صلاح الدین جو متحدہ پاکستان کی آخری قومی اسمبلی1962 ء کے بنگالی سپیکر فضل قادر چوہدری کے بیٹے ہیں،کو ڈھاکہ جیل کی موت کی کوٹھڑی میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ صلاح الدین خالدہ ضیاء کی پارٹی کی طرف سے چٹاگانگ حلقے سے ساتویں دفعہ مسلسل ایم این اے ہیں اور موت کی کوٹھڑی میں جلاد کا انتظار کر رہے ہیں۔ صلاح الدین نے موت کی کوٹھڑی میں منتقل ہونے سے پہلے اپنے جن بچوں اوربچپن کے کلاس فیلوز اور دوستوں کو آخری ای میل کی ہے‘ ان میں ایک نام اسحاق خاکوانی کا بھی ہے۔
میری صلاح الدین چوہدری سے پہلی ملاقات اکتوبر 2007ء کی ایک خوبصورت دوپہر کو صوابی کے قریب نگران وزیر زبیر خان کے فارم ہائوس پر ہوئی تھی۔ مجھے اسحاق خاکوانی اور صلاح الدین چوہدری کے زندگی سے بھرپور قہقہے‘ زبیر خان کی مہمان نوازی‘ سامنے دھوپ میں چمکتے دریا کی نیلی لہروں کا نظارہ اور اوپر سے مہربان سورج کی میٹھی گرم کرنیں... شاید عمر بھر نہ بھولیں۔
صلاح الدین چودھری سے میرا تعارف اسحاق خاکوانی نے کرایا تھا۔ وہ صادق پبلک سکول بہاولپور میں اکٹھے پڑھتے رہے۔ میاں محمد سومرو بھی بچپن میں ان کے ساتھی تھے۔ گرمی کی چھٹیاں ہوتیں تو صلاح الدین اپنے دوست اسحاق خاکوانی کے ساتھ ملتان آجاتے اور تین ماہ وہیں گزارتے۔
مارچ 1971ء میں حالات بگڑے تو صلاح الدین چوہدری کراچی آگئے اور محمود ہارون کے گھر ٹھہرے جن کے ان کے باپ سے اچھے تعلقات تھے۔ کوشش کر کے پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ اسحاق خاکوانی پہلے سے لاہور میں تھے۔ اگست میں امتحان دیا اور دوستوں نے پلان بنایا کہ بذریعہ سڑک لندن چلتے ہیں۔ اس دوران بنگلہ دیش بن گیا اور صلاح الدین لندن میں ہی رہ گئے۔
2007ء کے آخر میں زبیر خان کے فارم پر صلاح الدین چوہدری مجھے کہہ رہے تھے کہ کچھ ہفتوں بعد بنگلہ دیش میں الیکشن ہونے والے ہیں، تم بھی آئو اور دیکھو ہمارے ہاں الیکشن کیسے ہوتے ہیں۔ چند دنوں بعد میں ڈھاکہ ائرپورٹ پر اترا تو صلاح الدین کا ڈرائیور میرا انتظار کر رہا تھا۔ اگرچہ انہوں نے میرے لیے رہائش کا بندوبست کیا ہوا تھا لیکن میں نے ایک گیسٹ ہائوس میں کمرہ لے لیا کہ وہ ایک پارٹی کے رہنما ہیں‘ ایک رپورٹر کا ان کے ہاں رہنا مناسب نہ ہوگا۔
الیکشن کے بعد جس دن مجھے پاکستان لوٹنا تھا ، صلاح الدین چوہدری نے اپنے گھر ڈنر پر بلایا۔ ان کے ہاں اس وقت پاکستان میں بنگلہ دیش کی ہائی کمشنر یاسمین مرشد بھی موجود تھیں جو ایوب خان دور کے وزیر خواجہ شہاب الدین کی پوتی ہیں۔ صلاح الدین چوہدری کی بیگم نے بنگالی کھانے پکائے تھے۔ حسینہ واجد جیت چکی تھیں اور خالدہ ضیاء کی پارٹی بُری طرح ہار چکی تھی۔ اگر خالدہ ضیاء کی پارٹی کا کوئی لیڈر اپنی سیٹ بچانے میں کامیاب ہوا تھا تو وہ صلاح الدین چوہدری تھے۔ مجھے ان کے چہرے پر پریشانی صاف نظر آرہی تھی۔ کہنے لگے ''ہم سب کے لیے مشکل وقت شروع ہونے والا ہے کیونکہ حسینہ واجد نے الیکشن میں جو نعرے لگائے ہیں وہ انتقام سے بھرپور ہیں۔ میں تو بھارتی لابی کی ہٹ لسٹ پر ہوں کیونکہ میں پاکستان میں ہی پلا بڑھا ہوں۔ مجھے بنگلہ دیش میں پاکستان کا دوست سمجھا جاتا ہے۔ حسینہ واجد مجھے نہیں چھوڑے گی‘‘۔
2010ء کی ایک شام پریشان حال اسحاق خاکوانی کا فون آیا کہ یار صلاح الدین چوہدری کو جنگی جرائم کے الزامات پر گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان پر شدید تشدد ہورہا ہے۔ صلاح الدین کے بچے پریشان تھے۔ اسحاق خاکوانی نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بچپن کے دوست کو یوں پھانسی نہیں لگنے دے گا۔ تاہم صلاح الدین کے بچوں کا خیال تھا کہ بہتر ہوگا پاکستان میں ان کے باپ کی گرفتاری کے حوالے سے زیادہ بات نہ کی جائے تاکہ بنگلہ دیش میں ان کے
دشمنوں کو مزید جواز نہ مل جائے۔ مگر اسحاق خاکوانی نے چپکے سے کوششوں کا آغاز کر دیا ۔ اس دوران برطانیہ کا اہم وکیل ٹوبی کیڈمین‘ جو بوسنیا میں ہونے والی نسل کشی اور وار ٹرائل کو بھی دیکھ رہا تھا‘ بنگلہ دیش گیا تاکہ صلاح الدین کا کیس لڑے‘ لیکن اجازت نہ ملی اور اسے بنگلہ دیش سے نکال دیا گیا۔ اس نے اسحاق خاکوانی سے بات کی کہ سعودی عرب سے کیسے بات کی جائے۔ صلاح الدین سیکرٹری جنرل او آئی سی کے لیے سعودی عرب اور پاکستان کا مشترکہ امیدوار تھا۔ اسحاق خاکوانی نے کسی جنرل دوست سے درخواست کر کے دبئی میں اس کی جنرل مشرف سے ملاقات کا انتظام کرایا ۔ کیڈمین لندن سے آیا اور جنرل مشرف سے ملا کہ وہ اپنا اثرو رسوخ استعمال کریں ۔
اسحاق خاکوانی اس دوران وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے ملے تو انہوں نے کہا وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ ایک اور خیال آیا تو خاکوانی وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران سے ملے ۔ ڈاکٹر کامران نے بہت مدد کی اور یونیورسٹی کا سارا ریکارڈ نکالا جب صلاح الدین وہاں پڑھتے تھے۔ پنجاب کے وزیر عمران مسعود بھی خاکوانی کے ساتھ تھے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے پرانی ڈگریاں، حاضریاں، ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کا خط وغیرہ سب کچھ لیا تاکہ عدالت کو بتائیں کہ ان دنوں وہ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا۔ کراچی میں محمود ہارون کی فیملی سے رابطہ کیا کیونکہ صلاح الدین وہاں بھی ٹھہرا تھا۔ محمد میاں سومرو کا بیان حلفی لیا کہ لاہور اکٹھے پڑھتے رہے تھے۔ ہمایوں مراد کو ڈھونڈا جن کے پاس صلاح الدین لندن میں ٹھہرا تھا۔ ہمایوں مراد تب دبئی میں لیزنگ کمپنی کا سربراہ تھا۔ ہمایوں پاکستان آیا اور خود آکر بیان حلفی دے گیا ۔ جنرل جاوید حسن نے بھی بیان حلفی دیا کہ صلاح الدین بے قصور ہے۔ محمود ہارون کی فیملی میں سے عنبر سہگل نے بھی بیان حلفی لکھ کر دیا کہ وہ نوجوان ان کے گھر ٹھہرا تھا۔ ایک بنگلہ دیشی جج جسٹس شمیم حسنین نے بھی ٹریبیونل کو لکھ کر دیا کہ صلاح الدین اس کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتا تھا اور وہ بے قصور ہے۔ اس نے کہا کہ اسے ٹریبیونل میں پیش ہونے کی اجازت دی جائے لیکن اسے بھی اجازت نہ ملی۔ اسحاق خاکوانی نے وہ سب بیان حلفی ڈھاکہ بھیجے۔ بنگلہ دیش سے ویزے مانگے کہ وہ ڈھاکہ جا کر گواہی دینا چاہتے ہیں۔ کہا گیا کہ وہ عدالت سے سمن لائیں۔ ڈھاکہ عدالت میں درخواست کی گئی کہ سمن جاری کریں لیکن عدالت ٹالتی رہی۔ اس دوران خاکوانی نے قائداعظم کی کابینہ کے پہلے بنگالی وزیرتجارت فضل الرحمن کے بیٹے سلمان الرحمن کو ڈھونڈا جو جا کر حسینہ واجد سے ملا کہ صلاح الدین کے حق میں گواہی کے لیے پاکستانیوں کو آنے دو ۔ حسینہ واجد پہلے مان گئی‘ پھر مکر گئی۔ صلاح الدین پر کل ستائیس الزامات تھے جو اکثر اس دور کے تھے جب وہ پاکستان میں پڑھ رہا تھا۔ حکومت نے اس کے خلاف اکتالیس گواہ پیش کیے لیکن صلاح الدین کو صرف پانچ گواہ پیش کرنے کی اجازت ملی۔
اسحاق خاکوانی نے ایک اور کوشش کی۔ اسے پتہ چلا کہ جب شیخ مجیب فیصل آباد (تب لائل پور) میں گرفتار تھے تو ایک ٹریبیونل بنا تھا۔ اس تین رکنی عدالت میں بریگیڈیئر رحیم الدین (جو بعد میں جنرل بنے)، ونگ کمانڈر مسعود (بعد میں ائروائس مارشل) اور ایک لودھی صاحب تھے۔ مسعود کی بیوہ کو ڈھونڈا کہ شاید مجیب الرحمن کے بیان کی کاپی مل جائے جس میں اس نے کہا ہو کہ وہ پاکستان کو تقسیم نہیں کرنا چاہتے تھے اوراسے صلاح الدین کے دفاع کے لیے ا ستعمال میں لایا جائے۔ لودھی صاحب‘ جن کی عمر ترانوے برس ہے‘ کو ڈھونڈا کہ شاید ان کے پاس کوئی کاپی ہو ۔ جنرل رحیم الدین کے اس وقت کے پی اے کو سابق چیف سیکرٹری پرویز مسعود کی مدد سے ڈھونڈا۔ جنرل رحیم الدین کے بیٹے نے بھی کوشش کی لیکن بیان نہ ملا۔ اسحاق خاکوانی سیکرٹری کابینہ ظفر محمود سے ملے کہ شاید ان کے پاس کوئی کاپی ہو۔ جی ایچ کیو کی جیگ برانچ میں ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر وہ بیان نہ ملا۔ اس دوران پتہ چلا کہ کرنل نادر علی لاہور میں رہتے ہیں۔ ان کی بریگیڈ نے مجیب الرحمن کو گرفتار کیا تھا اور بعد میں کرنل نادر بنگلہ دیش کے حامی بن گئے تھے کہ بنگالیوں کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی۔ بنگلہ دیش میں ان کی عزت کی جاتی تھی۔ ایک بنگالی صحافی نے کرنل نادر کا پرانا انٹرویو پیش کیا جسے توڑ مروڑ کر عدالت میں پیش کیا گیا تھا ۔ اس پر کرنل نادر نے ڈھاکہ خط لکھا کہ ان کے انٹرویو کا غلط ترجمہ کیا گیا تھا۔ پھر بھی کچھ نہ ہوا اور ایک اکیلا اسحاق خاکوانی اور بھلا کیا کر سکتا تھا !
اسحاق خاکوانی کی تین برس کی کوششوں کے باوجود صلاح الدین چوہدری کو سزائے موت سنادی گئی ہے۔ پاکستان کہتا ہے کہ یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے۔ اگر ان پھانسی کی سزا پانے والوں کے خلاف الزامات پڑھ لیے جائیں تو سب کو پتہ چل جائے گاکہ یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے یا پاکستان کا معاملہ بھی ہے!
پھانسی کی سزا پانے والے بنگالی حیران ہوتے ہوں گے کہ جس پاکستان کے ساتھ وفاداری اور بنگلہ دیش کے ساتھ غداری کے الزام پر انہیں جلاّد کے حوالے کیا جا رہا ہے‘ وہاں کی حکومت‘ وزارت خارجہ کے بابو اور دیگر لوگ کہتے ہیں کہ یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے!! یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے؟؟