کچھ عرصہ پہلے سامنے آنے والے مضاربہ سکینڈل کی کچھ دل ہلا دینے والی مزید تفصیلات ،جو اب سپریم کورٹ میں ایک خفیہ رپورٹ میں پیش کی گئی ہیں،کی ایک کاپی اپنے ذرائع سے نکلوا کر پڑھی ہیں تو یقین نہیں آتا کہ اس قوم کے پاس اتنا پیسہ ہے اور ہم دن رات روتے ہیں کہ غربت بڑھ گئی ہے۔
لال مسجد اسلام آباد کے احاطہ اور نام کو استعمال کرتے ہوئے مفتی احسان، ایک افغانی شہری خالد افغانی اور تھائی لینڈ سفارت خانے کے ایک ڈرائیور نثار علی خان نے سر عام لوگوں سے6.5 ارب روپے کے قریب رقم اکٹھی کی اور پاکستان سے نکال کر تھائی لینڈ لے گئے ۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ مفتی احسان اور اس کے ساتھیوں نے جب سوچا کہ لال مسجد پر لوگوں کا یقین بڑھ گیا ہے اور ہر کوئی لال مسجد میں ہونے والے خون خرابے پر آنسو بہا رہا ہے تو کیوں نہ ان سب کی جیبوں پر ڈاکہ مارا جائے۔ دھیرے دھیرے بنکوں کے سود کے خلاف لوگوں کے کانوں میں وعظ شروع ہوا اور جب سب نے پوچھنا شروع کیا کہ پھر کیا ہونا چاہیے تو مفتی احسان نے کہا اس کا اسلامی حل ان کے پاس موجود ہے۔ اللہ بھلا کرے جنرل ضیاء کا، جنہوں نے اسی دن کے لیے مسلمانوں کو ایک راستہ دکھایا تھا اور وہ تھا مضاربہ کا کاروبار۔ اس کے تحت دو لوگ اس بات پر راضی ہوتے ہیں کہ ایک بندہ اپنا مال لگائے گا ۔ اسے رب المال کہا جاتا ہے ۔دوسرا جو اس سرمایے کو استعمال کر کے پیسے کماتا ہے اسے مضارب کہتے ہیں۔ اس کاروبار سے جو منافع ملتا ہے وہ دونوں میں برابر تقسیم ہوتا ہے لیکن نقصان صرف وہ برداشت کرتا ہے جو سرمایہ کاری پر محنت کرتا ہے۔ جو سرمایہ لگاتا ہے اسے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ مضاربہ کاروبار کو باقاعدہ قانونی شکل دی گئی ہے اور سکیورٹی ایکسچینج کمشن آف پاکستان اس کاروبار کو مانٹیر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور بھی کاروبار ہے جسے Musharika کہا جاتا ہے۔اس میں نفع نقصان برابر تقسیم کیا جاتا ہے۔
مفتی احسان اور اس کے ساتھیوں نے جمعہ کے نمازیوں سے مال اکٹھا کرنا شروع کر دیا کہ وہ غیراسلامی طریقوں سے دور رہیں اور گھر بیٹھے منافع کمائیں ۔ نہ صرف لال مسجد بلکہ ملک کی دیگر مساجد میں بھی اعلانات ہونے لگے کہ جس نے سرمایہ کاری کرنی ہے اور اپنی آخرت کو سود کے عذاب سے بچانا ہے وہ مفتی احسان سے رابطہ کرے اور یوں مفتی صاحب کی پانچوں گھی میں ڈوبنے لگیں ۔
ایک دن ایس ای سی پی نے ایک شکایت نیب کو بھیجی کہ کچھ مفتی لوگ بغیر رجسٹرڈ ہوئے یہ کاروبار کر رہے ہیں اور لوگوں کو لُوٹا جارہا ہے۔ نیب نے تحقیقات شروع کی تو اور ہی کہانی نکلی ۔مفتی احسان سے پوچھ گچھ ہوئی تو پتہ چلا کہ کچھ عرصہ پہلے اس کی دوستی تھائی لینڈ سفارت خانے کے ایک ڈرائیور نثار سے ہوگئی تھی۔ نثار نے اپنے ذرائع سے تھائی لینڈ کی شہریت لے رکھی تھی۔ اس نے مفتی احسان کو جھانسا دیا کہ جناب پاکستان میں کیا پڑا ہے؟آپ میرے ساتھ تھائی لینڈ چلیں آپ کو وہاں سونے اور ہیرے جواہرات کی کانیں خرید کر دیتا ہوں۔ اس نے مفتی احسان کا ویزہ لگوایا اور انہیں اپنے ساتھ لے گیا۔ وہاں مفتی احسان نے تھائی لینڈ کے لوگوں کی میزبانی سے پورا پورا استفادہ کیا۔ انہوں نے وہاں اپنی پرائیویٹ کمپنیاں رجسٹرڈ کرالیں اور نثار نے سارا پیسہ پاکستان سے تھائی لینڈ شفٹ کرالیا۔ یوں ایک ڈرائیور اور مفتی نے مل کر اربوں روپے بنکاک شفٹ کر کے وہاں اپنی کمپنیاں شروع کردیں۔محنت بی فاختہ نے کی اور انڈے مفتی احسان اور نثار نے مل کر بنکاک میں کھائے۔
اس دوران ڈی جی نیب کرنل صبح صادق نے اخبار میں اشتہار دیا کہ اس سکینڈل کے متاثرین رابطہ کریں ۔ تین بار اشتہار دینے کے بعد 830 درخواستیں آئیں اور پتہ چلا کہ مفتی صاحب نے لوگوں سے 55 کروڑ روپے جمع کیے تھے۔ نیب کے پلی بارگین ایکٹ کے تحت مفتی نے وہ پیسے واپس کرنے کی ہامی بھر لی ۔ نیب کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے یہ پلی بارگین ڈیل منظور ہوئی اور نیب عدالت کو اطلاع دے کر مفتی احسان کو رہا کر دیا گیا ۔ مفتی صاحب نے گھر کے گیراج میں سے بوریوں میں بند نوٹ برآمد کرا کے فوری طور پر 45 کروڑ روپے جمع کرائے اور باقی کے دس کروڑ روپے کے لیے کچھ دن کی مہلت مانگ لی۔ اس دوران جونہی یہ بات پھیلی تو نیب کا دفتر شکایات سے بھر گیا ۔ ایسے ایسے معززین اور بڑے لوگ نیب کے پاس شکایات لے کر آئے کہ نیب والے بھی سکتے میں آگئے ۔چنانچہ نئے سرے سے سکینڈل کی رقم کا جائزہ لیا گیا تو پتہ چلا کہ یہ رقم 55 کروڑ نہیں بلکہ 6.5 ارب روپے ہے۔ اس پر مفتی احسان کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا اور اس وقت وہ جیل میں ہیں۔ اس دوران ایک نوجوان معین نے سوچا کہ سب نے مال بنا لیا اور وہ اکیلے رہ گئے ہیں۔ اس نے نیا طریقہ ڈھونڈا۔ اس نے نیب کے افسران سے ملنا جلنا شروع کردیا کہ وہ مفتی احسان کو قائل کرے گا کہ وہ یہ ساری رقم واپس کر دیں۔ اس نوجوان کے تعلقات نیب کے افسران سے بڑھتے گئے اور ایک دن پتہ چلا کہ اس نوجوان نے مفتی احسان کے ساتھیوں سے چار پراڈو گاڑیاں اور ایک ویٹا گاڑی آب پارہ کے شوروم سے یہ کہہ کر لے لیں کہ اس نے نیب کے افسران کو پیش کرنی ہیں۔ نوجوان کو گرفتار کیا گیا تو نہ مانا ، اس پر بتایا گیا کہ اسے اس کے والد کے پاس لے کر چلتے ہیں تو وہ ڈر گیا۔اس نے وہ چار گاڑیاں نیب کو دے دیں جو اس وقت نیب پنڈی کے دفتر میں کھڑی ہیں ۔
تحقیقات کا دائرہ تھائی لینڈ تک بڑھا دیا گیا تو پتہ چلاکہ مفتی احسان اور نثار نے مل کر وہاں تین کمپنیاں بنائی ہیں،جن کے ڈائریکٹر مفتی احسان اور نثار ہیں۔ ایک کمپنی کا نام Ranworld ہے جسے تھائی لینڈ میں رجسٹرڈ کیا گیا تھا۔ دوسری کمپنی x Spadi تھی جو خالد افغانی اور نثار کے نام پر تھی، جب کہ تیسری کمپنی Azizi Ajoga تھی جس کی رجسٹریشن دبئی، تھائی لینڈ اور ملائیشیا میں کی جارہی تھی اور اس کے تین ڈائریکٹر خالد افغانی، نثار ڈرائیور اور مفتی احسان تھے۔ نثار پاکستان آیا ہوا تھا اسے نیب نے بلایا تو وہ تھائی لینڈ بھاگ گیا۔ اب تھائی لینڈ حکومت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ نثار کو پاکستان کے حوالے کرے۔
اب تک نیب راولپنڈی کے پاس 7969 لوگ درخواستیں لے کر پہنچے ہیں کہ انہیں لُوٹا گیا ہے۔ ان لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ یہ سارا کاروبار مضاربہ اور مشارکہ کے تحت کیا جارہا ہے اور اس میں کوئی غیرقانونی کام نہیں۔ کاروبار بلاسود ہے اور اس میں منافع بھی بہت زیادہ ہے۔
اس دوران ملزمان نے نیب کے افسران کے ساتھ ایک اور ہاتھ کیا۔ سپریم کورٹ میں جعلی خط بھیجا گیا کہ نیب کے ڈی جی کرنل صبح صادق نے اٹھارہ کروڑ روپے لے کر مفتی احسان کو چھوڑ دیا تھا ۔ اس خط پر کسی کا نام پتہ وغیرہ درج نہیں تھا ۔ عموماًایسے خطوط پر کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی، تاہم عدالت نے اس پر نیب سے جواب طلب کر لیا۔ نیب نے اتنا لکھ کر بھیجا کہ مفتی احسان کے ساتھ پہلے پلی بارگین ڈیل کی گئی تھی تاکہ لوگوں کو ان کے پیسے واپس دلوائے جائیں اور اس کی منظوری باقاعدہ ایگزیکٹو بورڈ نے دی تھی اور نیب عدالت کو اس کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ تاہم جب ساڑھے چھ ارب روپے کی شکائتیں سامنے آئیں اور ساتھ ہی وہ بقیہ کے دس کروڑ واپس نہ کر سکے تو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ۔ کرنل صبح صادق حیران ہیں کہ اگر انہوں نے پیسے لے کر مفتی احسان کو چھوڑا تھا تو دوبارہ کیوں گرفتار کر لیا ۔ اس سوال کا جواب کرنل صاحب کو نہیں ملے گا کیونکہ ہم صحافی لوگ وضاحتیں سننے کے عادی کم ہی ہوتے ہیں۔
لٹنے والوں میں اکثریت بٹ گرام، ایبٹ آباد، مانسہرہ وغیرہ کے علاقوں کی ہے جہاں سے نثار اور مفتی کا تعلق ہے ۔ اس کے علاوہ اسلام آباد اور لاہور کے بڑے بڑے معززین بھی لٹے ہیں۔ اگر بتا دوں کہ لاہور کے ایک بہت بڑے عالم دین کے علاوہ کس کس معزز کا مال ان تینوں نے ''بنکاک کے شعلوں‘‘ کی نذر کیا تو ایک طوفان آجائے گا ۔
کئی برس پہلے پاکستانی فلم بنکاک کے شعلے بنی تھی ۔ پاکستانی فلم ساز اگر بھارتی فلموں کو عدالتوں سے بین کرانے کی بجائے ان کا مقابلہ کریں اور اپنے کام پر توجہ دیں تو بنکاک کے شعلے پارٹ ٹو بن سکتی ہے۔ سکرپٹ تیار ہے ،ایسا سنسنی خیز سکرپٹ جس میں اب کی دفعہ امیروں نے نہیں بلکہ عام ڈرائیور، مفتی اور افغانی نے آٹھ ہزار لوگوں کو لوٹا ہے۔ یہ ایک ایسا سکرپٹ ہے جس میںتین ولن ایک ساتھ ، لٹتے عوام ، وردی، پیسہ، سونے جواہرت کی کانیں اور سب سے بڑھ کر بنکاک کی رنگین راتوں میں فلمایا جانے والا آئٹم سانگ تک سب مسالہ موجود ہے۔