یہ ملک کن لوگوں کے ہاتھ لگ گیا ہے!
پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے سے قبل پاکستان سٹیل ملز چوبیس ارب روپے کے منافع میں چل رہی تھی۔ اب 100 ارب سے زائد کا خسارا ہوچکا ہے۔ زرداری صاحب کے دوستوں نے کھل کر کارپوریشن اور بنک لوٹے۔ پی آئی اے دو سو ارب روپے کے قریب خسارے میں جارہی ہے لیکن پھر بھی زرداری صاحب کے ایک دوست کو دبئی میں پچاس ہزار ڈالر ماہانہ تنخواہ ملتی رہی۔ اتنی بھرتیاں کی گئیں کہ بالآخر ایئرلائن ہی ڈوب گئی۔ سیاستدان جب خود ایئرلائن کا کاروبار کریں گے تو پھر سرکاری ایئرلائن کا ڈوب جانا ہی فائدہ مند لگتا ہے۔
اکتیس اداروں کی فہرست تیار ہوگئی ہے جنہیں بیچنا ہے جن سے شاید بڑی مشکل سے ایک سو ارب روپے اکٹھے ہوں گے اور ساتھ ہی 25 ارب روپے سے لیپ ٹاپ خریدنے کا منصوبہ بن گیا ہے۔ پہلے دو ارب روپے کا منصوبہ تھاجسے پچیس ارب کا کر دیا گیا ہے۔ سیکرٹری خزانہ وقار مسعود نے نواز شریف سے وعدہ کیا ہے کہ وہ جب بھی کہیں گے انہیں 25 ارب روپے تلاش کر کے دے دیں گے۔
کابینہ کے ایک اجلاس میں وقار مسعود کی ریلوے کے وزیر حاجی غلام احمد بلور سے لڑائی ہوگئی کہ وہ ریلوے کی حالت درست کرنے کے لیے دس ارب روپے مانگ بیٹھے تھے۔ یہ اور کہانی ہے کہ حاجی بلور کے پاس کوئی پلان نہیں تھا اور وہ بھی بھاگتے چور کی لنگوٹی لوٹنے میں ہی دلچسپی رکھتے تھے؛ تاہم وقار مسعود نے کابینہ میں کہا تھا کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں ۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کابینہ میں کہا تھا کہ انہیں سمجھ نہیں آتی کہ وقار مسعود پیپلز پارٹی کی حکومت کے سیکرٹری خزانہ ہیں یا جنرل مشرف کے، کیونکہ ہر بات پر کہتے ہیں کہ خزانہ خالی ہے؛ تاہم وقار مسعود سمجھدار افسر ہیں۔ انہیں پتہ تھا پیپلز پارٹی کے لیڈر چھوٹے موٹے ڈاکے مارتے ہیں اور انہیں ہزار‘ پانچ سو دے کر خوش کیا جا سکتا ہے لیکن نواز لیگ کے
اسحاق ڈار سب سمجھتے ہیں اور منی لانڈرنگ میں اپنے لیڈر کے خلاف نیب کو بیان بھی ریکارڈ کرا چکے ہیں لہٰذا ان سے ہاتھ کرنا آسان نہیں ہوگا ۔ نوکری کرنی ہے تو پھر سب کچھ کرنا پڑے گا۔ یہ انہی کا قیمتی مشورہ تھا کہ یونیورسل سپورٹ فنڈ سے دیہی علاقوں میں آئی ٹی کی ترقی کے لیے ٹیکسوں سے جمع کیے گئے 62 ارب روپے لے کر مرکزی اکائونٹ میں ڈال کر وہاں سے نکال لیے جائیں۔ او جی ڈی سی پر ڈاکہ مارا گیا کہ وہ دو سو ارب روپے کا انتظام کرے اور بینک سے لے یا خود دے۔ اب نواز شریف نے حکم دیا تو وقار مسعود نے چُوں تک نہیں کی۔ وزیر خزانہ روزانہ امریکی سفیر کے در پر دستک دیتے ہیں کہ اللہ بھلا کرے کچھ تو دیں ۔ نوٹ کم پڑنے لگے تو وہ دور کی کوڑی لائے اور 280 ارب کے نئے نوٹ چھاپ لیے۔ ان میں سے 100 ارب روپے کی قرضہ سکیم شروع کی گئی اور اب25 ارب سے نئے لیپ ٹاپ خریدیں گے۔ اگر نوٹ کم پڑ گئے تو پرنٹنگ کارپوریشن کو کہہ کر مزید نئے نوٹ چھپوا لیں گے۔ بس وقار مسعود کی نوکری محفوظ ہو تو پھر وہ سب کچھ کریں گے۔
وزارت خزانہ جب اربوں روپے اس طرح اندھا دھند خرچ کرتی ہے تو پھر یہ کیوں نہیں بتاتی کہ ہمارے بیلنس آف ٹریڈ کا گیپ 2 ارب ڈالرز تک پہنچ گیا ہے۔ پاکستان ہر سال دو ارب ڈالر کہاں سے لائے؟ اب جو ملک ہر سال 24 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کر کے کماتا ہو اور اسی سال 44 ارب ڈالرز کی امپورٹ کر لیتا ہوِ وہ ملک کیسے اور کتنی دیر تک چلے گا؟ وزارت خزانہ سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ دو ارب ڈالر کا سالانہ تجارتی گیپ کیسے پورے کریں گی تو جواب ملتا ہے جناب فکر نہ کریں ۔ پی ٹی سی ایل کی نج کاری کے بقایاجات 800 ملین ڈالرز ملنے ہیں، تھری جی لائسنس کی نیلامی سے ایک سو ارب روپے مل جائیں گے۔ عالمی بینک نے قرضے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کون تھری جی کا لائسنس خریدنے آئے گا جہاں یوٹیوب بند ہے۔ دنیا تو کب کی جی فور تک پہنچ گئی ہے۔ ویسے بھی یہ آٹھ سو ملین ڈالر اتصالات نے کئی برسوں سے ادا نہیں کیے کہ کر لو جو کرنا ہے۔
ہر سال قرضہ لے کر تجارتی خسارا پورا کیا جارہا ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں اسحاق ڈار اس سال دو ارب ڈالر کا گیپ پورا کر لیں گے چاہے قومی اثاثے بیچیں، بیرونی قرضے لیں، اتصالات سے آٹھ سو ملین بقایا لے آئیں یا پھر تھری جی لائسنس سے ایک سو ارب روپے اکٹھا کریں۔ اگلے سال کیا کریں گے جب ان تینوں میں سے کوئی ذریعہ نہیں ہوگا جب کہ تجارت کا گیپ تو بڑھ رہا ہے‘ کم نہیں ہورہا؟ اس طرح تو کوئی کریانے کی دکان نہیں چلاتا جیسے یہ ملک چلارہے ہیں۔
جن لوگوں سے ٹیکس لینا چاہیے ان امیر سیاستدانوں کا دفاع کرتے ہوئے ڈار صاحب فرماتے ہیں وہ سب ٹیکس دیتے ہیں۔ جی بالکل دیتے ہیں‘ پر کتنا دیتے ہیں؟ ہر ایم این اے اور سینیٹر کو ستر سے اسی ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے اور آٹھ سے دس ہزار روپے فی ماہ ٹیکس کٹ جاتا ہے۔ وہ حکومت پہلے سے کاٹ لیتی ہے وگرنہ یہ بتائیں اس کے علاوہ اپنی آمدنی پر انہوں نے کیا ٹیکس دیا ہے؟ ان کے گوشوارے پڑھ کر دیکھیں ۔ گاڑیاں، رہن سہن، عیاشیاں اور ٹیکس دیکھیں ۔ جب ملک کا وزیرخزانہ خود بیٹے کے نام پر 44 کروڑ روپے کا قرضہ حسنہ گوشواروں میں دکھائے گا تو پھر کون اس ملک میں ٹیکس دے گا اور دے تو اس لیے دے کہ پنجاب میں حکمران اپنے خاندان کے لیے 8 کروڑ روپے کی بلٹ پروف گاڑیاں خرید لیں ؟
اب ایک اور کہانی سن لیں ۔ ہمارے دوست احسن اقبال آج کل وژن 2025ء تیار کر رہے ہیں۔ دن رات دکان کھول کر تیاری ہورہی ہے۔ سب محکموں کو لکھ دیا گیا ہے سب کام چھوڑ کر وژن تیار کریں ۔ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ پلاننگ ڈویژن میں پلاننگ کمیشن ممبران کی منظور شدہ تعداد9 ہے اور صرف ایک ممبر پنجاب سے کام کر رہا ہے۔ باقی 8 ممبران کا تقرر نہیں ہوسکا ۔ سندھ ، بلوچستان، خیبر پختون خوا، فاٹا، گلگت بلتستان اور کشمیر سے کوئی ممبر نہیں ہے۔ ہم سرائیکیوں پر تو وفاقی نوکریوں کے دروازے تقریباً بند ہیں لہٰذا ہم تو بات ہی نہیں کر سکتے۔
جس پلاننگ ڈویژن میں نو کی بجائے ایک ممبر کام کر رہا ہو‘ کیا اسے زیب دیتا ہے کہ وہ وژن2025ء کی بات کرے؟ کیا پنجاب ہی پورا پاکستان ہے اور اس کا وژن ہی پورے ملک کا وژن ہے؟ جو کمیشن اپنے ممبران پورے نہیں کر سکتا وہ کیسے ملک کو منصوبہ بندی کر کے دے سکتا ہے؟ لگتا ہے پورے ملک میں ذہین ترین لوگ ہمارے پنجاب میں ہی رہتے ہیں۔ پلاننگ ڈویژن کی کل منظور اسامیوں کی تعداد 910 ہے اور صرف 735 کام کر رہے ہیں۔ دو سو کے قریب اسامیاں خالی ہیں۔ پلاننگ کا کمال دیکھیں۔ 735 میں سے بھی پنجاب سے افسران اور ملازمین کی تعداد 443 ہے۔ سندھ 86،خیبر پختون خوا 125، بلوچستان 20 ، کشمیر 37 اور فاٹا 22 ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں بلوچستان کے ملازمین سے زیادہ تعداد کشمیر اور فاٹا کی ہے۔ بلوچستان کے ان بیس میں سے اکثر نائب قاصد، سٹینو، پی ایس اور سیکشن افسر ہیں۔
چیئرمین پلاننگ ڈویژن کا تعلق پنجاب سے ہے، سیکرٹری، وائس چانسلر PIDE اور دیگر اہم عہدوں پر مامور افسران‘ سب پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں تو کیا پوچھنے کی اجازت ہے کہ یہ 2025ء وژن پاکستان کے لیے تیار ہورہا ہے یا پھر پنجاب کے لیے؛ احسن اقبال کو بہت جلدی ہے کہ یہ وژن تیار ہو اور ان کے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہے کہ بلوچستان، سندھ اور دیگر علاقوں سے ممبران پلاننگ کمشن کی تقرری کر سکیں تاکہ وہ بتائیں کہ ان کے صوبے کی کیا ضرورت ہے؟
جس ملک کا پلاننگ ڈویژن نو کی بجائے ایک ممبر پر چل رہا ہو، بلوچستان جیسے امیرترین صوبے کے صرف بیس لوگ اور وہ بھی نچلے لیول پر پلاننگ ڈویژن میں کام کر رہے ہوں، دو ارب ڈالر سے زائد سالانہ تجارت کا گیپ ہو، سالانہ 24 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ اور 44 ارب ڈالرز کی امپورٹ ہو، 280 ارب روپے کے نئے نوٹ چارماہ میں چھپ چکے ہوں، آٹھ کروڑ روپے کی بلٹ پروف گاڑیاں بیوی بچوں کے لیے خریدی جارہی ہوں، خزانہ خالی ہو پھر بھی 25ارب روپے کے لیپ ٹاپ خریدے جارہے ہوں، آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر آئی ایم ایف کی قسطیں ادا ہورہی ہوں، امریکی سفیر سے ایک ماہ میں چار ملاقاتیں ہو چکی ہوں کہ مائی باپ ڈالرز دو ، اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں صرف آٹھ لاکھ ٹیکس دیتے ہوں ، اکتیس سرکاری اداروں کو اپنے دوستوں کو بیچ کر لاکھوں لوگوں کو بیروزگار کرنے کا منصوبہ بن چکا ہو، اس ملک کے وژن کے کیا کہنے اور وہ بھی 2025ء تک کے!!
احسن اقبال صاحب! پہلے اپنے پلاننگ ڈویژن کو وژن دے دیں، اپنے گھر کے بندے پورے کر لیں، یہ ملک کہیں نہیںجارہا ، اسے بعد میں دیکھ لیجیے گا۔ حیران ہوں‘ گنجی نہائے گی کیا‘ نچوڑے گی کیا؟!