پروگرام تو اسلام آباد میں جاری ڈاکو راج پر لکھنے کا تھا کہ چار نوجوان ڈاکوئوں کے ایک گروپ نے شہریوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ یہ چار ڈاکو وزیراعظم ہائوس اور وزیرداخلہ کے دفتر سے چند منٹوں کی ڈرائیو پر واقع سیکٹرز کے گھروں میں گھس جاتے ہیں، بچوں کے سر پر گنیں رکھ کر ماں باپ کو ذلیل کر کے کچن میں آرام سے چائے پانی پیتے ہیں اور لوٹ مار کر کے تسلی سے فرار جاتے ہیں۔
لیکن کیا کریں رحمن ملک نے ایک خط میرے گروپ ایڈیٹر نذیر ناجی کے نام لکھ بھیجا ہے جس میں انہوں نے میرے لکھے گئے ایک کالم کا جواب دیا ہے۔
سابق وزیرداخلہ کے ترجمان کے مطابق ''اسلام آباد سیف سٹی پراجیکٹ کی منظوری اکنامک افیئرز ڈویژن نے دی تھی اور سپریم کورٹ میں باقاعدہ اس کی سماعت ہوئی تھی اور اس منصوبہ کو سکیورٹی کے لیے انتہائی مفید قرار دیا گیا تھا۔ رحمن ملک نے وزیر داخلہ کی حیثیت سے نہ کوئی فنڈ ریلیز کیا اور نہ ہی اس کی منظوری دی ۔ عوام اور رئوف کلاسرا کو پتہ ہونا چاہیے کہ یہ سافٹ لون چین نے بطورِ خاص پاکستان کو دیا تھا ۔ دو ہزار پاسپورٹ وزیراعظم کے براہ راست حکم پر جاری ہوئے تھے اور یہ پاسپورٹ صرف پارلیمنٹیرین اور ان کے ترجمانوں کو دیے گئے تھے۔ رحمن ملک اور ان کی بیوی کو وزیرداخلہ ہونے کی وجہ سے سفارتی پاسپورٹ اور دونوں طالبعلم بچوں کو آفیشل پاسپورٹ کی اجازت تھی۔ انہوں نے اپنے بھائی اور بھتیجے کو آفیشل پاسپورٹ نہیں دیا۔ رحمن ملک اس کالم نگار کو نہیں بلکہ پوری حکومت کو چیلنج کرتے ہیں کہ اگر یہ بات ثابت ہوجائے تو وہ ہر سزا بھگتنے کو تیار ہیں۔ رحمن ملک نے وزیرداخلہ کی حیثیت سے غیرقانونی سفر کرنے کے معاملے میں انتہائی کارروائی کی جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی‘‘۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ کالم نگار(رئوف کلاسرا) نے رحمن ملک کے خلاف ایک پراپیگنڈہ مہم جاری رکھی ہوئی ہے ۔ ایک بڑے صحافی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ سنی سنائی باتوں کو اپنے کالموں کا حصہ بنائے۔ اس کالم نگار کے ادارہ نے ہماری تردید نہ شائع کی تو اس صحافی اور اخبار کے خلاف قانونی کارروائی کا حق رکھتے ہیں ۔
اب سمجھ میں نہیں آتا کہ اس تردید کا جواب کہاں سے شروع کیا جائے۔ کیا سابق سیکرٹری داخلہ قمرالزماں چوہدری کے ترکی میں مجھے بتائے گئے اس راز سے شروع کیا جائے کہ کیسے رحمن ملک کے دور میں ایک غیر ملکی کمپنی کو ایڈوانس کے طور پر سات ارب روپے کی ادائیگی کر دی گئی تھی اور وہ کمپنی یہ پیسے لے کر وطن لوٹ گئی ۔ یا پھر اس کو یہاں سے شروع کیا جائے کہ کیسے رحمن ملک کی وزارت نے پہلے اس منصوبہ کی لاگت 140 ملین ڈالر لگائی اور جب کسی نے مخبر ی کی کہ اس میںبیس ملین ڈالر کا کمیشن کھایا جارہا تھا تو سپریم کورٹ کے ڈر سے دوبارہ اس کا جائزہ لے کر اس منصوبے کو کم کر کے 120 ملین ڈالر کر دیا گیا تھا ۔
اگر یہ ڈیل اتنی شفاف اور اچھی تھی تو پھر سپریم کورٹ نے اسے کیوں کینسل کر دیا تھا ۔ اگر اب بھی تسلی نہیں ہوئی تو پھر چوہدری نثار علی خان نے پنجاب ہائوس میں ارشد شریف، سلیم صافی، ابصار عالم، کاشف عباسی، ندیم ملک اور احتشام الحق کی موجودگی میں رحمن ملک صاحب کے دور میں ایک غیر ملکی کمپنی کو سات ارب روپے کی ایڈوانس ادائیگی کی بارے میں جو گفتگو کی وہ ملاحظہ فرمالیں۔
جہاں تک سرکاری اور ڈپلومیٹک پاسپورٹس کے غیرقانونی اجرا کی بات ہے تو رحمن ملک بھول رہے ہیں یہ سکینڈل میں نے بریک نہیں کیا تھا بلکہ ان کے خیرخواہ چوہدری نثار علی خان نے ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا تھا کہ رحمن ملک کے دور میں دو ہزار لوگوں کو غیرقانونی طور پر سرکاری بلیو پاسپورٹ جاری کیے گئے۔ چوہدری صاحب نے کہا تھا کہ اگر وہ ان لوگوں کے نام لکھ دیں تو سب سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے ۔ اس پر میںنے لکھا تھا کہ چوہدری صاحب آپ نام بتادیں‘ ہم سر پکڑنے کو تیار ہیں۔
ملک صاحب لکھتے ہیں کہ جن لوگوں کو سرکاری پاسپورٹ دیے وہ پارلیمنٹیرین کے سپوکس مین تھے۔ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ سپوکس مین کو بھی سرکاری پاسپورٹ مل سکتا ہے یا دس برس کے لیے کسی کو سرکاری پاسپورٹ جاری کردیں جو آپ نے کیے۔ سب کو پاسپورٹ وزیرداخلہ رحمن ملک کی 3مارچ 2013ء کو دی گئی منظوری کے تحت دے دیے گئے۔ چیئرمین پبلک سروس کمیشن آصف حیات اور ان کی بیگم کو دس برس کے لیے کیسے سفارتی پاسپورٹ دیا گیا حالانکہ انہیں جاری ہونا غیرقانونی ہے‘ چاہے کسی نے بھی آرڈر کیے ہوں؟ اب آتے ہیں رحمن ملک کے برطانوی شہریت کے حامل بچوں کے
معاملے پر کہ وہ کیسے سرکاری پاسپورٹ کے حقدار ٹھہرے اور وہ بھی دس برس کے لیے۔ رحمن ملک واحد وزیرداخلہ ہیں‘ جن کے دور میں اپنے دوستوں، خاندان، سفارت کاروں، ججوں، بیوروکریٹس اور فوجی افسروں کو نوازنے کے لیے پاسپورٹ مینوئل میں کئی دفعہ تبدیلیاں کی گئیں ۔ پاسپورٹ مینوئل میں چپکے سے تبدیلی کا کام 2005ء میں شروع ہوا جب سابق گورنرز کا نام اس فہرست میں ڈالا گیا اور اس کے بعد چل سو چل والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ شوکت عزیز کابینہ کے وزراء کے لیے 12.9.2007کو وزارت داخلہ نے مینوئل میں تبدیلی کی اور اس کے بعد سابق وفاقی وزراء، وزیرمملکت اور ان کی تمام بیگمات کو بھی سرکاری پاسپورٹس کا اہل قرار دے دیا گیا ۔
بیوروکریسی کو پتہ چلا کہ سرکاری پاسپورٹ بٹ رہے ہیں تو انہوں نے شوکت عزیز حکومت ختم ہونے سے سولہ دن قبل وزارت داخلہ سے تمام ریٹائرڈ سرکاری ملازمین، چیف سیکرٹریز اور ان کی بیگمات کا نام اس فہرست میں ڈلوا دیا جنہیں سرکاری پاسپورٹ مل سکتے تھے‘ حالانکہ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں نہیں ملنے چاہئیں تھے۔
اب رحمن ملک کی باری تھی۔ وزیرداخلہ بنے تو پہلا حکم 9جولائی 2008ء کو جاری کیا کہ آج کے بعد فیڈرل سیکرٹریز کے اٹھائیس برس تک کے بچوں کو بھی سرکاری پاسپورٹ ملے گا۔
اب رحمن ملک نے اپنا کھیل کھیلنا شروع کیا ۔ خود ہی پاسپورٹ مینوئل میں تبدیلی کی اور حکم دیا کہ آج کے بعد وزیر داخلہ ، ان کی بیگم، وزیرداخلہ کے بچے تاحیات سرکاری پاسپورٹ کے اہل ہوں گے۔ ان بچوں کے علاوہ بھی وزیرداخلہ اپنے جن بچوں کے نام دیں گے ان کو بھی سرکاری پاسپورٹ ملیں گے۔ یہ حکم وزیرداخلہ نے 15.12.2011 کو بذریعہ سرکاری آرڈر نمبر M/1 iNT.nO 1/2/2005-pass Dt کے تحت جاری کیا۔ سیکرٹری داخلہ کو علم ہوا تو انہوں نے بھی خود ہی اپنی بیگم اور بچوں کے لیے تاحیات سرکاری پاسپورٹ جائز قرار دے دیا ۔ وزیرمملکت برائے داخلہ کو پتہ چلا کہ لوٹ سیل جاری ہے تو ان کے بیوی بچوں کو بھی سرکاری پاسپورٹس کی اجازت دے دی گئی تاکہ وہ شور نہ مچائیں‘ تاہم سیکرٹری داخلہ نے تاحیات سرکاری پاسپورٹ کی سہولت صرف رحمن ملک اور اپنے لیے مخصوص رکھی۔
رحمن ملک نے 15.11.2011 کو پاسپورٹس مینوئل میں ایک اور تبدیلی کرائی۔ اس بار سابق ارکان پارلیمنٹ جن کی تعداد ہزاروں میں بنتی ‘ کوبھی سرکاری پاسپورٹ کے لیے اہل قرار دے دیا گیا۔ جب سب لوٹ رہے تھے تو ڈپٹی سیکرٹری نے بھی لگے ہاتھوں دس برس کے لیے اپنے اور اپنی بیوی بچوں کے لیے دس دس برس کے لیے سرکاری پاسپورٹ کا اجرا کرا لیا ۔
مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کو ناکارہ سکینرز فراہم کرنے والی غیر ملکی کمپنی کو سات ارب روپے کی ایڈوانس ادائیگی سے لے کر، دو ہزار غیر سرکاری لوگوں کو بلیو پاسپورٹس جاری کرنے اور تاحیات وزیرداخلہ کے برطانوی بیوی بچوں کو سرکاری اور اور دیگر بڑے لوگوں کوغیرقانونی سفارتی پاسپورٹس جاری کرنے کے حکم نامے پر ہم نے ہی تو مشترکہ دستخط کیے تھے۔ ہاں یاد آیا کراچی سے وزارت داخلہ کے ہیلی کاپٹرز ہمارے لیے نہاری لانے جاتے تھے۔ رحمن ملک صاحب تو بے قصور ہیں، وہ بھلا کب ایسے کام کرتے ہیں !