پاکستان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ شامی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کو جنگی تربیت دینے کے لیے اپنے بندے بھیجے تاکہ وہ شام کی حکومت کا تختہ الٹ سکیں۔ یوں ہم افغانستان کی کہانی پھر دہرارہے ہیں۔ بندے ہم دیں گے اور مال کوئی اور خرچ کرے گا اور دونوں اطراف سے مرنے والے مسلمان ہی ہوں گے۔ ترکی بھی شام کے خلاف ہے دونوں ہم سے یقینا قربانی چاہتے ہیں اور ہم سے زیادہ کون جانتاہے کہ بیگانے کی شادی میں عبداللہ کیسے دیوانہ ہوتا ہے۔ امریکی ڈرون پر تو ہماری خودمختاری ہرٹ ہوتی ہے لیکن یہ جو ہم دوسرے ملکوں کی جنگیں لڑتے ہیں‘ اس سے نہیں ہوتی؟ لگتا ہے ان خبروں سے آپ کی تسلی نہیں ہوئی تو سن لیں کہ ایک حکومتی شخصیت نے آئل اینڈ گیس کی تلاش کے سلسلے میں آلات کی خریداری کے لیے جس طرح 70 ملین ڈالر کا کنٹریکٹ اسلام آباد میں بیٹھے ایک ایکٹنگ ایم ڈی کو ایک فون کال کر کے ایک پارٹی کو لے کر دیا ہے اس کے بعد ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ جنرل مشرف ایک فون کال پر امریکہ کے آگے جھک گئے تھے۔ ہمارے حکمران اور بیوروکریٹ ایک فون کال پر ہی جھک جاتے ہیں‘ چاہے وہ کال امریکہ سے آئی ہو یا پھر لاہور سے!