کراچی میں ایکسپریس گروپ کے تین ورکرز کے مارے جانے پر میڈیا کے دوستوں کو روتے دیکھ کر خیال آیا کہ اب رونے کا کیا فائدہ۔ قدرت اپنے اصولوں سے ہماری خاطر کیوں انحراف کرے گی۔ جو بویا جائے گا، وہی کاٹنا پڑے گا ۔
جو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ہمارے میڈیا نے بویا تھا‘ وہ پودا آج جوان ہو چکا۔ ہم لٹریچر پڑھنے سے نفرت کرتے ہیں وگرنہ ہمیں پتہ ہوتا کہ یورپ میں دو سو برس قبل ایک خوبصورت ناول لکھا گیا تھا جس کی تھیم یہی تھی کہ جو گڑھاآپ دوسروں کے لیے کھودتے ہیں‘ سب سے پہلے آپ ہی اس کا شکار ہوتے ہیں۔ اس ناول کا نام Frankenstein تھا‘ جسے ایک انگریز لڑکی Mary Shelley نے اٹھارہ برس کی عمر میں لکھنا شروع کیا اور دو سال کے اندر مکمل کر لیا۔
جو بات اٹھارہ برس کی لڑکی کو دو سوسال پہلے سمجھ آگئی تھی وہ ہمیں آج تک نہیں آئی۔
اگر کبھی اس ملک کے میڈیا کی تاریخ لکھی جائے گی تو ثابت ہوگا کہ ہم دہشت گردی کے جس مقام پر پہنچ چکے ہیں‘ اس میں میڈیا نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
جب کابل میں طالبان نجیب کو پھانسی دے رہے تھے تو میڈیا شادیانے بجا رہا تھا۔ جب افغان بچیوں اور عورتوں پر کوڑے برسائے جارہے تھے‘ ہمارا میڈیا تالیاں پیٹ رہا تھا۔ جب افغانستان اور کشمیر میں گلے کاٹنے کا رواج شروع ہوا تو بھی ہم نے نعرے مارے۔
جنرل ضیاء کے دور میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مخصوص جہادی ذہن رکھنے والے لوگوں کو اخبارات میں بھرتی کرایا گیا ۔ ملک بھر کی یونیورسٹیوں کو بھی اسی جہادی ذہنیت کے حوالے کر دیا گیا جنہوں نے مسلمانوں کو مزید اچھا مسلمان بنانے کا ٹھیکہ لیا ‘ یہاں تک کہ استادوں پر تشدد بھی ہونے لگا۔
ایک تیسری قسم فوج میں بھی جنرل ضیاء نے پروموٹ کرنی شروع کی اور ساتھ میں اقتدار کے بھوکے سیاستدانوں نے مجلس شوریٰ بنالی ۔ یوں ان چاروں طبقات نے مل کر ملک کو اس مقام پر لاکھڑا کیا کہ آج ہم طالبان کے پائوں میں پڑے ہیں۔
ایک طرف ہمیں بتایا جارہا تھا افغانیوںکوکوئی فتح نہیں کرسکا اور دوسری طرف ہم خود افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنا چکے تھے۔ ہم نے نہ صرف اپنی سرحدیں کھو ل دیں بلکہ انہیں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تک بنا کر دئیے اور اپنے ملک میں افغانیوں کوکھلے عام جائیدادیں خریدنے کی سہولت بھی فراہم کر دی۔ آج حالت یہ ہوچکی کہ پورا پاکستان افغان جنگ کی وجہ سے ہائی جیک ہوچکا ہے۔ گیارہ ستمبر کے حملے کر کے امریکہ کو بھی اس خطے میں لایا گیا تا کہ ہماری تباہی میں کوئی کسر رہ گئی ہے تو پوری ہو جائے۔
صرف دودن پہلے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے راولپنڈی میں گھر سے کچھ فاصلے پر دو افغانی گروپس میں فائرنگ کے بعد پانچ افغانی مارے گئے ۔ مجھے وہاں کے ایک پولیس افسر نے بتایا تھا کہ شہر میں پانچ بڑی آبادیاں افغانیوں کی ہیں جہاں پولیس داخل نہیں ہوسکتی ۔ اب بارہ کہو کا علاقہ افغانیوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ کوئٹہ میں پنجابی اور سرائیکیوں کو مار کر بھگانے کے بعد ان کی جائیدادیں افغانیوں نے خرید لی ہیں۔ اسلام آباد میں پوری ایک بستی افغانیوں کی ہے جسے خالی کرانے کے لیے سابق وزیرداخلہ نے اپنے دفتر میں ایک درجن سے زائد میٹنگز کیں اور ہر مرتبہ پیچھے ہٹ گئے۔ چوہدری نثار علی خاں نے جوشِ خطابت میں اعلانات کیے لیکن کسی نے سمجھایا تو وہ بھی سمجھ گئے۔ بارہ کہو، گولڑہ موڑ اور راولپنڈی اب پوری طرح افغانیوں کے نرغے میں آچکے ہیں۔ وہ جب چاہیں تگنی کا ناچ نچا سکتے ہیں۔ اب جو پانچ افغانی جن میں دو بھائی بھی شامل تھے‘ راولپنڈی میں مارے گئے ہیں وہ اپنے دشمن افغانیوں سے بدلہ لیں گے اور کچھ اور مارے جائیں گے۔ وزارت داخلہ اور پولیس یقینا نیوٹرل رہے گی کہ افغانی جانیں اور ان کا کام ، ہمیں ان کے جھگڑے میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر ایسی سمجھداری ہماری ماضی کی فوجی قیادت، میڈیا ، دانشور اور مولانا کرتے تو آج شاید ہم تباہ نہ ہورہے ہوتے۔
پشاور میں تبلیغی جماعت کی مسجد کو بموں سے اڑایا گیا تو ایک باریش نوجوان کی چیخیں سن کر دل دہل گیا۔ دل بھی درد سے بھر گیا ۔ آنسوئوں کے درمیان وہ چیخیں مار کر کہہ رہا تھا کہ اللہ کے گھر پر حملہ کیوں کیا گیا؟
کوئی لاکھ کہتا رہے ہم تشدد پسند نہیں لیکن اب سب کچھ گڈ مڈ ہو گیا ہے۔
کیا اللہ کے گھر پر حملہ پہلی دفعہ کیا گیا تھا ؟ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس وقت کسی حملے کو حملہ نہیں سمجھتے، جب تک ہم خود اس کا شکار نہیں ہوتے۔
میرا خیال ہے میڈیا اب وہی کرے جو اسے طالبان کہتے ہیں۔ اپنے غریب مزدور مروانے کی بجائے ان کا موقف اچھی طرح عوام تک پہنچائے کیونکہ عوام کی اچھی خاصی تعداد ان کے خیالات اور فلاسفی سے اتفاق کرتی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف تو خود فرما چکے ہیں کہ ان کی اور طالبان کی فارن پالیسی ایک ہے۔ اگر میڈیا کو یاد ہو تو 2004ء میں ایک نوٹیفیکیشن کے تحت تمام تنظیموں کو کالعدم قرار دے کر یہ کہا گیا تھا کہ ان کے نام اور ان کی پریس ریلیز نہیں چھپیں گی تو کتنے اخباری اداروں نے اس حکم کی پابندی کی تھی؟ کیا آج بھی یہ سب کچھ نہیں چلتا؟ جب ریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ میڈیا خود بھی طالبان کا حامی رہا ہے تو یقینا طالبان کا بھی گلہ بنتا ہے کہ ان کی بات پوری طرح کیوں آگے نہیں پہنچائی جاتی۔ سیاستدانوں نے بھی اب طالبان سے بچنے کے لیے وہی کہنا شروع کر دیا ہے جو وہ چاہتے ہیں۔ جب ریاست خود طالبان سے بھیک مانگنے جائے گی تو وہ کیسے امیدرکھے کہ اس کا سپاہی اس کے لیے جان لڑائے گا ۔
ایک ڈی ایم جی افسر نے مجھے بتایا تھا کہ جب وہ بہاولپور میں اے سی تھے تو انہیں ایک سیکریٹ ایجنسی سے احکامات ملتے تھے کہ علاقے کے فلاں فلاں مولانا کو نہ صرف عزت واحترام دینا ہے بلکہ جو کہے وہ کرنا بھی ہے۔ اس کا فائدہ انہیں یہ ہوا کہ وہ مسجد سے نکل کر سرکاری دفتروں تک پہنچے، دفتروں سے ٹی وی چینلز کے اسٹوڈیوز اور وہاں سے اقتدار تک پہنچے۔ آج ان ''علماء‘‘ کے بغیر کوئی ٹی وی پروگرام نہیں ہو سکتا۔ واقعہ کوئی بھی ہو، ٹی وی چینل سے پہلا فون کسی مولانا کو ہی کیا جاتا ہے۔
یہ کام باقاعدہ طریقے سے کیا گیا اور کرنے والے ہمارے اپنے تھے جن کے ہاتھوں میں ہمارے ہی ٹیکسوں سے اکٹھی کی گئی دولت تھی۔ انہوں نے ہی معاشرے میں متوازی فورس پیدا کی جس کو مذہب کا نعرہ دے کر سب کو یرغمال بنا لیا گیا۔ آخر پر جنہوںنے ان سب عناصر کو طاقت اور معاشرے میں مقام بخشا تھا، انہوں نے ان کے پنڈی جی ایچ کیو پر قبضہ کر لیا۔ انہی اداروں کے دفاتر بموں سے اڑائے گئے، درجنوں افسران اور ملازمین مارے گئے، فوجیوں کے گلے کاٹے گئے۔ ان لوگوں نے پھر بھی اپنا کام جاری رکھا۔ ان کے خیال میں پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور یہاں اسلام کے نام پر سب قتل و غارت جائز تھی۔ جس غیرملکی جنگجو کا جی چاہے وہ ہمارے گھر رہے اور یہاں سے دنیا بھر کے مقامات پر حملوں کی منصوبہ بندی کرے اور اگر نیٹو کے باون ممالک ان کے تعاقب میں آئیں گے تو ہم پوری قوم کو دائو پر لگا کر ان کی خاطر نیٹو ممالک سے بھی لڑیں گے۔
ہم آج بھی تلوار پکڑ کر لڑنا چاہتے ہیں ۔ ہمیں علم نہیں دنیا کتنی بدل گئی ہے۔ امریکی صدر اوبامہ نے جمعہ کے روز اپنے جاسوسی نظام میں چند اصلاحات کی تفصیل بتاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ دنیا بھر میں ان کی ایجنسیاں پانچ ارب موبائل فونز تک رسائی رکھتی ہیں ۔ انٹرنیٹ پر ہونے والی ہر حرکت کا انہیں علم ہے۔ واقعتاً اگر چڑیا بھی پر مارتی ہے تو بھی انہیں علم ہوتا ہے۔ وہ پاکستان سے ایک سال میں 13 ارب اطلاعات فون اور نیٹ کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔
ہم طعنے دیتے ہیں کہ پھر 9ستمبر کے حملے کیسے ہوگئے۔ ایک دفعہ ہوئے لیکن امریکی ایجنسیوں نے دوسری دفعہ نو گیارہ نہیں ہونے دیا‘ جبکہ ہمارا نو گیارہ ہر روز ہوتا ہے۔
اب ان حالات میں ہندوستان کے بادشاہ بلبن کو کہاں سے لائیں جس نے دنیا کو برباد کرنے والے وحشی تاتاریوں کو شکست دینے کے لیے ملتان صوبے کا گورنر کسی اور کو نہیں بلکہ اپنے بیٹے شہزادہ محمد کو بنا کر بھیجا تھا ۔ وہ تاتاری جنہوں نے کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کیے تھے‘ وہ ملتانی اور پختونوں پر مشتمل فوج کی مدد سے محمد کے ہاتھوں شکست کھا گئے تھے۔
بلبن نے بیٹا قربان کرکے ہندوستان کو وحشیوں کے ہاتھوں بچا لیا تھا ۔ اب پاکستانی حکمران کیسے طالبان سے لڑسکیں گے جن کے بچوں نے دودھ‘ دہی اور انڈوں کی دکانیں کھول رکھی ہوں! ملتان کے گورنر محمد پر عظیم شاعر خسرو نے روتے روتے گیت لکھے۔
وہ شہزادہ محمد جسے آج بھی سرائیکی فوک کہانیوں اور چاندنی راتوں میں صحرا کی تیز سرد ہوا میں راستہ بھٹکے، تھکے ہارے مسافر کے گنگنائے گئے گیتوں یا کسی گرم دوپہر دریائے سندھ کے مہربان پانیوں کے طویل کناروں سے دکھ بھرے سروں میں یاد کیا جاتا ہے اور جسے رنجیت سنگھ کی فوج کے ہاتھوں اپنے سات نوجوان بیٹوں کے سر کٹوا کر اپنی دھرتی ماں کا دفاع کرنے والے نواب مظفر شہید کے بعد، سب سے بڑا ہیرو سمجھا جاتا ہے !
اپنے حکمرانوں کو دیکھ کر اب ہم روئیں ناں تو کیا کریں ۔ اب بلبن اور نواب مظفر شہید جیسے باپ اور ان کے بچوں جیسے بیٹے کہاں سے لائیں!!
ہم کیوں ایک بچے کی طرح کھیلنے کو چاند مانگتے ہیں!