ارادہ تھا کہ کینسر کا شکار اس نوجوان خاتون نسیم کے بارے میں لکھوں جس کے بارے میں میرے گرو عامر متین مجھے بار بار کہہ چکے ہیں ۔ وہ نوجوان خاتون جس نے مختار اں مائی کو شروع میں انصاف دلوانے کے لیے کام کیا تھا‘ آج کینسر کے مرض میں مبتلا ہے۔آج مختاراں مائی کے پاس بھی موت کے منہ میں جاتی نسیم کے لیے وقت نہیں رہا۔ ڈاکٹروں نے نسیم کو جواب دے دیا ہے۔ آخری امید امریکہ میں علاج ہے۔ عامر متین کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کس سے بات کر کے اسے موت کے منہ میں جانے سے بچائیں۔ میں اگر کسی کو ناں نہیں کر سکتا تو ان میں سے ایک عامر متین ہیں۔
لیکن کیا کروں اس نوجوان خاتون کی جان لیوا بیماری کو یہیں چھوڑ نا پڑا ہے کہ ابھی ابھی میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس سے واپس لوٹا ہوں اور میرا سر واقعی گھوم رہا ہے۔ آج اجلاس کو نج کاری کمشن نے بریفنگ دینی تھی۔ بتایا گیا کہ کل اکتیس کے قریب قومی ادارے بیچے جارہے ہیں جن میں وہ بھی ہیں جو فائدے میں جارہے ہیں ۔ سیکرٹری نج کاری کمشن امجد علی خان کا کہنا تھا کہ وہ ادارے تو بیچ رہے ہیں لیکن ان کے پاس اس کام کے لیے تجربہ کار لوگ موجود نہیں۔ کبھی کمشن کے پاس 22 کنسلٹنٹ ہوتے تھے اور آج صرف چھ ہیں۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ اگر آپ کے پاس لوگ پورے نہیں ہیں تو پھر کیسے قیمتی ادارے بیچیں گے۔
بیوروکریسی اور وہ بھی ڈی ایم جی بہت سمجھدار گروپ ہے۔ امجد علی خان نے کہا کہ اس کا حل بھی ہم نے نکالا ہے۔ دنیا بھر سے تین ارب روپے کا قرضہ لینے کے لیے کوششیں جاری ہیں تاکہ ایسے ہنرمند پیدا کیے جائیں جو یہ ادارے بیچ سکیں۔ ہم چلے تھے قومی ادارے بیچنے کہ اس سے قرضہ اترے گا‘ اب پتہ چلا
ہے کہ نج کاری کمشن الٹا دنیا بھر سے قرضہ لے رہا ہے تاکہ تین ارب روپے پر عیاشی کی جائے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان بلند اختر رانا نے زبردست پوائنٹ اٹھایا کہ اگر آپ اربوں روپے کے ادارے بیچ رہے ہیں تو نج کاری کی پالیسی کیا ہے۔ اربوں روپے کے اثاثے بیچنے پر مامور امجد علی خان کو اتنا علم نہیں تھا کہ ان کے ادارے کی نج کاری پالیسی کیا ہے۔ فرمایا کہ وہ دفتر جا کر تلاش کر کے انہیں بھیج دیں گے۔یہ جان کر بلند اختررانا حیرانی کے سمندر میں ڈوب گئے۔ آڈیٹر جنرل نے دوسرا سوال پوچھا :نج کاری کمشن ایک طرف ان اداروں کو بیچ رہا ہے جو غلط فیصلوں کی وجہ سے ڈوب رہے ہیں لیکن خود اس کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے۔ اس نے پچاس کروڑ روپے ایک ایسے بینک میں سرمایہ کاری کے لیے رکھوا دیے تھے جس کے دیے ہوئے چیک بائونس ہوگئے تھے اور وہ پیسے ڈوب گئے تھے۔ اس سے پہلے کہ سیکرٹری جواب دیتے ‘ن لیگ کے رکن روحیل اصغر ناراض ہوگئے کہ آڈیٹر جنرل نے یہ سوال کیوں پوچھ لیا تھا۔ بھائی اگر آڈیٹر جنرل نے کوئی سوال نہیں پوچھنا تھا تو پھر انہیں اجلاس میں کیوں بلایا گیا۔ اگر کمیٹی ممبران نے حکومت کے ہر غلط فیصلے کا دفاع کرنا ہے تو پھر ان اجلاسوں کی کیا ضرورت ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے شفقت محمود بڑی شدو مد سے کہہ رہے تھے کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں ہے۔
حکومت کا کام نوکریاں ، تعلیم، صحت، سفری سہولتیں اور امن و امان مہیا کرنا نہیں تو پھر اور کیا ہے؟ کیا حکومت کا کام صرف ٹیکس اکٹھاکر کے ایم این ایز، وزیروں اور اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے لیے بلٹ پروف گاڑیاں خریدنا اور الائونسز لینا ہے ؟
سب سے اچھے سوالات محمود خان اچکزئی نے کئے ۔ انہوں نے پوچھا : بتایا جائے کہ زبیر عمر کونج کاری کا چیئرمین کیسے لگایا گیا‘ ان کی قابلیت کیا تھی؟ اس طرح نج کاری بورڈ کے چھ ممبران کی کیا قابلیت تھی۔ جواب سے پتہ چلا کہ ان کی قابلیت ایک ہی تھی کہ انہیں وزیراعظم نواز شریف نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ممبر نج کاری کمشن لگایا تھا ۔ نج کاری بورڈ کے ممبران میں ایک مردان سے ارسلان خان ہوتی ہیں جو نواز لیگ کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہار گئے تھے، دوسرے سروسز انڈسٹریز کے مالک ہیں، تیسرے پنجاب میں ایک بہت بڑے صنعت کار ہیں، چوتھے شوگر ملز کے مالک ہیں، پانچویں چیئرمین نج کاری محمد زبیر کے بھائی اور چیئرمین اسٹاک ایکسچینج کراچی منیر کمال عمر ہیں ۔اس پر اچکزئی بولے :منیر کمال عمر تو چیئرمین زبیر عمر کے بھائی ہیں۔ اس سے پہلے کہ سیکرٹری جواب دیتے‘ پی اے سی ممبران ان کے دفاع میں بول اٹھے کہ انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اگر پی اے سی ممبران کی تیاری ہوتی تو ان بے چاروں کو پتہ ہوتا کہ منیر کمال نے آٹھ جنوری کی اس بورڈ میٹنگ میں شرکت کی تھی جس میں انہوں نے اپنے اس بینک کیلئے ایک زبردست ڈیل اپنے بھائی زبیر سے لے کر دی تھی جس کے وہ پانچ سال تک صدر رہے تھے اور وہ ڈیل لے کر پھر استعفیٰ دے دیا تھا۔
تاہم اچکزئی کا کہنا بجا تھا کہ ہمیں بتایا جائے جو اربوں روپے کا مال بیچ رہے ہیں وہ خود کیا بیچتے ہیں تاکہ پتہ چلے کہ یہ ہیرے کیسے ڈھونڈے گئے ہیں ۔تاہم حیرانی اس بات پر ہے کہ ایک طرف کمیٹی ممبران اس بات پر قائل تھے کہ جو ادارے پرفارم نہیں کر سکے تھے انہیں بیچ دیا جائے کیونکہ ان کی انتظامیہ اور ورکرز قابل نہیں تھے۔ لیکن دوسری طرف ان کے پاس عاشق گوپانگ کی اس بات کا کوئی جواز نہیں تھا کہ جو ادارے فائدے میں چل رہے تھے اور حکومت کو کما کر دے رہے تھے انہیں کیوں بیچا جارہا تھا جن میں او جی ڈی سی، پی پی ایل وغیرہ شامل ہیں۔ کیا انہیں اس بات کی سزا مل رہی تھی کہ انہوں نے اچھا کام کیا اور حکومت کو مال کما کر دیا تھا۔
اچکزئی کی وہ بات بھی کمال کی تھی کہ پہلے ان سے حساب کون لے گا جنہوں نے پی ٹی سی ایل کو کوڑیوں کے دام بیچ دیا ۔ اب وہی اس کا مال بھی کھا رہے تھے اور 800 ملین ڈالرز آج تک ادا نہیں کیے۔ کر لو جو کرنا ہے۔ اچکزئی کی بات میں وزن تھا کہ اگر وہ پیسے ادا نہیں کر رہے تو وہ پاکستان سے ہر ماہ اربوں کیسے کما رہے ہیں اور کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں ہے۔ اچکزئی کا کسی نے ساتھ نہ دیا کہ پی ٹی سی ایل کو واپس لے لینا چاہیے کیونکہ خود خورشید شاہ کہہ چکے تھے کہ نج کاری سے قبل یہ ادارہ ڈیڑھ سو ارب روپے کما کر دے رہا تھا اور اب صرف پچیس ارب روپے دے رہا ہے۔
اب اچکزئی کو کون بتائے وہ آٹھ سو ملین ڈالر کیسے واپس ہوسکتے ہیں کیونکہ ان کے ملک میں پاکستانیوں کی جائیدادیں اور محل ہیں۔ حفیظ شیخ جنہوں نے یہ ادارہ بیچا تھا‘ وہ بھی دوبئی میں رہتے اور نوکری کرتے ہیں۔ سابق صدر آصف زرداری اور بلاول بھٹو کا محل بھی وہیں پر ہے۔ وزیرخزانہ کے بچے بھی وہیں کاروبار کرتے ہیں جنہیں بقول ڈار صاحب کے انہوں نے 44 کروڑ روپے کا قرض حسنہ دے رکھا ہے۔ کون سا سیاستدان ہے جو دوبئی میں نہیں رہتا۔تو پھر وہ آپ کو آٹھ سو ملین ڈالرز کیوں دیں گے ؟ الٹا ہم تین سو ملین ڈالرز کی آئی ایم ایف کی قسط ادا کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے ہی مہنگا قرض لے رہے ہیں لیکن عربوں سے اپنا آٹھ سو ملین ڈالرز لینے کو تیار نہیں ہیں۔
عامر متین سے معذرت کہ ان کی بار بار تاکید کے باجود موت کے منہ میں جاتی اس نسیم پر کالم نہیں لکھ سکا۔ ان کا خیال تھا میرے کالم لکھنے سے شاید کوئی اس کی مدد پر تیار ہوجائے۔ کیا کروں یہاں پورا ملک فروخت ہو رہا ہے، دکاندار اور گاہک ایک ہی ہے۔ معاملہ اس ہاتھ دے، اس ہاتھ لے والا ہوچکا۔ اچکزئی کہتے ہیں کہ بتایا جائے نج کاری کمشن کے یہ چھ ہیرے کیسے اور کہاں سے تلاش کیے ہیں جنہیں اربوں روپے کامال بیچنے پر لگادیا گیا ہے۔
شاید اچکزئی کو علم نہیں ہے کہ ایسے''ہیروں‘‘کی تلاش میں 40ارب روپے مضاربہ سکینڈل کا مولوی احسان بھی بنکاک گیا تھا جہاں اسے ایک افغانی اور ایک تھائی لینڈ سفارت خانے کے ڈرائیور نے ہیروں کی کانیں خریدنے کا جھانسہ دے کر اربوں روپے کا ایسا ٹیکہ لگایا کہ وہ دونوں خود تو بنکاک میں ہزاروں پاکستانیوں کے پیسوں پر عیاشی کررہے ہیں اور مولوی احسان اڈیالہ میں جیل پڑا ہے ۔!!