"RKC" (space) message & send to 7575

طارق ملک کیسے برطرف ہوئے ؟

جس طرح نادرا کے چیئرمین طارق ملک کو اسلام آباد سے لاہور بلا کر رات کے ایک بجے برطرف کیا گیا‘ اس کے بعد حیران ہوں کہ حکمرانوں نے ماضی سے کیا سیکھا ہے؟ 
آئیں مل کر ایک فرضی کہانی لکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ طارق ملک کیوں برطرف ہوئے۔ کہانی یہاں سے شروع کرتے ہیں کہ اسلام آباد میں بیٹھے طارق ملک کو ایک فون کال موصول ہوتی ہے۔ انہیں حکم ملتا ہے کہ فوراً لاہور پہنچیں۔ راستے میں وہ یقینا سوچتے ہوں گے کہ انہیں کیوں ہنگامی طور پر بلایا گیا ہے۔ کار میں سوار لاہور کی طرف گامزن ملک صاحب کو یقینا یاد آیا ہوگا کہ کیسے چوہدری نثار علی خان نے اقوام متحدہ کی سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کے پاکستانی مندوب کی درخواست کے باوجود انہیں دنیا کے ایک سو اسّی ممالک کے نمائندوں کو بریفنگ دینے کے لیے جانے کی اجازت نہیں دی تھی جو نادرا کے پروگرام اور کارکردگی سے بہت متاثر تھے۔ 
جب وزارتِ داخلہ سے اجازت مانگی گئی تو جواب ملا کہ چوہدری نثار علی خان کا حکم ہے کہ کوئی افسر پاکستان سے باہر نہیں جا سکتا کیونکہ اس پر پیسے خرچ ہوتے ہیں۔ پاکستانی مندوب چلاّتا رہا کہ ہم ان ممالک سے کروڑوں ڈالرز کا زرمبادلہ کما سکتے ہیں مگر ایک ہی جواب ملا کہ نادرا چیئرمین ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔ 
کہانی ایک اور موڑ لیتی ہے۔ 
موٹر وے پر سفر کرتے ہوئے طارق ملک کو یقینا ایک اور خیال نے ڈس لیا ہوگا کہ ابھی کچھ دن پہلے تو نادرا نے سری لنکا میں چھ ارب روپے کا ایک کنٹریکٹ جیتا تھا ۔ یہ کنٹریکٹ جیتنا کوئی آسان کام نہیں تھا ۔ پہلے ایک بھارتی کمپنی نے مل ملا کر وہ 
کنٹریکٹ جیت لیا تھا ۔ تاہم طارق ملک خود سری لنکا گئے، وکیل کیا اور سری لنکا کی سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا کہ یہ کنٹریکٹ نادرا کا حق تھا، اس کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی۔ سری لنکا کی سپریم کورٹ نے ایک ماہ لگا کر سماعت کی، نادرا کا موقف درست نکلا۔ حکم نکلا کہ دوبارہ کنٹریکٹ ہونا چاہیے۔ ایک دفعہ پھر دنیا بھر سے کمپنیوں اور بھارتی کمپنیوں نے شرکت کی اور نادرا آرام سے چھ ارب روپے کا کنٹریکٹ جیت گیا۔ دوسرے مرحلے میں نادرا کی آنکھیں تیس ارب روپے کے سری لنکا کے دوسرے کنٹریکٹ پر تھیں۔ سری لنکا حکام کا فون آیا کہ اگلے ایک ہفتے میں سری لنکا پہنچ کر اس معاہدے پر دستخط کریں۔ وزارتِ داخلہ کو ایک دفعہ پھر سمری بھیجی گئی جس میں بتایا گیا کہ تین افسران سری لنکا جائیں گے تاکہ چھ ارب روپے کے معاہدے پر دستخط کر سکیں۔ فائل چوہدری نثار کے پاس گئی تو انہوں نے کہا کہ چیئرمین طارق ملک کو یاد نہیں ہے کہ پہلے بھی انہیں اجازت نہیں ملی تھی۔ انہیں بتایا گیا کہ جناب پاکستان کو چھ ارب روپے کا نقصان ہوگا، اس پر ان کا دل کچھ پسیجا‘ کیونکہ میڈیا نے اس معاملے کو اچھالا ہوا تھا اور بدنامی ہورہی تھی۔ بولے‘ پہلے تو چیئرمین نادرا کو بتائو کہ وہ نہیں جا سکتے۔ ہاں اگر وہ دو افسروں کے نام بتا دیں تو پھر سوچا جا سکتا ہے۔ فائل دوبارہ نادرا کے پاس آئی اور یوں طارق ملک نے ملک کے مفاد میں اپنا نام کاٹ کر دو افسران کے ناموں کی منظوری دی کہ وہ سری لنکا جائیں گے۔ 
طارق ملک کو یقینا یہ بھی یاد آیا ہوگا کہ کیسے وزارتِ داخلہ ان کے اپنے ادارے کے حوالے سے دیے گئے ایک انٹرویو پر ناراض تھی اور حکم جاری ہوا تھا کہ آئندہ وزارتِ داخلہ کا کوئی محکمہ وزارت داخلہ کی اجازت کے بغیر بات نہیں کرے گا۔ یہ کام وزارتِ داخلہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا تاکہ سب خاموش رہیں۔ 
طارق ملک کے ذہن میں یہ سب کچھ چل رہا ہوگا کہ وہ اس طرح کتنے دن چل سکیں گے! ان کی وجہ سے پہلے ہی سارا الیکشن مشکوک ہو رہا ہے۔ وہ جس حلقے میں سائنسی انداز میں گنتی شروع کرتے ہیں اور انگوٹھوں کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایک انگوٹھے نے چودہ سے لے کر چالیس تک ووٹ کاسٹ کیے ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ یہ خطرناک کھیل ہے جو دھیرے دھیرے بڑھ رہا ہے۔ اگر ہر حلقے میں یہ کام شروع ہوگیا تو پھر الیکشن کا کیا ہوگا؟ اگر لاہور کے ہی نتائج تبدیل ہونا شروع ہوگئے تو پھر کیا ہوگا؟ ابھی الیکشن ٹربیونل نے حکم دیا تھا کہ وہ لاہور کے حلقہ 118 میں نادرا ریکارڈ کی مدد سے انکوائری کریں۔ نواز لیگ کا جیتا ہوا امیدوار ملک ریاض پہلے ہی بہت پریشان ہے اور وہ لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کر چکا ہے کہ وہ ہر صورت الیکشن کمیشن کو ان کے حلقے میں نادرا کی مدد لینے سے روکے۔ طارق ملک کو یہ بھی پتہ تھا کہ دو اہم حلقوں سے بھی ایسی خبریں آرہی ہیں کہ وہاں سے سپیکر قومی اسمبلی اور ایک اور وفاقی وزیر کی کامیابی بھی مشکوک ہوسکتی ہے۔ 
تو کیا طارق ملک کو اس کام کے لیے لاہور بلایا جارہا ہے؟ 
تاہم طارق ملک کا ذہن یقینا کسی اور طرف ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ پوری حکومت ان سے ناخوش ہے۔ انہی سوچوں میں غرق طارق ملک رات گئے لاہور پہنچتے ہیں ۔ جن تین بڑے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے ان میں دو صوبائی اور ایک وفاقی وزیر بھی شامل ہے۔ دعا سلام کے بعد انہیں صاف صاف بتایا جاتا ہے کہ بہتر ہے لاہور کا رخ مت کرنا ۔ حیران و پریشان طارق ملک کو بتایا جاتا ہے کہ اب تک تم گیارہ انتخابی حلقوں کا‘ نادرا کے ریکارڈ اور ٹیکنالوجی کی مدد سے‘ جائزہ لے کر نتائج خراب کر چکے ہو، اب لاہور میں داخل نہ ہونا ۔ مزید حیران اور پریشان طارق ملک ان کے چہروں کی طرف دیکھ رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ تمہارے پاس تین آپشن ہیں۔ اوّل یہ کہ الیکشن ٹربیونل کو بتا دو کہ نادرا لاہور کے انتخابی حلقوں کی انکوائری نہیں کر سکتا۔ طارق ملک مزید حیران کہ وہ کیسے انکار کر سکتا ہے کیونکہ پہلے ہی گیارہ حلقوں کا جائزہ وہ لے چکے ہیں۔ کیسے الیکشن کمیشن کو کہیں کہ وہ کراچی کے حلقوں کی انکوائری کر کے رپورٹ دے چکے ہیں لیکن ان کے لاہور میں داخل ہوتے ہوئے پر جلتے ہیں۔ ایک سمجھدار نے کہا تو پھر کیا ہوا، ایک اور راستہ بھی ہے۔ تم لاہور کے نتائج پر ہاتھ ہولا رکھو۔ موجودہ انتخابی نتائج میں زیادہ تبدیلی نہیں ہونی چاہیے۔ جیسے ہے جہاں ہے کی بنیاد پر سب چلنے دو۔ طارق ملک کے چہرے پر ''ناں‘‘ جیسے تاثرات پڑھ کر ان سمجھداروں میں سے ایک بولا تو پھر ملک صاحب ایک اور آپشن ابھی رہتا ہے۔ پوچھا تو کہا گیا آپ ابھی استعفیٰ دے دو اور گھر جائو۔ ہم کسی اور سے یہ کام کرا لیں گے۔ 
بڑے لوگوں کی بڑی دھمکیاں سنتے ہوئے طارق ملک کو یاد آیا ہوگا کہ کبھی اس طرح جنرل مشرف نے بھی چیف جسٹس افتخار چوہدری کو آرمی ہائوس بلا کر دھمکی دلوائی تھی کہ وہ استعفیٰ دے دیں۔ مگر چیف نے استعفیٰ نہیں دیا تھا۔ 
اس ایک لمحے میں طارق ملک نے فیصلہ کرنا تھا کہ انہوں نے بھی ڈاکٹر قدیر کی طرح جھک جانا ہے یا پھر چیف جسٹس کی طرح ''ناں‘‘ کرنی ہے۔ 
ایک لمحہ گزر گیا تھا۔ طارق ملک نے انکار کیا اور کمرے سے نکل گئے۔
طارق ملک کے جانے کے بعد ایک فون اسلام آباد کیا گیا کہ جناب بندہ کچھ زیادہ ہی ضدی نکلا ہے ۔ اس کو بعد میں دیکھ لیں گے۔ رات کو وزیراعظم ہائوس سے حکم جاری ہوا، سرکاری دفتر کھولے گئے، برطرفی کی سمری تیار کی گئی اور رات ایک بجے طارق ملک برطر ف ہوچکے تھے ! 
( نوٹ: آپ اسے ایک فرضی کہانی سمجھ کر پڑھیں اور انجوائے کریں کیونکہ طارق ملک وزیراعظم نواز شریف کے ہاتھوں برطرفی کے بعد اب ہائی کورٹ کے حکم پر بحال ہو چکے ہیں)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں