"RKC" (space) message & send to 7575

خواجہ فرید کی اداس دھرتی کے ریڈ انڈین

کس کی بات پر یقین کیا جائے۔ سرائیکی قوم پرست مجاہد جتوئی یا پھر میرے سابق مہربان پرویز رشید کی بات پر ۔
مجاہد جتوئی فرماتے ہیں کہ اس دفعہ ریڈیو پاکستان بہاولپور نے سرائیکی خطے کے عظیم شاعر خواجہ فرید کے سالانہ عرس پر پروگرام کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ ان کا کام نہیں ہے۔ بہاولپور یونیورسٹی کے لڑکے احتجاج کرنے پہنچے تو ریڈیو پاکستان بہاولپور کے اسٹیشن مینیجر نے انہیں پولیس کے ہاتھوں گرفتار کر اکے اب یونیورسٹی سے نکلوانے کے لیے وائس چانسلر سے رابطہ کر لیا ہے۔ وائس چانسلر یقینا ان لڑکوں کو نکال کر تخت ِلاہور سے اپنی وفاداری کا ثبوت دیں گے‘دینا بھی چاہیے کیونکہ سب یہی کچھ کرتے آئے ہیں ۔ اب نواب مظفر شہید جیسے کردار سرائیکی علاقوں میں کہاں ملتے ہیں جو رنجیت سنگھ کی فوجوں کے خلاف اپنے سات نوجوان بیٹوں کے ساتھ لڑا اور سب ایک ایک کر کے کٹ گئے لیکن میدان سے نہ بھاگے۔ یہاں تو اب سبھی لوٹ مار میں شامل ہو گئے ہیں۔
جبکہ پرویز رشید سینیٹ میں فنکاروں کے معاوضے کے متعلق ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ علاقے اور زبان کی بنیاد پر ریڈیو پاکستان کسی کے ساتھ امتیاز نہیں رکھتا ۔یوں پہلے سرائیکی کے بڑے شاعر خواجہ فرید کو فنکار ثابت کیا جائے اور پھر شکایت کی جائے کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا ۔ خواجہ فرید اگر ''فنکار‘‘ہوتے تو پھر آج وہ بھی سرکاری ادیبوں اور لکھاریوں کی طرح انعامات اور وزارتوں سے نوازے جاتے۔ 
میرے کالم نگار دوست ارشاد عارف کا شکریہ کہ انہوں نے لاہور میں رہتے ہوئے بھی خواجہ فرید کے نام پر گرفتار ان طالبعلموں کے لیے آواز اٹھائی وگرنہ اب سرائیکی علاقوں سے آئے ہوئے لکھاری بھی ڈر کے مارے اپنے علاقے کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر کچھ نہیں لکھتے ۔ ان خوفزدہ سرائیکیوں کو لاہور میں خوف رہتا ہے کہ پہلے تو وہ تحریر چھپ نہیں پائے گی اور اگر چھپ جائے تو لاہور کے دانشور اور حکمران ایسے کردار کو ففتھ کالمسٹ سمجھ کرذرا اپنے سے دور رکھتے ہیں کہ اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا ۔ 
سرائیکی علاقوں کے ساتھ ایک اور مسئلہ ہے۔ جب بھی بات کریں تو لاہور کے دانشور ہمیں بتاتے ہیں کہ اسے لسانی رنگ دیا جارہا تھا ۔ تاہم یہی دانشور اس وقت خاموش رہتے ہیں جب مسلم لیگ نون اٹھارہویں ترمیم میں صوبہ سرحد کا نام خیبر پختون خوا رکھنے کے حق میں ووٹ ڈالتی ہے۔ اس وقت ان دانشوروں کو ہزارہ کے لوگ شرپسند‘ لسانیت پسند اور متعصب لگتے ہیں۔ ہمیں ڈرایا جاتا ہے کہ آپ نے علیحدہ صوبہ بنالیا تو پھر وہی قریشی اور گیلانی آپ پر حکومت کریں گے۔ بھائی وہ بھلے حکومت کریں جو حکومت آپ لاہور سے کر رہے ہیں‘ اس سے سرائیکی علاقوں کا کیا بھلا ہوا ہے؟ آپ نے بھی تو انہی قریشیوں، گیلانیوں، کھوسوں، لغاریوں کو اپنے ساتھ ملا کر اقتدار میں حصہ دے رکھا ہے اور ان کی مرضی کے تھانیدار تعینات کر کے ان غریبوں کو تھانے میں پٹواتے ہیں جن کے دکھ میں آپ مرے جاتے ہیں۔ 
کیا لاہور نے اس سال این ایف سی سے ملنے و الے سات سو ارب روپوں میں سے سرائیکی علاقوں کو تین سو ارب روپے حصہ دیا ہے ؟ کیا سی سی ایس کے امتحان اور وفاقی حکومت کے کوٹہ میں سے جو پچاس فیصد ملازمتیں ملتی ہیں، ان میں سے بیس فیصد حصہ سرائیکی علاقوں کو ملتا ہے؟ یا پھر پنجاب پبلک سروس کمشن میں ان پس ماندہ علاقوں کے لیے کوئی کوٹہ رکھا گیا ہے؟ حتیٰ کی اس کمشن کا ممبر بھی سرائیکی علاقوں سے نہیں لیا جاتا ۔ اکثر انٹرویوز میں فیل کیے جاتے ہیں۔ یا پھر‘ کیا میڈیکل کالج انٹری ٹیسٹ میں ان علاقوں کے لیے علیحدہ کوٹہ رکھا گیا ہے کہ وہ آپس میں ایک ہزار سیٹوں پر ایک 
دوسرے سے مقابلہ کر لیں؟ اس سال انٹری ٹیسٹ کے نتائج کے مطابق 63 فیصد سے زائد ان طالبعلموں کو داخلہ ملا ہے جن کا تعلق لاہور سے ہے۔ اب بتائیں یہ لاہوری بچے کل کلاں کو راجن پور، صادق آباد، رحیم یار خان یا لیہ میں نوکریاں کرنے جائیں گے ؟ 
جس لغاری، مزاری، کھوسے، قریشی، گیلانی سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے، وہ اگر نواز لیگ میں شامل رہیں تو اچھے ہیں، اگر وہ اپنے حقوق کی بات کریں گے تو پھر وہ انتہا پسند اور ظالم جاگیردار کہلوائیں گے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ سرائیکی علاقوں کی لیڈرشپ نے اپنے لیے کچھ نہیں کیا تو پھر آپ نے وہاں کیا کر لیا؟ کیونکہ این ایف سی کا سات سو ارب روپے تو آپ کو ملتا ہے۔ لگتا ہے سرائیکی علاقے صرف طاقتور کلاس کے لیے زمینیں الاٹ کرنے کے لیے رہ گئے ہیں۔ 
سرائیکی علاقوں کے سیاسی گھرانوں کو سیاسی طاقت سب پارٹیوں نے دے رکھی ہے لیکن کبھی فنانشل پاورز نہیں ملیں ۔ مالی طاقت بیوروکریسی کے پاس ہے جو سنٹرل پنجاب سے آتی ہے نہ کہ سرائیکی علاقوں سے۔ سرائیکی علاقے سے آئے بیوروکریٹ نے اگر ترقی لینی ہے تو ضروری ہے کہ وہ اپنے علاقوں کا استحصال کرے جیسے پنجاب کے چیف سیکرٹری ناصر کھوسہ کرتے تھے جنہوں نے خود ہی ڈیرہ غازی خان کی ان گیارہ استانیوں کو برطرف کیا جو وہاں سات سو نابینا اور معذور بچوں کے سکول میں پڑھاتی تھیں ۔ میں نے ناصر کھوسہ سے لے کر نگران وزیراعلیٰ پنجاب اور دیگر لاہوری بابوئوں تک زور لگا کر دیکھ لیا لیکن وہ بچیاں بحال نہ ہوسکیں کیونکہ لاہور کے بابوئوں کا اعتراض تھا کہ ان کے پاس ان کی تنخواہوں کے لیے سوا لاکھ روپے کا بجٹ نہیں ہے۔آپ خود پتہ کروا لیں کہ سرائیکی علاقوں کے 13 اضلاع میں تعینات ڈی پی اوز اور ڈپٹی کمشنرز کا تعلق کن کن علاقوں سے ہے۔ سب کچھ سامنے آ جائے گا۔ چولستان کے سکولوں کے لیے فنڈز نہیں ہیں لیکن حکمرانوں کے لیے موسیقی کی رات کا انتظام چولستان میں کیا جاتا ہے، لاہور سے فنکار بلائے جاتے ہیں‘ اس کے لیے لاکھوں روپے کا بجٹ موجود ہے۔ 
کسی دن جی چاہتا ہے کہ سینیٹر صغریٰ امام کی وہ تحقیقی رپورٹ آپ کے ساتھ شیئر کروں جو پنجاب میں نیا صوبہ بنانے کے لیے کمیٹی سے متعلق تھی۔ وہ رپورٹ پڑھ کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے کہ سرائیکی علاقوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا ہے اور کیسے ایک زرعی علاقہ اس وقت غربت اور جہالت میں ڈوب گیا ہے اور اب وہاں دہشت گردوں کے اڈے بن گئے ہیں۔ اب اسلام آباد کے ہر تیسرے مزدور، سائیکل او رریڑھی والے کا تعلق ملتان اور بہاولپور کے علاقے سے ہے۔ کبھی بہاولپور ریاست ہندوستان کی امیر ترین ریاستوں میں شمار ہوتی تھی۔یقین نہیں آتا تو سنٹرل پنجاب کے ضلع حافظ آباد کی دھرتی سے اٹھ کر متحدہ ہندوستان میں نام پیدا کرنے والے بڑے صحافی دیوان سنگھ مفتون کی شہرہ آفاق کتاب ''ناقابلِ فراموش‘‘ میں بہاولپور اور اس کے حکمرانوں اور باسیوں کے بارے میں پڑھ لیں۔ 
آج اسی بہاولپور کی حالت یہ ہوچکی کہ پچھلے دنوں قومی اسمبلی میں ایک سوال پوچھا گیا کہ بہاولپور ریڈیو پاکستان کی عمارت گرنے کے قریب ہے، کیا کوئی نئی عمارت بنے گی؟ جواب میں وفاقی وزیراطلاعات نے فرمایا کہ جناب ہمارے پاس فنڈز نہیںہیں ۔ جب آ جائیں گے تو بنا دیں گے۔اس سال لیپ ٹاپ خریدنے کے لیے پچیس ارب روپے کا فنڈ ہے۔ ایک سو ارب روپے کا نوجوانوں کے لیے قرضہ فنڈ ہے لیکن بہاولپور ریڈیو کی عمارت کے لیے کچھ نہیں۔ اب ریڈیوپاکستان بہاولپور میں بیٹھے بابو فرماتے ہیں کہ فنڈز تو ایک طرف یہاں خواجہ فرید کے لیے ایک گھنٹہ کا پروگرام بھی نہیں ہوسکتا اور جو اس پر احتجاج کرے گا‘ نہ صرف پولیس اسے گرفتار کرے گی بلکہ اسے یونیورسٹی سے بھی نکلوایا جائے گا۔ ویسے تو بہاولپور ریڈیو اسٹیشن کے مینیجر کا فارمولہ میرے اور ارشاد عارف پر بھی لاگو ہو سکتا ہے کیونکہ اس احتجاج میں ہم دونوں نے شرکت کر کے گستاخی ہی کی ہے۔ یونیورسٹی کے ان گیارہ طالبعلموں کی طرح میں اور ارشاد عارف بھی خواجہ فرید کے شیدائی ہیں لہٰذا جن الزامات پر وہ گرفتار ہوئے ہیں، وہی الزام ہم پر بھی لگائیں ۔
مجھے اس رویے سے میل گبسن کی فلم Maverick یاد آتی ہے جب ایک کردار کہتا ہے ہم ریڈ انڈین کو کیوں مارتے ہیں تو دوسرا طنزیہ کہتا ہے کیونکہ ریڈ انڈین کو مارنا آسان ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ خواجہ فرید کی دھرتی کے لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جا رہا ہے اور ان میں سے گیارہ کو تو بہاولپور اسٹیشن مینیجر نے جیل بھجوا دیا ہے اور یونیورسٹی سے نکالنے کے لیے کارروائی بھی کی جارہی ہے۔
یہ بات یقینا خطرے سے خالی نہیں ہوگی کہ بہاولپور یونیورسٹی کے ان گیارہ طالب علموں نے ایک پیغام بھیج دیا ہے کہ وہ اب اپنے علاقے، شعراء ، کلچر اور ادب کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک اور فنڈز کی تقسیم میں زیادتیوں پر آواز اٹھانا سیکھ رہے ہیں۔ چاہے میڈیا اور سرائیکی علاقوں کا کرپٹ سیاستدان جس کی وفاداری اپنی مرضی کا تھانے دار تعینات کرانے کے لیے تخت لاہور سے جڑی ہے، ان کا ساتھ دے یا نہ دے !! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں