"RKC" (space) message & send to 7575

ڈگڈگی بجاتے رہو‘ بیوقوف بناتے رہو!!

بیس سالہ صحافتی سفر میں جب بھی کوئی سکینڈل فائل کرنے کاارادہ کیا،کہاگیاکہ آپ کو اس شعبے کی سمجھ نہیں ہے، آپ سے کیابات کی جائے۔
2001 ء میں شوکت عزیر وزیر خزانہ تھے،انہوں نے دوبئی کے ایک شہزادے کا1971ء سے واجب الادا اٹھارہ ارب روپے کا قرضہ معاف کر دیا ۔ شہزادہ بارہ ارب روپے کا سود پہلے ہی معاف کراچکا تھا۔ جس پاکستانی بینک سے یہ قرضہ لیاگیا تھا،اس کی نجکاری کی جانی تھی لیکن اس قرض کا معاملہ طے ہونے تک بات آگے نہیں بڑھ سکتی تھی۔ یہ معاملہ جنرل مشرف کے سامنے لایا گیا توانہوں نے ایک خط دوبئی کے حکمران کو لکھ دیا اورانہیں بتایا کہ آپ کے بھتیجے کے ذمے بینک کے اٹھارہ ارب روپے واجب الادا ہیں۔ شہزادے کو پتا چلا تو اس نے شوکت عزیز سے رابط کیا جو مشرق وسطیٰ میں طویل عرصہ اپنے ایسے کلائنٹس کی خدمت کرتے رہے تھے۔انہوں نے کہا آپ بھول جائیں کہ آپ نے پاکستانی بینک کو اٹھارہ ارب روپے دینے ہیں۔کچھ دن بعد اس بینک سے بریفنگ کا اہتمام کرایا گیا اور جب اس قرضے کی بات آئی تو شوکت عزیز نے فیصلہ کیا کیونکہ یہ ایک کاروباری قرضہ تھا اور کاروبار میں نقصان ہوتے رہتے ہیں لہٰذا اسے ایک کاروباری نقصان سمجھ کر بھول جائیں۔ وزارت خزانہ سے کہا گیاکہ وہ بینک کا یہ نقصان پورا کرنے کے لیے آٹھ ارب روپے ادا کردے جو کر دیے گئے ، رہے نام اللہ کا۔۔۔! 
جب اس سکینڈل کی دستاویزات میرے ہاتھ لگیں تو بہت دبائو ڈالا گیا کہ یہ سکینڈل نہ چھپنے پائے لیکن اخبار کے ایڈیٹر نے دبائو قبول نہ کیا۔ شوکت عزیز سے ان کے دفتر میں ملاقات ہوئی۔ ہر دوسرے سوال کے جواب میں شوکت عزیز کے بجائے وہاں موجود ایک اور صاحب مجھے طنزیہ انداز میں کہتے، چھوڑیں جی آپ کو بینکوں کے مالی امور کے بارے میںکیا پتا۔ میں نے کہا حضرت اس میں کون سی راکٹ سائنس ہے کہ1971ء میں ایک پاکستانی بینک نے دوبئی کے شہزادے کو اٹھارہ ارب روپے کا قرض دیا جو اس نے آج تک واپس نہیں کیا، بینک نے اس پر بارہ ارب روپے کا سود معاف کیا تاکہ اصل زر واپس مل سکے، بعد میں سب کچھ معاف کر کے آپ نے آٹھ ارب روپے وزارت خزانہ سے بینک کو اداکر دیے۔اس طرح کل مل ملا کر 38 ارب کا ڈاکہ پڑا،اس میں نہ سمجھ آنے والی کون سی بات ہے؟انہوں نے پھر طنزیہ کہا، بینکوں کو کاروبارمیں نقصان ہوتے رہتے ہیں۔ میں نے کہا تو پھر یہ بات جنرل مشرف کو بھی سمجھا دیتے تاکہ وہ دوبئی کے امیرکو خط نہ لکھتے۔
ایل این جی کا سکینڈل فائل کیا تو بھی ہر دوسرا وزیر یہی کہتا کہ چھوڑیں جی، آپ کو ایل این جی کا کیا پتا۔ میں کہتا کہ جناب آپ نے ایک عالمی ٹینڈر دیا جس کے جواب میں کچھ عالمی کمپنیوں نے اپلائی کیا، طویل مذاکرات کے بعد ایک امریکی کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہواجو دیوالیہ ہونے کے قریب تھی۔ اس کمپنی نے اپنے ایک سپلائرکا نام دے دیا جس کے ساتھ وزارت پٹرولیم نے بیس ارب ڈالرکی ڈیل کر دی ۔ جن کمپنیوں نے پہلے ٹینڈر میں شرکت کی تھی ان کا نام اس سمری میں نہیں ڈالاگیا جس کی منظوری وزیرخزانہ شوکت ترین سے لی گئی تھی ۔ یوں بیس ارب ڈالر کی ڈیل اس کمپنی کودے دی گئی جس نے کبھی اس بولی میں شرکت ہی نہیں کی تھی۔ اس پر اس کمپنی نے جس کا نام نکال دیا گیا تھا، شوکت ترین کو خط لکھاکہ یہ کیسا فیصلہ کیا گیا ہے ؟ شوکت ترین پریشان ہوئے اور 
انکوائری کرائی تو پتا چلا کہ جس کمپنی کو ان سے ڈیل دلوائی گئی ہے اس نے تو بولی میں شرکت ہی نہیں کی تھی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وزارت پٹرولیم کے ایک اعلیٰ افسر نے مال کمانے کے لیے سب کو اُلو بنایا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس سکینڈل پر نوٹس لیا،ڈیل منسوخ کی اور انکوائری کمیٹی بنادی جس کی سربراہی اس وقت کے سیکرٹری تجارت ظفر محمود نے کی۔انکوائری رپورٹ میں ثابت کیاگیا کہ جی اے صابری گینگ نے مل کر چونا لگایا تھا ۔ سزائوں کے لیے وہ انکوائری رپورٹ وزیراعظم گیلانی کو بھجوائی گئی لیکن حسب روایت و توقع گیلانی صاحب انکوائری رپورٹ پر بیٹھ گئے اور کبھی ایکشن نہ لیا ۔ ایک ٹی وی شو میں پٹرولیم کے وزیرشاہد خاقان عباسی سے بات ہوئی تو وہ حیران ہوئے کہ ایسی کوئی انکوائری بھی ہوئی تھی۔ وہ رپورٹ وزیراعظم ہائوس میں 2010 ء سے خاک چاٹ رہی ہے اور مجھے طعنے ملتے ہیں کہ اگر آپ سکینڈل فائل نہ کرتے تو ملک میں انرجی کا بحران نہ آتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہماری چونچ گیلی ہونے دیں تو بحران نہیں ہوگا وگرنہ ہم ملک کو نہیں چلنے دیں گے۔ 
پچھلے دنوں اپنے دوست ارشد شریف کے دنیا ٹی وی کے پروگرام ''کیوں‘‘ میں نجکاری پر ٹاک شو ہوا جس میں چیئرمین نجکاری بورڈ محمد زبیر بھی تھے۔ جب ان کو بتایا کہ انہوں نے کیسے اپنے سگے بھائی منیرکمال کو ممبر نجکاری بورڈ بنا دیا؟ وہ اس ڈیل میں بیٹھے ہیں جو ان کے سابق بینک کو ملی ہے تو انہوں نے پہلا طعنہ یہی دیا کہ آپ کو کیا پتا کہ نجکاری کیا ہوتی ہے؟حیران ہوا کہ زبیر صاحب آخرکتنے ارب کے اثاثے بیچ کر یہ تجربہ حاصل کر چکے ہیں کیونکہ وہ تو نواز لیگ کے میڈیا ونگ میں ملازم تھے۔ میں نے کہا جناب اس کے لیے کتنے بڑے تجربے یا ڈگری کی ضرورت ہے؟ آپ نے اپنے بھائی کو جو نیشنل بینک کا صدر ہے،کراچی اسٹاک ایکسچینج کابھی صدر ہے اور ایک بینک کا سربراہ رہ چکاہے‘ کونجکاری بورڈکا ممبر بنوادیا جس کے نج کاری کے ساتھ اپنے کچھ مفادات جڑے ہیں۔ نیشنل پاور کنسٹرکشن کی نج کاری ہونی ہے۔ 2011ء میں چھ پارٹیوں نے اپلائی کیا تھا اوراس وقت منیرکمال کے بینک کے ذریعے ہی ساری ٹرانزیکشن ہونی تھی،اب فیصلہ ہوتا ہے کہ چھ پارٹیوں کی پیشکش مسترد کر کے نئی بولی لی جائے، لیکن محمد زبیر فیصلہ صادر فرماتے ہیں کہ بینک وہی رہے گا جس کے صدر اس کے بھائی منیر کمال رہے ہیں۔ یوں ایک کروڑ روپے ماہانہ اس بینک کو فیس ملتی رہے گی، ڈیپازٹ الگ ملے گا۔ زبیرصاحب نے فرمایا کہ ان کے بھائی اس وقت اجلاس سے اٹھ گئے تھے۔ ان کے اٹھ جانے سے کیا فرق پڑگیا ؟کیا ان کے بینک کو وہ ڈیل نہیں ملی؟کیا نئے سرے سے اس طرح بولیاں نہیں منگوائی گئیں‘ جیسے چھ پارٹیوں کے کیس میں فیصلہ ہوا؟
اب وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں لکھ کر دیا ہے کہ منیرکمال کے نیشنل پاور کنسٹرکشن نجکاری میںمفادات ہیں اور وہ نجکاری بورڈ کے ممبر تھے، ایک اہم اجلاس میں شریک بھی ہوئے جس میں یہ ایجنڈا تھا۔ اب بولیں زبیر صاحب!کس کو چونا لگا رہے ہیں یہ دونوں بھائی؟ 
زبیر صاحب کے جب طعنے بڑھے کہ آپ کو کیا علم کہ نجکاری کیا ہوتی ہے تو میں نے کہا حضور پھر آپ بتادیں کہ مردان سے نواز لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن ہارنے والے ارسلان ہوتی نے نجکاری میں ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے کہ اسے نجکاری بورڈ کا ممبر بنایا گیا ہے؟ 
چھوڑیں جی، میں نے آپ کو کن چکروں میں ڈال دیا ہے۔ آپ ذرا سروں سے اخروٹ توڑنے کا عالمی ریکارڈ بنانے پر داد دیں اور وہاں موجود حاضرین کا جوش ملاحظہ فرمائیں کہ کیسے ان سب کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے! آپ میرے دوست سعید قاضی کے اس فقرے پر بھی غور کریں کہ جو کام ایک چھوٹی سی ہتھوڑی سے ہوسکتا ہے اس کے لیے سرتوڑنے کی کیا ضرورت ہے؟
نیا انکشاف سنیں! سٹیٹ بینک کی رپورٹ کہتی ہے کہ ریکارڈ پیمانے پر حکومت نے پاکستانی اور بیرونی ایجنسیوں سے اربوں کھربوں کے قرض لیے ہیں اور مہنگائی کے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں، لیکن پھر بھی اکانومی ترقی کرگئی ہے۔ شاید یہ ریکارڈ معاشی ترقی دکھانے کے لیے پچھلے گورنر یاسین انور تیار نہیں تھے لہٰذا انہیں پاکستان سے مار بھگایا گیا ۔
اگرآپ کو یاد ہو تو اسحاق ڈار کے 1999ء والے دور میں اس طرح کی حرکت سے پاکستان کو 50 ملین ڈالر کا جرمانہ اس بات پر ہوا تھا کہ انہوں نے جھوٹے اعداد وشمار عالمی سطح پر پیش کردیے تھے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ان نئے اعداد وشمار کا جرمانہ کب اور کون ادا کرے گا؟ 
میری قوم کے لیڈرو ! بجاتے رہو ڈگڈگی اور بناتے رہو اس قوم کو بیوقوف‘ ان کے خالی سروں سے اخروٹ تڑوا کے!! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں