میں سرتاج عزیز سے کبھی نہیں ملا ۔ ان کا ذکر اپنے دوست ڈاکٹر ظفر الطاف سے سنا، وہ ان کی قابلیت کے معترف ہیں۔ اسحاق خاکوانی کا کہنا ہے کہ وہ نجی یونیورسٹی کے ریکٹر کے طور پر حکومت سے رعایتیں لیتے رہے۔
میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وزارت خارجہ کے اجلاس میں شریک تھا جس میں ڈرون پر گفتگو کی گئی۔ اجلاس کا موضوع نواز شریف کا دورہ امریکہ تھا اوریہ گیارہ بجے شروع ہونا تھا۔اس اہم کمیٹی کے تیرہ ارکان ہیں۔ سرتاج عزیز اور سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی گیارہ بجے پہنچ گئے، سینٹر فرحت اللہ بابر اورجہانگیر بدربھی آگئے، باقی گیارہ غائب تھے۔کورم پورا نہ ہونے کے باعث اجلاس شروع نہیں ہوسکتا تھا ؛چنانچہ وزارت خارجہ اورداخلہ کے اعلیٰ افسروں کے علاوہ صحافی انتظار میںبیٹھ گئے۔ حاجی عدیل اور صغریٰ امام ساڑھے گیارہ پہنچے تو اجلاس شروع ہوا۔ سینیٹر رضا ربانی، اسحاق ڈار، اعتزاز احسن، غفور حیدری، بابر غوری وغیرہ نے اس اہم اجلاس میں شرکت کو ضروری نہ سمجھا ۔حاجی عدیل کی زیرصدارت اجلاس تین گھنٹے تک تین سینٹرز کے ساتھ چلتا رہا۔
ہمارے دوست متین حیدر فکرمند تھے کہ سرتاج عزیز کمیٹی کوکیسے بریفنگ دیں گے کیونکہ وہ تو وائٹ ہائوس نہیں گئے تھے۔انہوں نے ایک چٹ پر یہ سوال لکھ کر فرحت اللہ بابر کو بھیجا لیکن وہ مسکرا کرخاموش رہے۔ شاید وہ سرتاج عزیز کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ڈرون حملوں کا معاملہ زیر بحث آیا تو سرتاج عزیز نے کھل کر باتیں بتائیں جو پاکستانی میڈیا نے غلط رپورٹ کیں جن کی وجہ سے بحران پیدا ہوا؛ چنانچہ آج وہ منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ سرتاج عزیز نے اجلاس کو بتایا: امریکیوں کا کہنا تھاکہ حکیم اللہ محسود ان کاہدف تھا اورجونہی اطلاع ملی اسے ماردیا گیا۔جو امریکی ڈرون
آپریٹ کرتے ہیں انہیں مارنے کی ہدایات پہلے سے دی گئی تھیں، لہٰذا ان کا پاکستانی طالبان سے حکومت کے مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ جب پوچھا گیا کہ مستقبل میں کیا ہوگاتوسرتاج عزیز نے کہا کہ امریکہ سے اس معاملے پر بھی بات ہوئی تھی،انہوں نے کہا تھاکہ جب پاکستان طالبان سے مذاکرات شروع کرے توانہیں بتادیا جائے،وہ اس دوران ان پرکوئی حملہ نہیں کریں گے؛ تاہم سرتاج عزیز نے اس خدشے کابھی اظہار کیاکہ پھر بھی کوئی پتا نہیں،کون امریکیوں کا ٹارگٹ ہے اور اس یقین دہانی کے باوجود وہ کیا کریں گے۔ اس خدشے کا اظہار کمیٹی کے دوسرے ارکان نے بھی کیا۔ سرتاج عزیز نے یہ بھی کہا کہ اس وقت ہم پاکستانی طالبان سے کوئی مذاکرات نہیں کررہے۔
سرتاج عزیز کی اس پوری گفتگو کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اوّل،امریکہ نے ڈرون حملہ نہ کرنے کی یقین دہانی اس وقت کے لیے کرا رکھی ہے جب پاکستانی طالبان سے مذاکرات شروع ہوں گے اورسرتاج عزیز نے اجلاس کو بتایا کہ اس وقت مذاکرات نہیں ہورہے۔ لہٰذا یہ کہناغلط ہے کہ سرتاج عزیز نے کہا تھاکہ اب امریکہ ڈرون حملے نہیں کرے گا لیکن اگلے روزحملہ ہوگیا۔ دوم،امریکہ نے پاکستانی طالبان پر مذاکرات کے دوران ڈرون حملے نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی نہ کہ افغان طالبان پر۔ہنگو پر جو حملہ ہوا اس میں مرنے والے افغان طالبان ہیں،ان میں پاکستانی طالبان کا کوئی لیڈر نہیں مارا گیا ۔ لہٰذا سرتاج عزیز کو یہ الزام نہیں دیا جا سکتا کہ انہوں نے امریکہ کی بات پر کیوں یقین کر لیا تھا ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ساری غلط فہمی کس نے اور کیسے پیدا کی ؟ جان کی امان پائوں تو میرے خیال میں میڈیا نے اس میں بڑا کردار ادا کیاہے ۔کبھی وزارت خارجہ کی بیٹ انتہائی سینئر صحافیوں کے ذمے ہوتی تھی، ٹی وی جرنلزم کادورشروع ہوا تودفتر خارجہ کے حساس معاملات سے ناواقف نوعمر صحافی کوئی تربیت لیے بغیر رپورٹنگ کرنے لگے اور ان کی بات کو حرف آخر سمجھاجانے لگا۔ نئے لڑکے لڑکیاں ان اجلاسوں کی رپورٹنگ سنجیدگی سے نہیں کرتے ۔کوئی دیر سے آئے تو دوسرے سے نوٹس لے لیتا ہے۔ کوئی وہیں سے موبائل ٹیکسٹ پر ٹی وی کو ٹکرز بھیج رہاہوتا ہے ۔ اجلاس کی کارروائی پر توجہ کم ہوتی ہے۔
اُس دن بھی یہی ہورہا تھا ۔ میرے قریب بیٹھی ایک لڑکی کومجھے کہنا پڑاکہ اگر آپ اجلاس کے شرکاء کی باتیں غور سے سنیں تو آپ کو مجھ سے بار بارنہیں پوچھنا پڑے گا، اس پر وہ ناراض ہوگئی۔ ایک بڑے ٹی وی چینل کا رپورٹر ڈیڑھ گھنٹے بعد آیا اور اس نے آتے ہی ٹکربھیج دیا کہ اب ڈرون حملہ نہیں ہوگا۔اس نے خود یہ نہیں سناتھا بلکہ ادھر ادھر سے سنا۔اس کے بعدایک دوڑ لگ گئی۔
مجھ جیسے صحافیوں کو انگریزی میں بات کرنے والے افسروں کی بات کم سمجھ میں آتی ہے، لہٰذا وہ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ فلاں نے کیا بات کی اور فلاں نے کیا جواب دیا؟حیرت ہے، سرتاج عزیز نے اگلاپورا دن اس معاملے کی وضاحت کیوں نہ کی؟ شاید وہ مایوس ہوگئے ہوں گے کہ میڈیا کی غلط رپورٹنگ کا کوئی علاج نہیں ۔
اس غلط رپورٹنگ کا نتیجہ کیا نکلا ؟ یہ خبر جس انداز سے رپورٹ ہوئی وہ لمحہ بھر میں عالمی خبر بنی،اس پر میڈیا میں ٹاک شوز ہوئے اورمعاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ وزیرداخلہ نے بھی سرتاج عزیزپر طعنہ زنی کی، انہوں نے اسحاق ڈار کو بھی رگڑ دیا کہ انہیںڈالر چاہئیں یا عزت ۔ شکر ہے سرتاج عزیز اور اسحاق ڈار نے چودھری نثار کویہ جوابی طعنہ نہیں دیا کہ اگر امریکہ کے ساتھ عزت سے لڑنا ہے تو آئیں پہلے اپنے بیوی بچوں کے امریکی پاسپورٹ امریکیوں کے منہ پر مارتے ہیں۔وہ لیڈر دادکے مستحق ہیں جن کے بیوی بچے برطانیہ اور امریکہ کے شہری ہیں، وہیں پلتے بڑھتے ہیں اوروہ یہاں بہادر بن کر اسحاق ڈار اور سرتاج عزیز کوڈالروں کے طعنے دیتے ہیں ۔
مجھے سب سے زیادہ فکر پاکستانی میڈیا کی رپورٹنگ کے گرتے ہوئے معیارسے ہے جس کے ملک پر خوفناک اثرا ت مرتب ہوسکتے ہیں۔سینیٹ کمیٹی کا حال آپ نے سن لیا کہ کیسے دو ایشوز کوخلط ملط کیاگیا ۔دوسرا ایشو ہنگو پر حملے کی رپورٹنگ کے بارے میں ہے۔ پہلے میڈیا نے رپورٹ کیا کہ مدرسے پر حملہ ہوا جس میں طلبہ اور اساتذہ مارے گئے ۔ ٹی وی چینلز پورا دن یہی خبر چلاتے رہے،دوسرے دن صبح کے اخبارات سے پتہ چلا کہ مرنے والے افغان طالبان تھے اور ان کا تعلق حقانی گروپ سے تھا، وہ سب اس مدرسے میں ٹھہرنے آئے تھے۔ گویا ہم اس الزام کو سچا ثابت کر رہے ہیں کہ پاکستان کے مدرسوں میں طالبان بچوں کو دہشت گردی کی تربیت دے رہے ہیں، لہٰذا بچوں کے ساتھ مرنے والے افغان ان کے استاد تھے۔ کسی نے سوال نہیں اٹھایاکہ حقانی گروپ کے افغان طالبان ہنگو میں بچوں کے مدرسے میں کیا کر رہے تھے؟ کیا پاکستان نے امریکہ سے گارنٹی لے رکھی ہے کہ وہ پاکستان کے اندر افغان طالبان پر بھی حملے نہیں کرے گا ؟ میرا خیال ہے اس طرح کی کوئی گارنٹی نہیں لی گئی ۔ اگر ہم اپنے مدرسوں میں افغان طالبان کو ٹھہرنے سے نہیں روک سکیں گے تو ڈرون حملے نہیں رکیں گے۔
نواز شریف نے درست کہا تھاکہ ڈرون حملے رکوانے کے لیے ہمیں اپنا گھر صاف کرنے کی ضرورت ہے لیکن ہمارے لیڈروں، میڈیا اورعوام نے مل کرایسی روش اختیارکی کہ انہوں نے بھول کر بھی یہ بات نہیں دہرائی۔ لیڈر جب تک عوام اور میڈیا کو فالو کرتے رہیں گے پاکستان مسائل سے نہیں نکل سکے گا۔ لیڈر وہ ہے جو قوم کو لیڈ کرے اسے فالونہ کرے۔ ہمیں عمران خان بتاتے ہیں کہ عراق جنگ کے خلاف لاکھوں لوگ یورپ میں سڑکوں پر نکل آئے تھے لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ اس کے باوجود یورپی حکومتوں نے عراق پر حملہ کیا کیونکہ اس میں ان کا مفاد تھا ۔
میں اپنے شعبے کا احتساب کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ میڈیا کا کام سچ بولنا ہے مگر وہ خواہش کو خبر بنا کر رپورٹ کر رہا ہے۔ شاید میڈیا کو علم ہو گیا ہے کہ پاکستانی مارکیٹ میں جھوٹ کے خریدار بہت ہیں اور اسے یہ اصول معلوم ہے کہ جس چیز کی طلب بڑھے، اس کی سپلائی بھی بڑھادینی چاہیے ! ہمارے ہاں یہ محاورہ بھی غلط نکلا کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے کیونکہ ہمارے پاس جھوٹ لکھنے کے لیے دو ہاتھ ، جھوٹ سننے کے لیے دو کان اور مسلسل جھوٹ بولنے کے لیے ایک لمبی زبان ہوتی ہے !