میرے موبائل فون پر اردو میں لکھا ہوا ایک مختصر ٹیکسٹ میسج نمودار ہوا کہ آپ کے خان بیلہ ، تحصیل لیاقت پور کے دوست عبیداللہ پر شک تھا کہ اس کی دکان 'حبیب آٹوز‘ پر کالعدم تنظیم کے لوگ آتے تھے۔ اسے ایجنسیاں اٹھا کر لے گئی ہیں اور وہ غائب ہے۔
عبیداللہ سے میری پہلی ملاقات 1996ء میں ملتان میں ہوئی تھی جب میں صحافی بننے کے جنون میں ایک سرائیکی اخبار ''سجاگ‘‘ میں کام کررہا تھا ۔ عبیداللہ کا تعلق خان بیلہ، لیاقت پورسے تھا ۔ مجھے محسوس ہوا کہ اگر اس دفتر میں کوئی اپنے کام کو سنجیدگی سے کرتا تھا تو وہ یہ نوجوان لڑکا تھا ۔ کسی سے غیرضروری بات نہیں کرتا تھا ۔ زیادہ سے زیادہ ایک مسکراہٹ ۔ باپ مر چکا تھا اور اب وہ لیاقت پور سے ملتان آکر اپنی ماں اور چھوٹے بھائی کے لیے کمانے کے چکر میں تھا ۔
ملتان میں اپنے مستقبل سے مایوس ہوکر کچھ عرصے بعد میں نے لاہور جانے کا فیصلہ کیا تو عبیداللہ نے کہا میں بھی آپ کے ساتھ جائوں گا‘ میرے بھی کچھ خواب ہیں ۔ میں نے کہا تمہاری جاب ہے، کچھ تنخواہ مل رہی ہے‘ میرے پاس تو تمہیں دینے کے لیے کچھ نہیں۔ بولا کوئی بات نہیں‘ جہاں آپ رہیں گے میں بھی آپ کے ساتھ رہ لوں گا ۔ جو کھانا آپ کھائیں گے‘ اسے مل کر کھا لیں گے۔
1996ء میں لاہور آکر ہم نے فیصل ٹائون کے قریب کوٹھا پنڈ کے فلیٹ میں رہنا شروع کیا اور میں نے لاہور کے پبلشر فکشن ہائوس کے رانا عبدالرحمن، ظہور اور سرور سے مل کر ناولوں کے تراجم کرنے کا کام لے لیا۔ پہلا ناول ''گاڈ فادر‘‘ عبیداللہ نے بیٹھ کر ٹائپ کیا تھا ۔ اس کے بعد فرانسیسی ادیب بالزاک کا ناول ''یوجین گرانڈ‘‘ اور ''نیلی آنکھوں والی لڑکی‘‘ بھی اس نے اردو میں ٹائپ کیے ۔ اس دوران ہم نے کوشش کی کہ وکٹر ہیوگو کے عظیم ناول "Les Miserables"کا بھی ترجمہ کیا جائے جسے ہم نے شروع کیا تھا ۔ اس کے علاوہ میں یونانی ڈرامے بھی ترجمہ کر رہا تھا۔ اس دوران بینظیر بھٹو حکومت کے خلاف ایک ناکام فوجی بغاوت پر ایک کتاب بھی لکھی ،جسے اس نے ہی ٹائپ کیا تھا۔
عبیداللہ شرافت کا نمونہ تھا ۔ اپنے کام سے کام رکھنا‘ بہترین چائے بنانا اور دن رات کمپیوٹر پر گھنٹوں کام کرنا۔ میں، شعیب بٹھل، شاہد مصطفیٰ اور دیگر نکمے دوست سارا دن دنیا فتح کرنے کے منصوبے بناتے۔ شاہد مصطفیٰ کی نوکری تھی لہٰذا ہمارا زیادہ تر بوجھ وہ اٹھاتا تھا ۔ عبیداللہ میرے ترجمہ کیے گئے ناول اردو میں ٹائپ کرتا ۔ جو پیسے ملتے‘ میں آدھے عبیداللہ کو دے دیتا جو وہ ماں اور بھائی کو بھیج دیتا اور باقی سے ہر ماہ کا خرچ چلاتے۔ اس دوران میرے دوست محکمہ زراعت کے ایک اعلیٰ افسر رفیق اختر نے پنجاب سیکرٹریٹ کے قریب ایک کمرہ لے دیا ۔ میں ہر صبح عبیداللہ کو دس روپے دیتا اور وہ جا کر انارکلی سے دو نان اور چھولے لے آتا اور ہم جی بھر کے کھاتے۔ عبیداللہ نماز ضرور ادا کرتا اور روزے رکھتا۔ اپنی بوڑھی ماں اور چھوٹے بھائی حبیب کے لیے اکثر پریشان رہتا کہ گائوں میں رشتہ داروں نے ان کا جینا حرام کر رکھا تھا ۔ کبھی وہ بہت فرسڑیشن کا شکار ہوتا کہ زندگی اس طرح کیسے گزرے گی۔
اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی لمبی رفاقت کے بعد عبیداللہ سے دوری ہوگئی ۔ مجھے انگریزی اخبار میں ملتان نوکری مل گئی تو وہ بھی میرے ساتھ ملتان لوٹ گیا لیکن کہیں کوئی بات بن نہیں پارہی تھی۔ آخر وہ ایک رات خاموشی سے مجھے شرمندگی سے بچانے کے لیے کراچی نکل گیا اور پھر لمبے عرصے تک اس سے کوئی ملاقات نہ ہوسکی۔
برسوں بعد نعیم بھائی کا بہاولپور سے فون آیا کہ تمہارا کوئی دوست عبیداللہ ماں کو علاج کے لیے لایا ہے۔ عبیداللہ مجھے سے کچھ ناراض تھا کہ میں نے اس کا اتا پتہ نہیں رکھا تھا ۔ کراچی میں ہی اس کا چھوٹا بھائی حبیب بس تلے آکر کچلا گیا اور وہ سب کچھ لٹا کر بھائی کی لاش اپنی بوڑھی ماں کے پاس لیاقت پور لے گیا اور پھر بیوہ ماں نے واپس نہ جانے دیا ۔ گھر میں ایک عبیداللہ اور ایک اس کی روتی بوڑھی ماں ۔ ماں نے بیٹے کی پانچ برس پہلے شادی کر دی اور عبیداللہ نے سب کام چھوڑ کر خان بیلہ میں دکان کھول لی۔ تین برس کا ایک بیٹا اور ایک برس کی بیٹی ہے۔
عبیداللہ نے مجھے چھوڑ کر نعیم بھائی سے دوستی کر لی ۔برسوں بعد اس سے ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ نعیم کی وفات پر سب کام چھوڑ کر لیہ میں میرے گائوں آیا۔ بتاتا رہا کہ وہ کیسے میری شکایتیں نعیم بھائی سے کرتا تھا اور وہ میری مصروفیت کے بہانے گھڑتے رہتے تھے۔ مجھے بھی نعیم نے کہا یار اسے کبھی کبھار فون کر لیا کرو۔ نعیم کی وفات پر عبیداللہ میرے خلاف چارج شیٹ پڑھ کر سناتا رہا اور میں اپنے گائوں میں افسردہ بیٹھا سنتا رہا کہ کیسے وقت کے ساتھ ہم بھی بدل جاتے ہیں۔ مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ میں بھی ایک خودغرض انسان ہوں جو مشکل میں ساتھ دینے والے دوستوں کو بھول کر نئی دنیا میں گم ہوجاتا ہے۔
اب سوموار کے روز اس کی دکان پر چند سرکاری لوگ ایک گاڑی میںآئے‘ عبیداللہ سے اس کا نام پوچھا اور اسے اٹھا کر لے گئے۔روتی دھوتی بیوہ ماں تھانے گئی تو اسے ٹرخا دیا گیا۔ اس نے کہا کوئی اسے رئوف کے پاس اسلام آباد لے کر جائے کہ وہ اس کا بیٹا اسے واپس کرائے۔ مجھے ہمت نہ ہو سکی کہ اس ماں سے بات کرتا ۔ عبیداللہ کی بیوی کو فون کیا تو رونے لگ گئی کہ وہ تین سالہ بچے اور ایک سالہ بیٹی کے ساتھ کہاں جائے اور کہاں ان کے باپ کو تلاش کرے۔ بتانے لگی کہ وہ اکثر اسے میرے ساتھ گزرے ہوئے وقت کے بارے میں بتاتا رہتا تھا ۔ وہ ہمدرد انسان تھا جو ہر ایک کی مدد کے لیے تیار رہتا تھا ۔ اس دوران کالعدم تنظیم کے کچھ ارکان نے اس سے چندہ اکٹھا کیا ۔ میں نے زیادہ کھوج لگائی تو پتہ چلا کہ ملک اسحاق کا تعلق بھی رحیم یار خان سے تھا لہٰذا اس سے بھی کسی دور میں سلام دعا رہی تھی۔ جب ملک اسحاق رہا ہوا تو بھی وہ اس سے ملا۔ لہٰذا ایک شک یہ بھی تھا کہ شاید وہ کسی تنظیم کے ساتھ مل گیا تھا ۔ میں نے یہی سوال اس کی بیوی سے کیا تو وہ بتانے لگی کہ پانچ برس قبل جب سے اس کی شادی ہوئی تھی وہ سب کچھ بھول کر دکان چلا رہا تھا۔ اس سے اکثر چندہ کہیں یا بھتہ‘ لے لیا جاتا تھا لیکن وہ اس طرح کے کام میں خود کبھی ملوث نہیں ہوسکتا تھا۔ اب کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ اس دوران عبیداللہ کو کیا ہوا کہ وہ مشکوک ٹھہرا اور اسے اٹھا لیا گیا۔ شک ہے کہ اس کی ملک اسحاق سے دعا سلام تھی اور جب وہ رہا ہوا اور رحیم یار خان گیا تھا تو وہ عبیداللہ سے بھی ملا تھا ۔
میں نے کہا کہ مجھے پتہ چلا تھا وہ ایک دفعہ کشمیر میں لڑنے کے لیے گیا تھا تو اس کی بیوی بولی شادی کو پانچ برس گزر گئے ہیں اس دوران تو کہیں نہیں گیا‘ اس سے پہلے کا اسے علم نہیں ہے۔ میں نے اس کی بیوی سے کہا کہ مجھے بنک کا اکائونٹ دیں، آپ کو کچھ پیسے بھجوائوں کیونکہ اب گھر میں ایک بوڑھی ماں، بیوی اور دو بچے ہیں اور واحد کمانے والا غائب ہے، تو بولی بھائی ضرورت نہیں ہے۔ اصرار کیا تو بھی نہیں مانی۔
بیوہ ماں، بیوی اور بچے تھانہ شیدانی لیاقت پور ضلع رحیم یار خان گئے تو انہیں تھانے دار نے واپس لوٹا دیا اور کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ اب یہ سب کسی معجزے کے انتظار میں ہیں جو پاکستان میں نہیں ہوتا۔ یوں پاکستان میں ریاست کے اداروں کے ہاتھوں غائب ہونے والوں کی فہرست میں ایک اور نام شامل ہوگیا ہے۔
ریاستی ادارے ایسا کیوں نہیں کرتے کہ اگر عبیداللہ نے کوئی غلط کام کیا ہے تو اس پر مقدمہ درج کریں اور اسے عدالت میں پیش کریں اور ثبوت سامنے لائیں ۔میرے ساتھ برسوں ایک کمرے میں رہنے والے نوجوان عبیداللہ‘ جس نے لاہور کے فلیٹ میں دن رات بیٹھ کر دنیا کے بہترین ادب کو پڑھا اور ٹائپ کیا تھا ، کے اس انجام پر دل رنجیدہ اور افسردہ ہے !اس سے کہاں اور کیا غلطی ہوئی کسی کو کوئی علم نہیں ہے۔
عبیداللہ کے ساتھ میرا بہت کچھ سانجھا ہے۔ ماضی سانجھا ہے، کچھ دکھ سانجھے ہیں ۔ سب سے بڑھ کر سترہ برس قبل لاہور میں گزرے ہوئے مشکل دنوں کی یادیں اور خواب سانجھے ہیں۔ جب ہم سب خالی جیب دوست رات کو میلوں پیدل چل کر لاہور کی سنسان سڑکوں پر چلتے ہوئے خواب دیکھا کرتے تھے۔جن دوستوں کے ساتھ لاہور کی سڑکوں پر عبیداللہ خواب دیکھا کرتا تھا وہ سب اپنی اپنی منزلوں پر پہنچ چکے۔ ہمارا ''سپانسر‘‘ دوست شاہد مصطفیٰ کینیڈا میں خوش ہے تو شعیب بٹھل لندن میں مزے کررہا ہے اور میں یہاں اسلام آباد میں مطمئن ہوں۔ ہم سب کو منزل مل گئی لیکن ہمارے ساتھ خوابوں کی تلاش میں سرگرداں عبیداللہ اس وقت اپنی منزل کھو بیٹھا ، جب وہ اپنے تئیں بیوہ ماں، بیوی اور دو چھوٹے بچوں کے ساتھ رحیم یار خان کے ایک دور دراز قصبے خان بیلہ میں چھوٹی سی دکان کو اپنی منزل ٹھہرا کر ایک مطمئن زندگی گزار رہا تھا!!