"RKC" (space) message & send to 7575

بلاول سے بہادری کی توقع تھی!

پاکستان میں جاری لوٹ مار دیکھ کر ایک نابینا یاد آتا ہے جو دوست کے ساتھ دعوت میں اس یقین دہانی کے ساتھ گیا کہ جب وہ کھانے کی میز پر اسے چٹکی کاٹے گا ، تو وہ کھانا شروع کرے گا ۔ نابینا نے چٹکی کی شدت سے ہی اندازہ لگانا تھا کب کھانا شروع کرنا ہے‘ کب زیادہ اور کب تیز کھانا ہے۔ میز پر بیٹھتے ہی دوست غلطی سے نابینا کو وہ چٹکی کاٹ بیٹھا جو آخر پر کاٹنی تھی‘ سو اس نے جو حشر کھانے کی میز پر کھانے کا کیا ، وہی حشر اب اس ملک کا ہورہا ہے۔ 
اسحاق ڈار فرماتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے حکومت سے پوچھے بغیر سیاستدانوں کے گوشوارے ویب سائٹ پر ڈالے ہیں۔ کمیشن کو اجازت لینی چاہیے تھی۔ کیا اسحاق ڈار اجازت دیتے کہ ان کے گوشوارے عام کیے جائیں تاکہ لوگ دیکھ سکیں کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو 44 کروڑ روپے کا قرض حسنہ دے رکھا ہے؟ چلیں اب نادرا نے وزارت داخلہ سے اجازت مانگ لی ہے کہ انہیں سرکاری بابوئوں کی غیرملکی شہریت اور جائیدادوں کا سراغ لگانے کی اجازت دی جائے، تو وہ سارا حساب کتاب اکٹھا کر سکتے ہیں۔ تو کیا چوہدری نثار اس کی اجازت دے دیں گے ؟ 
اسحاق ڈار نے مجھے بتایا کہ انہوں نے چوالیس کروڑ روپے کا قرض حسنہ اس لیے بیٹے کو دے رکھا ہے وہ جو ایک سو سے زیادہ یتیموں کی کفالت کرتے ہیں‘ وہ سلسلہ چلتا رہے۔ میں نے کہا اس ملک کے اٹھارہ کروڑ لوگ بھی آپ کی پالیسیوں اور حکمرانوں کی کرپشن کی وجہ سے یتیم ہو چکے ہیں۔ ان کے بارے سوچتے تو سب کا بھلا ہوجاتا اور آپ کو اپنے بیٹے کو چوالیس کروڑ روپے کا قرض حسنہ گوشواروں میں نہ دکھانا پڑتا ۔ جب سیاست اور وزارت کاروبار بن جائیں تو پھر یہی کچھ ہوگا ۔اپنی جیب سے یہ سب ایک ٹکا تک دینے کو تیار نہیں ہیں جب کہ اسحاق ڈار روزانہ امریکی سفیر سے جا کر ملتے ہیں کہ جناب مہربانی فرمائیں اور ڈالر دیں۔ نوازشریف فخر سے بتاتے ہیں کہ انہوںنے اوباما کو کہا تھا ہمیں امداد نہیں بلکہ تجارت چاہیے‘ جب کہ ایک ماہ کے عرصے میں اسحاق ڈار کی امریکی سفیر سے چار ملاقاتیں ہو چکی ہیں کہ ہمیں ڈالر دیں‘ ہمارا خزانہ خالی ہے۔
آپ ان سیاستدانوں کے اثاثوں کی تفصیلات پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ کیسے حکمران امیر اور ملک غریب ہوگیا ہے۔ 1971ء میں جو غیرملکی قرضہ 3.3 ارب ڈالر تھا آج 70 ارب ڈالر سے زائد ہے۔67 ارب ڈالر کا قرضہ چالیس برس میں بڑھ گیا لیکن ملک وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔ جو رونا بھٹوصاحب 1972ء میں ملک کے ٹونٹے اور لٹنے پر قومی اسمبلی میں رو رہے تھے وہ آج بھی جاری ہے۔ 
اب حکومتوں کے کچھ جھوٹ سن لیں۔ حکومت ہمیں بتانے کو تیار نہیں تھی کہ یونیورسل سپورٹ فنڈ میں سے 62 ارب روپے نکال کر کہاں لے گئی تھی۔ تقریباً سات ماہ بعد مان لیا ہے کہ وہ پیسے وزارت خزانہ کو دیے گئے تھے جو وہاں سے آئی پی پیز کو دیے گئے۔ اب وہ آئی ٹی کمپنیاں دوبارہ کیوں ٹیکس دیں گی جن سے پیسے یہ کہہ کر اکٹھے کیے گئے تھے کہ ان پیسوں سے دیہاتی علاقوں میں آئی ٹی ترقی کے لیے منصوبے بنائیں جائیں گے؟ جب حکومت خود ہی ایک کام کے لیے ٹیکس اکٹھا کرتی ہے اور اسے غیرقانونی طور پر کہیں اور خرچ کردیتی ہے، اس کے بعد کیونکر حکومت کو ٹیکس دیا جائے اور یہ بھی کس منہ سے ٹیکس اکٹھا کر سکتی ہے۔ 
دوسری طرف عیاشی کا یہ حال ہے کہ خواجہ سعد رفیق کے علاوہ بھی کوئی ریلوے کا وزیر ہے۔ مجھے پہلی بار اس کا پتہ چلا ہے اور میں اپنی جہالت پر معذرت خواہ ہوں۔ وزیرمملکت برائے ریلوے کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ بیرون ملک بارہ دن گزار کر آئے ہیں اور اب لاکھوں روپے بل بنا کر وصول فرمانے والے ہیں ۔ میں جان بوجھ کر وزیرمملکت کا نام نہیں لکھ رہا۔ اگر مجھے علم نہیں تھا تو آپ میں سے کتنوں کو علم ہوگا کہ اس ملک میں کوئی وزیرمملکت ریلوے بھی ہے۔ 
آگے سن لیں۔ فرانس اور جرمنی نے پاکستانی طالبعلموں کو 8 کروڑ روپے کے 400 سکالرشپس دیے جو قائم مقام چیئرمین ایچ ای سی امتیاز گیلانی نے اپنے صوبے کی یونیورسٹیوں میںبانٹ دیے۔ سرائیکی اور سندھی علاقوں کی یونیورسٹیوں کو ایک سکالرشپ بھی نہ ملا۔ کر لو جو کرنا ہے۔ عین اسی وقت وزیراعلیٰ پنجاب نے8 کروڑ روپے کی بلٹ پروف گاڑیاں خرید فرمائی ہیں۔ فرانس اور جرمنی والے پشیمان ہوتے ہوں گے کہ انہوں نے 8 کروڑ روپے کیوں دے دیے جبکہ ان حکمرانوں کی ترجیحات میں تعلیم یا سکالرشپس شامل ہی نہیں، انہیں تو بلٹ پروف گاڑیوں سے عشق ہے۔ 
ریڈیو پاکستان کے حوالے سے بھی سکینڈل پر سکینڈل سامنے آرہے ہیں ۔ ڈی جی ریڈیو ثمینہ پرویز حکومتی خرچے پر جاپان تشریف لے گئیں حالانکہ جانا انجینئروں کو تھا۔ جاپان نے موصوفہ کے لیے ٹکٹ دینے سے انکار کیا تو سرکاری کھاتے سے بزنس کلاس کا ٹکٹ حاصل کر لیا۔ واپسی پر جاپان کے ریڈیو کو تین ماہ سے ریڈیو پاکستان پر مفت ٹائم دیا جا رہا ہے حالانکہ اس ٹائم سے ریڈیو تین کروڑ کما سکتا تھا۔ پھر ایک کمپنی کو 25 نومبر کورجسٹرڈ کر کے 6 دسمبر کو کروڑوں روپے کی مشکوک ڈیل کر لی گئی۔ آخر پیسے جو کمانے ہیں۔ کمال ذہانت ہے۔ لاہور میں ایک فنکشن پر ایک پارٹی کو لاکھوں روپے دیے کہ انتظام کرادیں۔ ہیں نہ مزے؟ 
آگے چلیے۔ سابق وزیرمذہبی امور خورشید شاہ نے منظوری دی تھی کہ ہر سال ریڈیو پاکستان کے دو براڈ کاسٹرز کو حج کی رپورٹنگ کے لیے سعودی عرب بھیجا جائے گا۔ اس سال ڈی جی ریڈیو ثمینہ پرویز نے ریڈیو رپورٹر کو بھیجنے کی بجائے خود جانے کا فیصلہ فرما لیا تاکہ مفت میں حج کر سکیں۔ رپورٹنگ کا کیا ہے، پھر ہوجائے گی۔ 
مزید یہ کہ ڈار صاحب ایک اجلاس کی صدارت فرماتے ہیں جس میں بتایا جاتا ہے کہ پانچ نئے جہاز لیز پر لینے کے لیے تین ارب روپے چاہئیں۔ فوراً منظوری دے دی جاتی ہے۔ پھر فرمائش ہوتی ہے کہ جناب کرائے کے ان جہازوں کے لیے 3.4 ارب روپے ڈیوٹی اور ٹیکس کے لیے بھی چاہئیں اور ہماری جیبوں سے پیسے دے دیے گئے۔ ڈار صاحب اپنے بیٹے کو چوالیس کروڑ روپے قرض حسنہ دے چکے تھے وگرنہ وہ رحم دل اور سخی انسان ہیں‘ اپنی جیب سے بھی یہ سب کچھ کر دیتے۔ یوں پی آئی اے کی نج کاری والے ہماری جیبوں سے جتنا مال لوٹنا چاہتے ہیں پہلے ہی لوٹ رہے ہیں۔ 
اب ایک اور کہانی سن لیں۔ سندھ کے تھر صحرا میں دوبئی کا شہزادہ اور اس کے بھتیجے کو دس دن تک سندھ میں ان نایاب پرندوں کا شکار کرنے کی اجازت دی گئی جن کی نسل کو خطرہ درپیش ہے اور ان کے شکار پر پابندی ہے۔ موصوف کو اسلام آباد سے لے کر کراچی اور پھر اندرونِ سندھ تک سرکاری طور پر اجازت دی گئی۔ وہ اپنے ساتھ 24 عقاب اور 80 قیمتی گاڑیاں لائے تھے۔ تمام سندھی سرکاری چمچے اور بابو ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ دونوں شہزادوں نے مل کر سندھ میں عقابوں کی مدد سے ایک سو سے زیادہ نایاب پرندوں کو شکار کیا اور سرکاری چمچے ان کے ساتھ ساتھ خدمت اور حفاظت کے لیے بھاگتے پھرتے۔ شہزادے اتنے خوش ہوئے کہ جاتے وقت قیمتی 80گاڑیاںان سرکاری بابوئوں میں بانٹ گئے۔ شہزادے ان امیر خدمت گاروں کو ٹپ دینا بھی نہیں بھولے اور کیش کی صورت بھی اچھا خاصا مال پانی دے گئے۔ 
کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس قوم میںکچھ عزتِ نفس باقی بچ گئی ہے؟ جب حکمرانوں سے لے کر ملازمین تک نایاب پرندوں کو دوبئی کے شہزادوں کے ہاتھوں غیرقانونی طور پر تلف کرارہے ہوں اور اپنا اپنا انعام پا رہے ہوں، تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے؟ اس پر میرے سندھی دانشور، میڈیا اور قوم پرست دوستوں کی طرف سے بھی مکمل خاموشی ہے۔
ہمارے دوست فواد چوہدری کے نئے ہیرو اور لیڈر بلاول بھٹو کا ٹویٹر اکائونٹ بھی کافی سمجھدار ہے اور سندھ کے نایاب پرندوں کی بڑے پیمانے پر تباہی پر چُپ ہے کیونکہ بلاول اور ان کا پورا خاندان دوبئی میں رہتا ہے۔ بلاول بھٹو سے توقع تھی کہ خود کو بہادر اور جرأت مند ثابت کرتے اور دبئی کے دو شہزادوں کی طرف سے نایاب پرندوں کے شکار اور ان کی خدمت پر مامور سندھی سرکاری افسروں میں بانٹی گئی 80 قیمتی گاڑیوں کے بارے ٹویٹ کرتے اور بتاتے کہ جہاں پاکستانی حکمرانوں اور بیوروکریسی کے لیے وطن عزیز ایک چراگاہ ہے، وہیں بیرونی حکمرانوں کے لیے بھی یہ ایک شکارگاہ بن گیا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں