ہو سکتاہے نیب اسلام آباد کے ترجمان رمضان ساجد یہ بات بہت جلد بھول جائیں کہ منگل کی رات ان کے گھر تین ڈاکوئوں نے انہیں‘بیوی بچوں اور بھابی کے سامنے باندھ کر دو گھنٹے تک چائے پی، لوٹ مار کی، گھر کے ایک ایک کونے کی تلاشی لی اور پھر زیورات اکٹھے کر کے چلتے بنے۔ لیکن وہ شاید یہ بات نہیں بھول سکیں گے کہ ان کی چھوٹی بچی کی گولک جس میں وہ روزانہ پیسے ڈالتی تھی، چور وہ بھی توڑ کر اس میں سے کچھ روپے نکال کر لے گئے۔بچی کو معلوم ہی نہیں کہ اس کی گولک کس نے اور کیوں توڑی اور اس میں سے پیسے کہاں گئے۔ رمضان ساجد کو اپنا گھر لٹنے سے زیادہ دکھ اپنی بیٹی کی چھوٹی سی گولک کے لٹنے کا ہے۔
رمضان ساجد کا ابھی کچھ ماہ پہلے بیٹا پیدا ہوا‘ لہٰذا جو بھی مبارک دینے گیا اس نے بیٹے کے ساتھ ساتھ اس کی چھوٹی بیٹی کو بھی روایت کے مطابق پیسے دیے۔ اس بچی نے وہ پیسے اس گولک میں ڈال دیے۔ جب ڈاکو باقی گھر کو لوٹ چکے تو کسی کی نظر اس گولک پر پڑی۔ اس نے اٹھائی اور فرش پر دے ماری ۔ گولک کے ساتھ رمضان ساجد کا دل اور بیٹی کے ارمان بھی ٹوٹ گئے۔اپنی بیٹی کے چہرے پر دکھ دیکھ کر اس کے آنسو بے قابو ہو گئے۔ رمضان ساجد کو احساس ہوا کہ اصل ڈاکہ تو اب پڑا تھا ۔ وہ ساری رات اس ڈاکے کے تاثرات سے لڑنے کی کوشش کرتا رہا ۔ اپنی بیوی اور بھابی کے سامنے ایک مرد کی طرح ڈٹا رہا لیکن بیٹی کو ٹوٹی ہوئی گولک کی کرچیاں سنبھالتے دیکھ کر اس سے مزید اداکاری نہ ہوسکی ۔ ہوسکتا ہے کہ رمضان ساجد جیسی واردات ہر گھر میں ہوتی ہو۔ لاہور میں سٹریٹ کرائم بڑھ چکا ہے لیکن کون پروا کرتا ہے۔ اب کراچی کے بعد اسلام آباد جرائم کا گھر بن گیا ہے۔
2004ء میں منصوبہ بنا تھا کہ اسلام آباد میں سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جائیں۔ بجٹ بنا‘ لیکن فیصلہ یہ ہوا کہ جرائم تو ہوتے رہتے ہیں‘ کیوں نہ جنرل پرویز مشرف‘شوکت عزیز اور ان کے وزراء کے لیے چار ارب روپے کی نئی بلٹ پروف گاڑیاں خرید لی جائیں۔ پولیس کے افسران بھی زیادہ خوش نہیں تھے کیونکہ اسلام آباد میں جو جرائم ہوتے ہیں اس میں پولیس کا باقاعدہ حصہ ہوتا ہے۔ بلیو ایریا سے روزانہ گاڑیاں چوری ہوتی ہیں ۔ تین چار کیمرے لگانے سے پتہ چل سکتا تھا کہ کون چوری کر رہا ہے اور کہاںلے جارہا ہے۔ اب پولیس کار مالکان اور چوروں کے درمیان ڈیل کراتی ہے۔ یہی وجہ ہے دس برس ہوگئے ہیں لیکن پولیس نے وہ کیمرے نہیں لگنے دئیے اور نہ ہی وزرات داخلہ نے‘ کیونکہ کرپشن اور جرائم سب کو سوٹ کرتے ہیں ۔
ہمارے دوست کالم نگار سلیم صافی کے گھر ڈاکو رات کو تالے توڑ کر ان کی گاڑی لے اڑے اور وہ گھر میں سوئے ہوئے تھے۔ وہاں ایک پولیس افسر سے ملاقات ہوئی تووہ بتانے لگے کہ پچھلے اور موجودہ وزیرداخلہ میں بڑا فرق ہے۔ پہلے آپ ایک ریڑھی کو بھی چھیڑتے تھے تو فوراً فون آجاتا تھا لیکن اب کی دفعہ پولیس آزاد ہے اور کوئی دبائو کا فون نہیں آتا ۔
سب کہتے ہیں کہ اسلام آباد پولیس کے سربراہ سکندر حیات شریف اور ایماندار انسان ہیں۔ مجھے بتائیں رمضان ساجد کی بیٹی کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ان کی پولیس کا سربراہ شریف ہے یا ایماندار؟ مجھے ایمانداروں سے ایک ہی گلہ رہا ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے رومانس میں گرفتار رہتے ہیں۔ اگر پولیس کے سربراہ آٹھ ماہ گزرنے کے بعد بھی شہر میں سکون نہیں دے سکے تو پھر ایسی ایمانداری کس کام کی؟اچھا افسر وہ ہوتا ہے جو ایماندار بھی ہو اور اپنا کام بھی ڈٹ کر ے۔
سکندر حیات کے قریبی فرماتے ہیں کہ وہ کیا کریں کیونکہ ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان لاہور سے ایک بہت بڑے آدمی کی سفارش پر تعینات کئے گئے ہیں اور وہ سکندر حیات کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ دونوں میں بول چال تک نہیں ہے۔ ڈاکٹر رضوان کے محافظوں کی تعداد‘ وزیراعظم کے محافظوں سے بھی زیادہ ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ کے پاس دو گن مین ہیں تو ڈاکٹر رضوان کے پاس درجن سے بھی زیادہ۔ گھر پر پولیس ملازمین علیحدہ ہیں۔ چوہدری نثار علی خاں نے مجھ سمیت چند صحافیوں کو پنجاب ہائوس میں بتایا تھا کہ انہوں نے تمام سیاستدانوں اور بڑے لوگوں سے سکیورٹی واپس لے لی ہے تو پھر ڈاکٹر رضوان کو اتنی سکیورٹی کیوں دی جا رہی ہے؟
اسلام آباد میں یہ دو بڑی وارداتیں اس رات ہوئیں جس روز چوہدری نثار علی خاں نے چھ ماہ کی محنت کے بعد سکیورٹی پالیسی کابینہ کے سامنے پیش کی۔ یہ دونوں گھر وزیراعظم ہائوس اور وزیرداخلہ کے دفاتر سے پانچ سے دس منٹ کے فاصلے پر واقع ہیں‘ جہاں ڈاکوئوں نے بیٹھ کر لوٹ مار کی۔ جوسکیورٹی پالیسی بنائی گئی ہے وہ انگلش میڈیم کے کسی بچے کو بھی دے دی جاتی تو وہ بھی گوگل سے ریسرچ کر کے بہتر بنا دیتا۔ 88 صفحات پر مشتمل یہ پالیسی پڑھ کر ہنسی آتی ہے کہ کیا مذاق کیا جارہا ہے۔ اس حکمت عملی سے طالبان چھوڑیں آپ اسلام آباد میں معمولی چور ڈاکو تک نہیں پکڑ سکتے۔ اندازہ کریں کہ ایک پالیسی کے لیے 28 ارب روپے مانگے گئے ہیں۔
خود وزیرداخلہ نے ہم صحافیوں کو بتایا کہ وہ کیا کریں اور کدھر جائیں کہ ان سے پہلے وزیرداخلہ رحمن ملک کے دور میں ایک چینی کمپنی سے 12ارب روپے کا سٹی پراجیکٹ کا منصوبہ طے کیا گیا ۔ چینی بینک سے بارہ ارب روپے کا قرضہ لیا گیا ۔ اس قرضہ سے 69 ملین ڈالرز اس چینی کمپنی کو ایڈوانس ادا کر دیے گئے۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ چینی کمپنی 69 ملین ڈالرز لے گئی جب کہ پاکستان چینی بینک کو120 ملین ڈالرز کا قرضہ اور اس پر سود بھی ادا کر رہا ہے۔
چوہدری نثار نے تو نہیں بتایا لیکن پورا قرضہ استعمال نہ کرنے پر یقینا جرمانہ بھی ادا ہورہا ہو گاجیسے حاجی غلام احمد بلور کے دور کے ایک سکینڈل کی وجہ سے پاکستان ریلوے‘ چینی بینک کو پورا قرضہ استعمال نہ کرنے کی وجہ سے ہر ماہ قرضہ اور سود کے علاوہ 1400 ڈالرز کا جرمانہ بھی ادا کرتی رہی ہے۔ کر لو جو کرنا ہے۔ اگر انہیں ہاتھ لگایا تو صوبائی خودمختاری خطرے میں پڑجائے گی اور اسے بھی سازش سمجھا جائے گا۔
بندہ کہاں سر پھوڑے۔ کس دروازے پر ٹکریں مارے کہ اس چینی کمپنی نے صرف چار سکینرز پاکستان بھیجے اور وہ بھی ناکارہ۔ وہ سکینر گولہ بارود کی بجائے امپورٹ ایکسپورٹ سامان کی چیکنگ میں کام آتا ہے۔ سات ارب ادائیگی کے بعد صرف چار سکینرز ملے۔ یوں ایک سکینر پاکستان کو تقریباً ڈیڑھ ارب روپے کا پڑا اور وہ بھی ناکارہ۔ اب کون چوہدری نثار سے پوچھے کہ طارق ملک کے پاسپورٹ میں تو غلطی نکلنے پر فوراً ایف آئی اے نے انہیں بلا لیا تھا۔ وہی ایف آئی اے اب رحمن ملک سے کیوں ڈرتی ہے؟ جیسا سوال نامہ طارق ملک کے حوالے کیا گیا ایسا ہی رحمن ملک کو بھی بھجوا دیں کہ جناب پاکستان کوسکینر ڈیڑھ ارب روپے کا کیسے پڑا ؟
چوہدری نثار نے انکشاف کیا کہ نیب‘ رحمن ملک دور کے اس سکینڈل کو دیکھ رہا ہے۔ اگر نیب دیکھ رہا ہے تو پھر دیکھتا ہی رہے گا کیونکہ قمرالزماں چوہدری خود سیکرٹری داخلہ رہے ہیں اور انہیں اس پورے سکینڈل کا پتہ ہے۔ اگر چوہدری نثار علی خان ہی رحمن ملک سے خوفزدہ ہیں تو پھر قمر الزماں چوہدری کو کیا پڑی ہے کہ وہ پاکستان کے 69 ملین ڈالرز کا ٹیکہ لگنے پر رحمن ملک کی دشمنی مول لیں ۔ کیا خبر رحمن ملک کب دوبارہ اس ملک کے وزیرداخلہ بن جائیں۔
اب لوٹ مار کے اس دور میں ہمارے دوست رمضان ساجد کے اس دکھ کو کون سمجھے گا کہ صبح سے اس کی روتی ہوئی بیٹی اپنی ٹوٹی ہوئی گولک کی کرچیوں کے پاس بیٹھی ہے۔ وہ اسے کیا بتائیں کہ اس کے بے بس باپ کو اس کی ماں اور چچی کے سامنے رسیوں سے باندھ کر اس کے پیسوں پر کس نے ڈاکہ مارا تھا !