"RKC" (space) message & send to 7575

ایک ریٹائرڈ جنرل کا طنزیہ قہقہہ!!

سابق چیئرمین بورڈ آف انویسٹمنٹ وسیم حقی اسلام آباد کے ان اہم لوگوں میں سے ہیں جن کے تعلقات میڈیا سے لے کر بیوروکریسی، بینکار، بزنس مین، کرکٹرز، فوجی اور سیاستدان تک‘ سب سے ہیں۔ ان کے پاس معلومات کا ایسا خزانہ ہوتا ہے جو میرے جیسے صحافیوں کو مجبور کر دیتا ہے کہ آتے جاتے ان کے ''دربار‘‘ میں حاضری ضرور دیں۔ روایتی اور بامروت اردو سپیکنگ حقی صاحب ایسے انسان ہیں جن کی کمپنی میں آپ بور نہیں ہوسکتے۔ کرکٹ سے سیاست اور ماضی و حال کی اندرونی کہانیوں تک سب کچھ ان کے پاس موجود ہے۔ وسیم حقی کبھی وزیراعظم شوکت عزیز کے بہت قریب تھے۔ ایک دفعہ جنرل مشرف نے غلط کام کہہ دیا جو وسیم حقی کے خیال میں نہیں ہوسکتا تھا؛ چنانچہ ہٹا دیے گئے۔ 
وسیم حقی کے گھر اس ویک اینڈ پر اسلام آباد اور راولپنڈی کے کچھ ریٹائرڈ فوجی اور سول افسران کھانے پر مدعو تھے۔ نصرت جاوید بھی موجود تھے۔ نصرت صاحب میرے جمعہ کے روز لکھے گئے کالم ''یہ بھائی کیا کھیل کھیل رہے ہیں‘‘ کے حوالے سے کہنے لگے کہ اب اس سکینڈل کے بعد اسد عمر اور محمد زبیر کے سگے بھائی منیر کمال کے گورنر اسٹیٹ بنک لگنے کے امکانات ختم ہوگئے ہیں۔ میں نے کہا ''نصرت صاحب امکانات وہاں ختم ہوتے ہیں جہاں بااختیار لوگ اول آخر پاک صاف ہوں‘ یہاں تو عالم ہی دوسرا ہے۔ آپ کیسی باتیں کرتے ہیں؛ لہٰذا نج کاری بورڈ سے اپنے بینک کو اپنے سگے بھائی محمد زبیر کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں اپنی مرضی کی ڈیل دلانے کے بعد بھی منیر کمال اپنے نام کی طرح کمال کام کرتے ہی رہیں گے اور کوئی کمال کا عہدہ بھی حاصل کر لیں گے‘‘۔ 
کسی نے سرگوشی کی کہ جب شریف خاندان ڈیل کر کے ملک سے گیا تو منیر کمال ہر دوسرے روز فون کر کے حمزہ شہباز سے پوچھتا تھا بیٹا کوئی میرے لائق خدمت ہو تو بتائو ۔ بس منیر کمال کی یہ سمجھداری اور '' سرمایہ کاری‘‘ اب ان بھائیوں کے کام آرہی ہے۔ منیر کمال اور محمد زبیر جیسے ''ہیروں‘‘ کی تو سیاستدانوں کو تلاش رہتی ہے جو مہارت سے مکھن میں سے بال لے اڑیں اور پتہ بھی نہ چلنے دیں۔ باقی چھوڑیں ہمارے گرو عامر متین کو بھی علم نہ تھا کہ منیر کمال دراصل اسد عمر اور محمد زیبر کے سگے بھائی ہیں۔ میں نے کہا گروجی اس میں بھی کچھ کاروباری راز چھپے ہیں۔ یہی دیکھ لیں کہ محمد زبیر چیئرمین نج کاری کمیشن کی حیثیت سے اجلاس کی صدارت کرتا ہے اوراس کا بھائی منیر کمال بھی شریک ہے۔ زبیر چپکے سے سگے بھائی منیر کمال کے بنک کو ایک تگڑی ڈیل دیتا ہے اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ دونوں سگے بھائی ہیں۔ 
وسیم حقی کے گھر بات چل نکلی کہ کیا اسلام آباد یا پنجاب کا آئی جی اتنی جرأت کر سکے گاکہ جنرل مشرف کو اے ایف آئی سی سے گرفتار کر لے؟ ایک ریٹائرڈ جنرل‘ جو خود بھی ریلوے سکینڈل میں ملوث ہیں، بولے: مشرف کی سکیورٹی پر ریگولر پاکستان آرمی تعینات ہے۔ آئی جی کو تو شاید ہسپتال بھی داخل نہ ہونے دیا جائے، جنرل مشرف کو گرفتار کر کے عدالت میں لانا تو دور کی بات ہے۔ اس پرمحفل میں موجود سب نے ایک طنزیہ قہقہہ لگایا جس میں نہ چاہتے ہوئے مجھے بھی شریک ہونا پڑا۔ اس طنزیہ قہقہے کی گونج کا بوجھ اٹھائے رات گئے گھر لوٹا تو سرکاری دستاویز پڑھنے لگ گیا کہ جی ایچ کیو نے نیب کو وہ سرکاری ریکارڈ دینے سے انکار کر دیا ہے جس میں فوج کے لیفٹیننٹ جنرل سے لے کر میجر جنرل تک کے افسران پر این ایل سی سکینڈل میں ملوث ہونے کا الزام تھا ۔ 
کچھ برس پہلے جنرل مشرف دور کے اس سکینڈل کو پبلک اکائونٹس کمیٹی نے رپورٹ کیا تھا۔ پی اے سی نے تین انکوائری کمیٹیاں بنائیں اور جنرل سکینڈل میں ملوث پائے گئے۔ اس سکینڈل کے مطابق این ایل سی کے جرنیلوں نے دو ارب اسٹاک ایکسچینج میں لگایا ، کراچی کے بروکرز کے ساتھ مل کر مال کھایا گیا۔ دو ارب روپے ڈوب گئے تو انہوں نے دو ارب روپے پانچ بنکوں سے کمرشل قرضہ لے کر اسٹاک میں جھونک دے۔ یوں چار ارب ڈوب گئے۔ این ایل سی آج بھی سود سمیت دو ارب روپے کا قرضہ ادا کر رہا ہے۔
چوہدری نثار علی خان پی اے سی کے چیئرمین تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ جرنیلوں کے خلاف کارروائی ہو۔ چوہدری نثار بہت سمجھدار ہیں ۔ ان کی ذہانت، جرأت اور بہادری صرف سرکاری ملازمین یا میرے جیسے بے چارے صحافیوں کے خلاف ہوتی ہے جن کے خلاف وہ گھنٹوں پریس کانفرنس کرتے ہیں۔ جب کمیٹی ممبران کا دبائو بڑھا کہ کارروائی کا حکم دیں تو جنرل کیانی نے چوہدری نثار کو فون کر دیا کہ رک جائیں۔ ہم کورٹ آف انکوائری کرانا چاہتے ہیں۔ چوہدری نثار‘ جن کی انہی دنوں شہباز شریف کے ساتھ جنرل کیانی سے تازہ تازہ چھ خفیہ ملاقاتیں ہوچکی تھیں، فوراً تیار ہوگئے۔ یوں معاملہ دب گیا۔ کچھ ماہ بعد پتہ چلا کہ فوج نے اپنی انکوائری رپورٹ کر کے چوہدری نثار کو بھیج دی تھی جس میں ان فوجی جرنیلوں کو قصوروار پایا گیا تھا ۔ تاہم چوہدری نثار نے وہ خفیہ انکوائری رپورٹ اٹھائی اور اپنے گھر لے گئے۔ وہ انکوائری رپورٹ آج تک پی اے سی کے سامنے نہیں آئی۔ اگر خورشید شاہ مناسب سمجھیں تو چوہدری نثار سے درخواست کریں کہ اپنے گھر کے لاکر سے نکال کر وہ رپورٹ کمیٹی کو واپس کریں ۔ 
خیر سبکی سے بچنے یا اس معاملے کو مکمل طور پر دبانے کے لیے جنرل کیانی نے وقتی طور پر اعلان کر دیا کہ ان فوجی افسران کو دوبارہ نوکری پر بحال کیا جاتا ہے اور ان کا کورٹ مارشل ہوگا ۔ یہ بات تین سال پہلے کی ہے۔ اب سب بھول گئے ہیں کہ اس کورٹ آف انکوائری کا کیا بنا۔ اب جو دستاویزات میں پڑھ رہا تھا ان میں کچھ خوفناک انکشافات کیے گئے ہیں۔ وزارت قانون کی تیارکردہ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نیب نے جی ایچ کیو کو کئی خط لکھے کہ ہمیں این ایل سی سکینڈل کا ریکارڈ فراہم کیا جائے۔ نیب نے پہلا خط ڈی جی این ایل سی راولپنڈی کو 16.4.2012 کو لکھا ۔ کوئی جواب نہیں ملا۔ دوسرا خط اسٹاف ڈیوٹی ڈائریکیوریٹ جی ایچ کیو راولپنڈی کو 27.4.2012 کو لکھا گیا۔ تیسرا خط 7.5.2012 کو اسٹاف ڈیوٹی جی ایچ کیو کو پھر لکھا گیا۔ چوتھا خط ڈائریکٹر آپریشن ہیڈ کوارٹر این ایل سی جی ایچ کیو کو 14.5.2012 کو لکھا گیا۔ پانچواں خط 25.5.2012 کو ڈائریکٹر آپریشن جی ایچ کیو کو یاد دہانی کے طور پر بھیجا گیا۔ چھٹا خط ڈی جی این ایل سی جی ایچ کیو کو 8.6.2012 کو لکھا گیا کہ ریکارڈ فراہم کریں ۔ ساتواں خط 10.10.2012 کو جی ایچ کیو کی جیگ برانچ کے جج ایڈوکیٹ جنرل کو لکھا گیا۔ آٹھواں خط ڈائریکٹر آپریشن این ایل سی کو تیسری دفعہ 18.2.2013 کو لکھا گیا۔ نواں خط پانچ ماہ کے وقفہ کے بعد 8.7.2013 کو ایڈجوٹینٹ جنرل اے جی برانچ جی ایچ کیو کو لکھا گیا۔ دسواں خط 5.8.2013 کو جیگ برانچ کے جج ایڈوکیٹ جنرل کو دوبارہ لکھا گیا۔ نیب نے آخری اور گیارہواں خط سیکرٹری وزارت دفاع لیفٹیننٹ جنرل آصف یاسین کو 28نومبر2013ء کو لکھا۔
آخری خط کے بعد تین ماہ گزر گئے ہیں، نیب کو دوبارہ وزارت دفاع اور جی ایچ کیو کو خط لکھنے کی جرأت نہیں ہوئی کہ جناب آپ اپنے جرنیل ہمارے حوالے نہیں کرتے نہ کریں لیکن این ایل سی کا وہ ریکارڈ تو دے دیں تاکہ جو سویلین افسران اس سکینڈل میں ملوث تھے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ لیکن جی ایچ کیو کو بھی روک دیا گیا کہ وہ ریکارڈ تک نیب کو نہ دیں تاکہ ان کے ساتھی سویلین کے خلاف کارروائی نہ ہو۔ اگر ان پر جرم عدالت میں ثابت ہوگیا اور انہیں سزائیں ہوگئیں تو وہی ثبوت ان کے خلاف استعمال ہوں گے۔ 
اپنے دوست وسیم حقی کے گھر ایک ریٹائرڈ جنرل کی طنز پر پہلے تو اس ملک کے قانون کی بے بسی پر غصہ آیا تھا لیکن اب سوچ رہا ہوں کہ انہوں نے بات تو پتے کی تھی ۔ نیب جیسا ادارہ‘ جس میں اکثریت فوجی افسران کی ہے‘ اگر جی ایچ کیو سے تین برسوں میں این ایل سی سکینڈل کا ریکارڈ تک نہیں لے سکا، تو آئی جی پولیس کیسے ریگولر آرمی کے دستوں کی موجودگی میں اے ایف آئی سی سے ان کے سابق باس جنرل مشرف کو گرفتار کر کے لے آئیں گے؟ 
میرے پیارے!! آئو اس طرح کا ایک اور طنزیہ قہقہہ مل کر لگاتے ہیں جیسے میرے دوست وسیم حقی کے گھر رات گئے اس ریٹائرڈ جنرل کی اس طنز پر ہم سب نے مل کر لگایا تھا...! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں