حیران ہوں کیا نج کاری کمشن کے سربراہ نے وہ دل دہلا دینے والی رپورٹ خود بھی پڑھی ہے جو سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے لیے تیار کی گئی تھی کہ کیسے پی ٹی سی ایل کو فروخت کیا گیا تھا اور پاکستان کے مفادات کی نگرانی کی بجائے بیرونی پارٹیوں کو سب کچھ ان کی شرائط پر تھما دیا گیا تھا ؟
یا پھر نج کاری کمیشن کے سربراہ کے پاس وقت نہیں رہا کہ وہ ماضی کے اربوں ڈالرز کے سودوں کے بارے میں جان سکیں کیونکہ انہوں نے پی آئی اے سمیت دیگر اہم ادارے فروخت کرنا ہیں‘ جیسے کبھی وزیراعظم شوکت عزیر اور ان کے وزیر نج کاری ڈاکٹر حفیظ شیخ نے مل کر پی ٹی سی ایل کو ایسے بیچا تھا جیسے گائوں کا کمہار اپنی گائے کو بھی نہیں بیچے گا۔
2004ء میں حفیظ شیخ نے اشتہار دیا کہ وہ پی ٹی سی ایل کے 26 فیصد شیئر فروخت کرنا چاہتے ہیں اور پی ٹی سی ایل کا انتظامی کنٹرول بھی اس کمپنی کے حوالے کر دیا جائے گا ۔ 18 پارٹیوں نے اپلائی کیا اور ایک پارٹی کے ساتھ ڈیل کر دی گئی جس نے ایک شیئر کی قیمت 1.96 ڈالر کی پیشکش کی جو اس وقت 117 روپے فی شیئر بنتی تھی۔ 2.5 ارب ڈالرز پر سودا طے ہوا ۔ 20 جون2005ء کو حفیظ شیخ نے نج کاری بورڈ کا اجلاس بلا کر اس ڈیل کی منظوری دے دی اور 30جون 2005ء کو حکومت اور پارٹی کے درمیان معاہدہ ہو گیا۔معاہدے کے تحت دس فیصد ادائیگی کرنی تھی لیکن پارٹی نے نہیں کی اور یوں ستمبر میں وہ معاہدہ ختم ہوگیا ۔
چند دن بعد پارٹی نے حکومتی عہدے داروں پر دبائو ڈلوا کر نیا معاہدہ کر لیا اور اس میں تین نئی شرائط ڈالی گئیں جو سب اس پارٹی کے حق میں جاتی تھیں ۔ نئے معاہدے کے تحت یہ طے ہوا کہ وہ پارٹی پہلے 2.5 ارب کی بجائے 1.4 ارب ڈالر ادا کرے گی اور باقی1.2 ارب ڈالر نو قسطوں میں 2010ء تک ادا کیے جائیں گے۔ دوسری شرط زیادہ خوفناک تھی یعنی چاروں صوبوں میں پی ٹی سی ایل کا جوانفراسٹرکچر کھڑا کیا گیا تھا وہ سارے کا سارا ادارے کے نام پر ٹرانسفر ہوگا۔
نئے معاہدے کے بعد پارٹی نے 1.4 ارب ڈالرز کی ادائیگی فوراً کر دی۔400ملین ڈالرز کی ایک اور قسط بھی ادا کی گئی؛ تاہم جب باقی قسطیں ادا کرنے کا وقت آیا تو اس پارٹی نے کہا کہ وہ اس وقت تک ایک ڈالر بھی نہیں دے گی جب تک سب زمینیں، جائیدادیں، جو صوبوں کی ہیں اور جن پر پی ٹی سی ایل کا انفراسٹرکچر کھڑا ہے، وہ اس کے نام نہیں کر دی جاتیں۔ صوبوں نے انکار کر دیا کہ وہ زمین ان کی ہے وہ کیسے ایک غیرملکی پارٹی کے کنٹرول میں چلنے والی پی ٹی سی ایل کے نام پر ٹرانسفر کردیں ۔ اس کو بنیاد بناتے ہوئے اس غیرملکی پارٹی نے 2007ء کے بعد پاکستان کو ڈالروں کی ادائیگی روک دی۔ اب سات برس گزر چکے ہیں لیکن 800 ملین ڈالرز کی ادائیگی نہیں کی گئی۔ جب بھی کوئی ڈالر مانگنے گیا تو کہا گیا‘ جناب پہلے آپ 3248 جائیدادیں صوبوں سے لے کر ہمارے نام کرائیں‘ پھر ڈالر ملیں گے۔ یوں پاکستان دنیا بھر سے بھیک مانگ کر اپنا کام چلاتا رہا لیکن اس پارٹی نے پاکستان کو ڈالر نہیں دیے حالانکہ یہ ادارہ فروخت ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ اس سے پیسے ملیں گے اور پاکستان کو بھیک نہیںمانگنی پڑے گی۔
پیپلز پارٹی کے دور میں اس معاملے کو دبا دیا گیا کیونکہ سابق صدر آصف زرداری کا اپنا محل دبئی میں ہے اور وہ افورڈ نہیں کر سکتے تھے کہ اس پارٹی پر دبائو ڈالیں کہ وہ آٹھ سو ملین ڈالر مع سود کے پاکستان کو ادا کرے۔ جب اسحاق ڈار کی باری لگی تو یہ بھی دبئی پہنچ گئے اور کہا 800 ملین ڈالر واپس کریں تو انہوں نے کہا حضور آپ پہلے جا کر وہ سب جائیدادیں ہمارے نام کرائیں ۔ ڈار صاحب نے منت ترلے کی کوشش کی تو جواب ملا کہ کاروبار میں ترلے نہیں چلتے۔ ڈار صاحب یہ جرأت نہ کر سکے کہ وہ واپس آ کر شوکت عزیز اور ڈاکٹر حفیظ شیخ کے خلاف نیب کے پاس موجود انکوائری رپورٹ کی بنیاد پر پاکستان کے مفادات کے خلاف نیا معاہدہ کرنے کا مقدمہ کراتے اور ان دونوں کے ریڈ وارنٹ جاری کراتے۔
وزیر خزانہ کو ڈالروں کی تلاش تھی ۔ انہوں نے آئو دیکھا نہ تائو‘ حکم نامہ جاری کیا کہ فوری طور پر صوبوں کے پاس جو بھی جائیدادیں ہیں‘ پی ٹی سی ایل کے نام شفٹ کرنا شروع کریں ۔ صوبوں نے اعتراض کیا کہ جناب وہ قیمتی جائیدادیں کیسے غیرملکیوں کو دے دیں۔ شاہی حکم جاری ہوا کہ وزارت خزانہ آپ کو ان کے پیسے دے گی ۔ یوں وزارت خزانہ نے پاکستانی عوام کی جیب سے ہی ان جائیدادوں کی ادائیگی
شروع کردی۔ اب پتہ چلا کہ 3148 قیمتی جائیدادیں پی ٹی سی ایل کے نام ٹرانسفر ہوچکی ہیں اور چند باقی رہتی ہیں۔ اسحاق ڈار نے دوبارہ دبئی کی فلائٹ لی اور اس پارٹی کے حکام کو فخر سے بتایا کہ جناب مشن مکمل ہوگیا ہے‘ اب تو 800 ملین ڈالر دے دیں۔ حکام مسکرائے اور کہا‘ حضور کاروبار میں ایسی باتیں نہیں ہوتیں۔ ابھی کچھ جائیدادیں رہتی ہیں۔ جب تک 3248 جائیدادیں مکمل ٹرانسفر نہیں کرائیں گے آپ کو ایک ڈالر بھی نہیں ملے گا۔ وزیر خزانہ نے ایک اور چال چلنے کی کوشش کی کہ جن جائیدادوں کا ٹرانسفر باقی ہے ان کے بدلے آپ 40 ملین ڈالر رکھ لیں اور باقی 760 ملین ڈالر دے دیں کیونکہ 3100 سے زیادہ تو ٹرانسفر ہوچکی ہیں۔ جواب ملا کہ ہرگز نہیں۔
وزیر خزانہ وطن لوٹے اور ایک حکم نامہ جاری کیا۔ پتہ چلا کہ فوج کے پاس بھی جائیدادیں ہیں جو پی ٹی سی ایل کے نام ہونی ہیں لیکن فوج تیار نہیں۔ ڈار صاحب نے ہمت نہ ہاری ۔ سندھ اور پنجاب کے وزراء اعلیٰ کو کہا وہ فوراً یہ جائیدادیں ٹرانسفر کریں ورنہ پاکستان دیوالیہ ہوجائے گا۔ اب شہباز شریف اور قائم علی شاہ کے پاس سمریاں پڑی ہیں جن میں تمام جائیدادیں پی ٹی سی ایل کے 26 فیصد مالکان کے نام ہونی ہیں اور ان سے کہا گیا ہے کہ وہ اس پر لگنے والی ڈیوٹی معاف کر دیں تو تیس کروڑ روپے بچ سکتے ہیں۔
آج وزیر خزانہ دن رات جائیدادیں متعلقہ پارٹی کے نام ٹرانسفر کرانے پر لگے ہوئے ہیں ۔ جو صوبہ اعتراض کرتا ہے اس کے نام وزارت خزانہ ہمارے ٹیکسوں سے اکٹھی کی گئی دولت سے ایک چیک کاٹ کر بھیج دیتی ہے۔ صوبے بھی دوسرے دن جائیداد حوالے کردیتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب فوج کو کیسے راضی کیا جاتا ہے۔نیب نے اپنی انکوائری رپورٹ مکمل کر لی تھی اور ایک کیس داخل ہونے والا تھا کہ موجودہ حکمرانوں کی طرف سے کہا گیاکہ جناب کیا کررہے ہیں۔ کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یوں نیب کی کئی صفحات پر مشتمل انکوائری رپورٹ بھی کھو کھاتے چلی گئی ہے۔
یاد رہے کہ یہ وہی ڈاکٹر حفیظ شیخ ہیں جنہیں ہماے تاجروں نے پاکستان کا Man of the Year کا ایوارڈ دیا تھا ۔ موصوف نے Privatization for people کا نعرہ لگایا اور لگتا ہے کہ اس نعرے پر ملک کو بیچ دیا گیا۔ پیپلز پارٹی نے دوبارہ انہیں ترقی دے کر ملک کا وزیر خزانہ لگایا۔ سنا ہے پہلا معاہدہ ہونے کے بعد مذکورہ پارٹی کو مشورہ دیاگیا تھا کہ تم نے کیسی ڈیل کر لی ہے۔ کیوں یک مشت ڈھائی ارب ڈالر پاکستان کو دینا چاہتے ہو۔ قسطیں کرائو اور ساتھ نئی شرط ڈال دو کہ پی ٹی سی ایل کی ملک بھر میں جائیدادیں ان کے نام ٹرانسفر کرائو۔ اس مشورے پر پہلا معاہدہ ختم کرایا گیا اور دوسرا معاہدہ شوکت عزیز سے کرایا۔
خورشید شاہ نے خود پبلک اکاونٹس کمیٹی میں انکشاف کیا کہ پی ٹی سی ایل ہمیں سالانہ ڈیڑھ سو ارب روپے کما کر دے رہا تھا اور ہم نے سالانہ پچیس ارب پر راضی ہوکر اسے بیچ دیا۔ آپ اب بھی جاننا چاہتے ہیں کہ کوہ قاف کے جن اور سامری جادوگر کون تھے‘ جنہوں نے یہ قیمتی مشورے مذکورہ پارٹی کو دیے اور بعد میں ان سے نیا معاہدہ بھی کیا جو پاکستان کے مفادات کے خلاف تھا ؟
اب آپ اتنے بھولے بھی نہ بنیں‘ ہماری دھرتی کوہ قاف کے جنوں اور سامری جادوگروں سے بھری پڑی ہے۔ کس کس کا نام لیا جائے!