"RKC" (space) message & send to 7575

اس ملک کو کیسے چلائیں؟

جمعرات کے روز قومی اسمبلی میں پاکستانی معیشت کی جو کہانی بیان کی گئی ہے‘ بہت خوفناک ہے۔ ہم صحافی اکانومی کو زیادہ نہیں سمجھ پاتے لہٰذا اسے رپورٹ ہی نہیں کرتے تاکہ ہماری جہالت سامنے نہ آجائے۔وزارت خزانہ کے سیکرٹری وقار مسعود‘ شوکت عزیز دور سے لے کر اسحاق ڈار کے عہد تک صحافیوں کی اس جہالت کا فائدہ اٹھاتے رہے ہیں کہ جب بھی کوئی سکینڈل سامنے آیا تو فوراً فرما دیا کہ حضرت آپ کو فنانس کا کیا پتہ۔ یوں لوٹ مار کر کے سب نکل جاتے ہیں اور ہم اپنی اپنی جہالت چھپانے کے چکر میں منہ موڑے رکھتے ہیں۔ 
پیپلزپارٹی دور میں اسحاق ڈار نے ہم جیسے صحافیوں کے ذریعے پراپیگنڈہ کرا رکھا تھا کہ جس دن وہ وزیرخزانہ بنیں گے‘ ملک میں دودھ کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی۔جتنی کرپشن پیپلز پارٹی کے وزیر کر رہے تھے اور جس طرح آخری وزیرخزانہ سلیم مانڈوی والا کے آخری تیس دنوں میں ملک کو لوٹا گیا اس کے بعد توقع یہی تھی کہ اسحاق ڈار بہتر پرفارم کریں گے۔ تاہم جو دستاویزات میرے پاس ہیں اور جو خود وزارت خزانہ نے قومی اسمبلی میں پیش کی ہیں‘ ان کے مطابق یہ ملک اب قرضے کے بغیر نہیں چل سکتا۔ آئی ایم ایف کی ایک ارب ڈالر کی قسط ادا کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے ہی ایک ارب ڈالر کے قریب قرضہ لیا گیا۔ اسحاق ڈار کے دور میں آئی ایم ایف سے آٹھ ارب ڈالر کا قرضہ لیا جارہا ہے جو زیادہ تر پچھلا قرضہ اتارنے پر خرچ ہورہا ہے۔ جب اسحاق ڈار نے ملک کا خزانہ سنبھالا تھا‘ اس وقت پیپلز پارٹی تمام تر لوٹ مار کے باجود آٹھ ارب ڈالر کے ریزرو اسٹیٹ بنک کے پاس چھوڑ گئی تھی۔ اب موجودہ دور کے نو ماہ بعد پتہ چلا ہے کہ ملک کے فارن ریزرو تین ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ 
اسحاق ڈار سے پوچھا گیا کہ آپ ملک میں کیسے فارن ریزرو بہتر کرسکیں گے تو جواب ملا کہ فکر نہ کریں‘ پی ٹی سی ایل کے آٹھ سو ملین ڈالر ہمیں ملنے ہیں۔ یہ پیسے 2006ء سے ہمیں ادا ہونے ہیں اور دوبئی کے شیخ وہ پیسے ادا کرنے کو تیار نہیں ہیں اور ہر ماہ اربوں روپے پی ٹی سی ایل سے کما کر جارہے ہیں۔ ان کا دوسرا نسخہ کیمیا یہ ہے کہ تھری جی لائسنس کی نیلامی سے کچھ ملین ڈالرز اکٹھے کریں گے۔ دنیا فور جی پر پہنچ چکی ہے اور ہمارے ہاں یوٹیوب بند ہے اور ہم سوچ رہے ہیں کہ دنیا بیوقوف ہے جو یوٹیوب بند ہونے کے باوجود تھری جی کے نام پر ہمیں ایک سو ارب روپے سے زیادہ دے گی جب کہ ان سرمایہ کاروں کو یہ بھی خوف ہوگا کہ کسی بھی وقت فور جی لائسنس کی بولی شروع ہوسکتی ہے۔ ڈار صاحب فرماتے ہیں کہ پریشان نہ ہوں ہمارے پاس ڈالرز اکٹھے کرنے کا ایک اور طریقہ بھی ہے کہ ہم ورلڈ بنک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر ملکوں سے قرضہ لیں گے۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے وہ فرماتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ دنیا کے دیگر ادارے بھی اب ہمیں قرضہ دینے پر تیار ہوجائیں گے۔ یوں یہ ایک نیا طریقہ ہے کہ دنیا کو ہمیں قرضہ دینے پر قائل کرنے کے لیے پہلے ہم آئی ایم ایف سے قرضہ لیں تاکہ لوگوں کو اعتبار آجائے۔ اعتبار بنانے کے لیے آٹھ ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا ہے۔ 
وزیراعظم نواز شریف کی طرح اسحاق ڈار بھی اب قومی اسمبلی سے دور رہتے ہیں اور ایک پارلیمانی سیکرٹری جوابات دیتے ہیں۔ انہی پارلیمانی سیکرٹری کا کہنا ہے کہ معیشت بدترین حالات سے گزر رہی ہے۔ انڈسٹری نہیں چل رہی، ریزرو نیچے جارہے ہیں، امپورٹ بل اوپر جارہا ہے، ایکسپورٹ کم ہیں۔ فارن ڈائریکٹ سرمایہ کاری نیچے جارہی ہے اور قرضہ صرف اس لیے لیا جارہا ہے تاکہ قرضہ واپس کیا جائے۔ اس وقت پاکستان ہر سال بیالیس ارب ڈالر کی چیزیں بیرونی دنیا سے منگواتا ہے جب کہ ہم دنیا کو اس کے بدلے میں چوبیس ارب ڈالر کی اشیاء بیچتے ہیں۔ اب اندازہ لگا لیں کہ اس ملک کو کیسے چلایا جا سکتا ہے‘ جہاں اسٹیٹ بنک کے پاس تین ارب ڈالرز سے بھی کم فارن ریزرو رہ گئے ہوں اور جو ہر سال بیالیس ارب ڈالر کی اشیاء باہر سے منگواتا ہو ۔ اسٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق اسحاق ڈار جب وزیرخزانہ بنے تھے تو اس وقت ملک کے ریزرو 11ارب ڈالر تھے جو دسمبر 2013ء میں 8.3ارب ڈالر رہ گئے۔ تازہ صورت حال یہ ہے صرف تین ارب ڈالر تک رہ گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے ادائیگیوں میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ 
سادہ لفظوں میں پاکستان بیس ارب ڈالر بیرونی دنیا سے مال کمانے پر خرچ کر رہا ہے اور کسی کو کوئی علم نہیں کہ کہاں سے یہ گیپ پورا ہوگا۔ اس گیپ کو پورا کرنے کے لیے اسحاق ڈار فرماتے ہیں کہ امریکہ سے درخواست کی گئی ہے کہ چاہے وہ افغانستان سے چلے جائیں لیکن ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے پیسے دیتے رہیں۔ یوں منافقت چل رہی ہے کہ امریکہ کی افغانستان میں جنگ کی مذمت بھی جاری ہے اور امریکی سفیر رچرڈ اولس کے منت ترلے بھی چل رہے ہیں۔ چوہدری نثار علی جیسے وزیر امریکہ پر دبائو ڈال رہے ہیں اور سرتاج عزیز اور اسحاق ڈار امریکی سفیر کے منت ترلوں پر لگے ہوئے ہیں۔ یوں کچھ وزیر قوم کی غیرت کے تقاضے پورے کر رہے ہیں تو کچھ قوم کا پیٹ بھرنے کے لیے امریکہ کے قدموں میں بیٹھے ہیں۔ جنہیں غیرت کی ضرورت ہے وہ غیرت پر گزارہ کریں‘ جنہیں ڈالر چاہئیں وہ منت ترلے پر۔ 
دوسری طرف کچھ صحافی دوست بھارت سے ابھی واپس آئے ہیں اور بتاتے ہیں کہ واہگہ بارڈر پر بھارتی کنٹینرز کی قطاریں لگی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بے شک پاکستان ان سے کوئی چیز نہ خریدے لیکن انہیں راستہ دے تاکہ وہ افغانستان، ایران اور سنٹرل ایشیا تک اپنا مال پہنچا سکیں۔ اس کے بدلے وہ پاکستان کو کرایہ اور دیگر سہولتیں فراہم کرنے کو تیار ہے۔ یوں ہم بھارت کو راستہ دے کر بہت سارے ڈالر کما سکتے ہیں۔ پاکستان میں جہاں جہاں کنٹینرز اور ان کا عملہ رکے گا، کھائے گا، قیام کرے گا، پٹرول یا ڈیزل ڈلوائے گا، کسی ورکشاپ سے کام کرائے گا، اس سے معیشت میں کچھ جان پڑ سکتی ہے۔ مگر ہم کبھی نہیں مانیں گے کیونکہ ہم قرضہ لے کر عزت سے جینے والے لوگ ہیں ۔ بھیک مانگ لیں گے لیکن بھارت کے ساتھ اس طرح کے معاہدے نہیں کریں گے۔ ہمارے حکمرانوں اور بیوروکریٹس کا کمال دیکھیں کہ امریکہ اور نیٹو کنٹینرز کو 2001ء سے فری راستہ دے رکھا ہے۔ ڈھائی سو ڈالر جو ملتے ہیں وہ پاکستان کی جیب میں نہیں آتے بلکہ وہ پورٹ اور مزدوروں کے چارجز ہوتے ہیں۔ یوں ان بارہ برسوں میں ہزاروں کنٹینرز مفت گزرے ہیں جب کہ نیٹو سپلائی بند ہونے پر امریکہ نے دوسرے ملکوں کو سترہ سو ڈالر کرایہ فی کنٹینرادا کیا تھا۔ 
اب جاتے جاتے ایک لطیفہ سن لیں۔ جمعرات کے روز سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے ممبران سے ڈرتے ڈرتے درخواست کی کہ جناب آپ میں سے جن کی آمدن پانچ لاکھ روپے سے زیادہ ہے وہ مہربانی فرما کر ٹیکس ریٹرن جمع کرائیں۔ ان کی مدد کے لیے ایف بی آر نے قومی اسمبلی میں ایک دفتر بنا لیا ہے۔ آپ اس سے ملک میں قانون کی بالادستی کا اندازہ لگا لیں۔ ایف بی آر نے پہلے ہی کئی دفعہ ایم این ایز کے لیے اپنی آخری تاریخ میں اضافہ کیا ہے۔ اب ایک دفعہ پھر کیا گیا ہے۔ ایم این ایز کیسے ایاز صادق اور اسحاق ڈار کے کہنے پر انکم ٹیکس دیں گے؟ جب کہ انہیں پتہ ہے کہ ان دونوں کے اپنے اپنے ٹیکس دینے کی باری آئی تو سپیکر نے کہا کہ انہوں نے اپنے بیٹے علی کو لاکھوں روپے کا قرضہ دے رکھا ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ انہوں نے بھی اپنے بیٹے کو کروڑوں روپے قرض حسنہ دے رکھا ہے۔ جب سپیکر قومی اسمبلی اور اسحاق ڈار اپنے اپنے ٹیکس ریٹرنز میں یہ سب دکھائیں گے تو پھر ارب پتی ایم این ایز کیوں کر بتائیں گے کہ ان کی سالانہ آمدن پانچ لاکھ روپے سے زیادہ ہے !! 
آپ ہی بتائیں اس ملک کو کیسے چلایا جا سکتا ہے ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں