"RKC" (space) message & send to 7575

صحافیوں نے یہ خواب کیوں دیکھے؟

اب تو لگتا ہے کتابیں خریدنا بھی مشکل ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جب کوئی کتاب اپنی اصل قیمت سے تین گنا میں ملے تو کوئی کیا کرے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کبھی اچھی کتاب کو قیمت کی وجہ سے چھوڑا ہو لیکن پہلی دفعہ مجھے یہ کرنا پڑا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کی تفتیش کرنے والے افسر کی لکھی ہوئی کتاب کی قیمت 26 ڈالر دیکھ کر تسلی ہوئی کہ چلیں دو ہزار روپے تک مل جائے گی۔ سیلزمین نے ساڑھے چھ ہزار روپے مانگ لیے۔ میں حیرانی سے بولا اگر ڈالر کے حساب سے بھی کتاب فروخت کرو تو یہ 2700 سے زیادہ کی نہیں ہوگی تم کیسے ساڑھے چھ ہزار روپے کی بیچ رہے ہو؟ 
تھوڑی دیر کے لیے غصہ بھی آیا اور افسوس بھی ہوا ‘ مگر خیال آیا کہ جب محترمہ بینظیر کی اپنی پارٹی نے ان کے نام ، کام اور ہنر کو بیچا ہے تو پھر کتاب فروش کیوں نہ بیچے۔ اگر امین فہیم کی بیگم کے بنک اکائونٹ سے این آئی سی ایل سکینڈل کے چار کروڑ روپے برآمد ہوسکتے ہیں، امین فہیم کے اسٹاف افسر فرحان جونیجو کے دوبئی بنک میں پانچ ملین ڈالر موجود ہوسکتے ہیں، لندن میں وہ کئی جائیدادوں کا مالک ہوسکتا ہے تو پھر دکاندار کا کیا قصور ہے۔کس نے کیا کچھ نہیں کمایا ۔ ڈاکٹر عاصم سے لے کر سابق وزراء اعظم تک‘ لوٹ مار کی طویل کہانی ہے۔ سندھ کو ہرسال این ایف سی کی مد میں تین سے چار سو ارب روپے ملتے رہے ہیں‘ اس کے باوجود بی بی کے سسرالیوں کے شہر نواب شاہ میں ایک بھی ایسا ہسپتال نہ تھا جہاں اس علاقے کے حادثے میں شدید زخمی ہونے والے بچوں کا علاج ہوسکتا۔ ان بچوں کو حیدر آباد اور پھر کراچی لے جایا گیا۔ 
دوسری طرف جب اس ملک کا آرمی چیف اور صدر جنرل مشرف کہے کہ اس کے علاج کے لیے اس ملک میں سہولتیں نہیں 
ہیں، تو پھر عام آدمی کدھر جائے۔ پاکستان نے 1947ء سے 1971ء تک ساڑھے تین ارب ڈالر غیرملکی قرضہ لے رکھا تھا جب کہ 1971ء سے 2013ء تک یہ قرضہ 80 ارب ڈالر کے قریب ہو گیا۔ ملکی بنکوں سے جو قرضہ لیا گیا‘ اس کو لکھنے کی ہمت نہیں ہورہی۔ اس کے باوجود اس ملک میں ایک ہسپتال ایسا نہ بن سکا جہاں جنرل مشرف کا معیاری علاج ہوسکتا۔ 80 ارب ڈالر کا قرضہ جس ملک کو ترقی یافتہ قوموں کی فہرست میں شامل نہیں کرا سکا وہاں ہمارے حکمران یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ وہ ایک ارب ڈالر سے بھی کم پیسوں سے نوجوانوں کے لیے قرضے کی سکیم شروع کر کے ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔ 
جنرل مشرف کے حامیوں کی سنیں تو وہ آج کل ہمیں بتا رہے ہیں کہ جنرل مشرف نے دہشت گردوں کو نکیل ڈال رکھی تھی۔ وہ بھول گئے ہیں کہ اس ملک میں طالبان کو طاقت اور ان کی حامی مذہبی جماعتوں کو اقتدار کی لت جنرل مشرف نے ہی ڈالی تھی۔ سیاستدانوں کے لیے الیکشن لڑنے کے لیے بی اے ہونے کی شرط رکھی گئی تھی اور کسی کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں تھی لیکن طالبان کے حامیوں کو نہ صرف ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑایا گیا بلکہ ان کے مدرسے کی ڈگریوں کو بھی الیکشن کمیشن سے تسلیم کرایا گیا ۔
طالبان کے حامیوں کو پہلی بار خیبر پختون خوا میں حکومت اور کھل کھیلنے کا موقع دیا گیا، بلوچستان میں انہیں حصہ ملا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا عہدہ بھی مولانا فضل الرحمن کو عنایت کیا گیا۔ وہ تو بینظیر بھٹو مغرب سے ڈر گئی تھیں وگرنہ آصف زرداری نے جنرل مشرف کو راضی کر لیا تھا کہ 2002ء کے انتخابات میں وزیراعظم مولانا فضل الرحمن ہی ہوں گے۔ جنرل مشرف بھی مان گئے تھے۔ امریکہ کو یہ کہانی بیچی جانی تھی کہ مولانا ہی آپ کے طالبان سے مذاکرات کراسکتے ہیں۔ یوں پاکستان کے تمام ماڈریٹ سیاستدانوں کو اسمبلیوں سے باہر کر کے مولویوں کو پارلیمنٹ کے اندر لایا گیا اور لانے والے جنرل مشرف ہی تھے۔ ایک ڈیڑھ سال پارلیمنٹ کے اندر ایل ایف او کے خلاف ایک ڈرامہ ہوتا رہا لیکن پھر اسی ایم ایم اے کو جس مقصد کے لیے پارلیمنٹ میں لایا گیا تھا‘ اس پر کام شروع ہوا ۔ ایم ایم اے نے قطار میں لگ کر جنرل مشرف کو وردی کے ساتھ قبول کیا۔ قاضی حسین احمد صاحب نے فرمایا تھا کہ جس دن اس اسمبلی نے ایل ایف او کو قبول کیا‘ وہ استعفیٰ دے دیں گے‘ لیکن کچھ عرصے بعد وہ بھی باوردی جنرل مشرف کو ووٹ ڈال رہے تھے۔ 
اس ملک میں مذہبی جنونیت ہمیشہ آمروں کا ہتھیار رہی ہے۔ جنرل ضیاء نے لاکھوں پاکستانیوں کے بچے افغانستان میں مروائے اور اپنے دونوں بچوں کو بیرون ملک پڑھایا ۔ ایک بینکر تو دوسرا ڈاکٹر بنا ۔ جنرل اختر عبدالرحمن کے دونوں بچے باہر سے پڑھے۔ قاضی حسین احمد کا بیٹا بھی امریکہ سے پڑھا۔ جنرل مشرف کا اپنا بیٹا امریکہ سے پڑھا اور وہیں رہتا ہے‘ جبکہ جنرل ضیاء اور جنرل مشرف نے پختون، پنجابی اور سرائیکی علاقے کے غریبوں کے بچوں کو افغانستان اور کشمیر میں استعمال کیا۔ اپنے بچوں کے لیے امریکہ میں سٹڈیز اور پنجابیوں، پٹھانوں اور سرائیکیوں کے لیے افغانستان میں جہاد۔ یوں ایک پرائیویٹ آرمی انہوں نے کھڑی کی اور اسے اسلحہ اور تربیت دے کر آگ میں جھونک دیا اور امریکہ سے ڈالرز خود لے لیے۔ جنت اگر اتنی آسانی سے مل رہی تھی تو پھر صرف غریبوں کے بچے ہی کیوں جنت میں بھیجے جارہے تھے؟ جنرل ضیاء، جنرل اختر عبدالرحمن یا جنرل مشرف کے بچوں کو جنت کی ضرورت نہیں تھی؟ یوں اپنے ہی پس ماندہ لوگوں کو دہشت گرد بنایا گیا، انہیں اپنے اقتدار کے لیے استعمال کیا گیا تاکہ وہ افغانستان میں امریکیوں کو ٹف ٹائم دیں تاکہ انہیں ڈالر ملتے رہیں اور ان کی اہمیت قائم رہے کہ وہ ملک کو چلا اور امریکہ کو محفوظ کر سکتے ہیں۔ یہ ایک دردناک داستان ہے کہ کس کے بچے کہاں پڑھتے رہے اور کس کے بچے افغانستان کی سنگلاخ پہاڑیوں میں مرتے رہے۔ 
جنرل ضیاء کے دور میں بھی چند صحافی تھے جو مسلسل چیخ رہے تھے کہ ایسا مت کریں ۔ دوسروں کی جنگ میں غریبوں کو نہ مروائیں اور وہ سب جنرل ضیاء کے ظلم کا شکار ہوئے۔ انہیں کافر قرار دلوایا گیا ۔ ستم دیکھیں کہ جو جنرل اور مذہبی پارٹیاں ان بچوں کو مروا رہے تھے‘ وہی ان طالبان کے ہیرو ٹھہرے۔ جو صحافی ان بچوں کو کسی اور کی جنگ میں جھونکنے سے روکنے کی کوشش کررہے تھے وہ ریاست اور ان مذہبی طاقتوں کے عتاب کا نشانہ بنے۔ آج پھر وہ صحافی موجودہ طالبان سے اس قتل و غارت کو روکنے اور 'جیو اور جینے دو‘ کی راہ اپنانے کی بات کرتے ہیں تو پھر نشانہ بنتے ہیں۔ آج بھی مذہبی گروپ اور بعض جنرل ہی طالبان کو محبوب ہیں اور وہ صحافی ان کے نشانے پر ہیں جو انہیں جرنیلوں اور مذہبی گروپوں کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچانے کے لیے سرگرم تھے تاکہ وہ بھی عام پاکستانیوں کی طرح زندگی گزاریں۔ 
سوچتا ہوں کیا پڑی تھی ہمارے صحافی دوستوں کو کہ جنرل ضیاء سے لے کر جنرل مشرف تک ان غریب پٹھانوں، پنجابیوں یا سرائیکیوں کے بچوں کو افغانستان میں عالمی طاقتوں کا ایندھن بننے سے روکنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے؟ کیا صلہ ملا انہیں قوم کے بچوں کے حق میں آواز اٹھانے کا؟ طالبان کی ہٹ لسٹ پر ہونے والے روشن خیال صحافی دوست اگر جنرل ضیاء، جنرل مشرف اور مذہبی جماعتوں کے لیڈروں کی طرح منافقت سے کام لیتے اور ان پٹھانوں، پنجابیوں اور سرائیکیوں کو ایسے ہی استعمال ہونے دیتے تو آج ان کے نام ہٹ لسٹ پر نہ ہوتے۔آخر یہ روشن خیال صحافی کیوں نہ سمجھ سکے کہ بے چارے پختون اور پنجابی طالبان طویل عرصے تک ان جرنیلوں اور مذہبی گروپوں کے ہاتھوں اتنی بری طرح اور مسلسل استعمال ہوئے ہیں کہ اب طالبان کو بھی لگتا ہے اگر انہوں نے اس پنجرے سے رہائی پائی تو مر جائیں گے، لہٰذا ان روشن خیال صحافیوں کو ہی مار دیا جائے، جو جرنیلوں اور مذہبی لیڈروں کے برعکس طالبان کے لیے بھی وہی زندگی چاہتے تھے جن کے خواب وہ اپنے بچوں کے لیے دیکھتے تھے !!
ایسے خواب دیکھنے والوں کو سزا ملتے پہلی بار دیکھ رہا ہوں! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں