ایک ٹی وی شو میں ساتھ بیٹھے سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم کی گفتگو سن کر میں یہ سوچ رہا تھا کہ ہم کیوں کر روتے ہیں کہ ہم کسی اندھے کنویں میں جاگرے ہیں‘ جہاں سے نکلنا اتنا آسان نہیں رہا۔ ایک دوست نے ٹاک شو کے درمیان ٹیکسٹ میسج کر کے پوچھا کہ کیا بات ہے اتنے غور سے ارباب صاحب کو کیوں دیکھ رہے ہو۔ میں نے جواب دیا کہ سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں کہ جو کئی برسوں تک سندھ کے سیاہ و سفید کا مالک رہا‘ وہ کتنا ذہین لیڈر ہے۔
ارباب رحیم کا قصور نہیں۔ یہ جنرل مشرف دور کی بات ہے جو کبھی بھی کریڈٹ لینا نہیں بھولتے کہ ان کے دور میں کتنے ذہین اور اعلیٰ دماغ لوگوں اور لیڈروں کو وہ ڈھونڈ کر لائے تھے جنہوں نے دودھ کی نہریں بہا دی تھیں۔ شوکت عزیز کو بھی یہی ارباب رحیم بہت پیارے تھے کیونکہ انہوں نے تھرپارکر سے انہیں ایم این اے بنوایا تھا۔ اب موجودہ وزیراعظم انہیں دبئی سے بلا کر تھرپارکر لے گئے اور واپسی پر اپنے جہاز میں اسلام آباد لے آئے۔
تو کیا صدر زرداری نے قائم علی شاہ کو چن کر جنرل مشرف اور شوکت عزیز سے کوئی مختلف انتخاب کیا تھا؟ سب کو ارباب رحیم، مہر صاحب اور قائم علی شاہ جیسے ہی سوٹ کرتے ہیں جو عقل کی بجائے زبان سے سوچتے ہوں۔ پھر ایک اور نام ذہن میں آیا کہ بلوچستان کے رئیسانی صاحب تو ان سب سے بازی لے گئے تھے۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہیرے چنے گئے جن کے بارے میں علم بھی تھا کہ یہ سندھ یا بلوچستان جیسے صوبے کو کبھی نہیں چلا سکیں گے۔ ہمارا خیال تھا کہ شاید خیبر پختون خوا کے نوجوان وزیراعلیٰ امیر
حیدر خان ہوتی کچھ بہتر پرفارم کریں گے۔ پتہ چلا کہ ان کے اپنے قریبی عزیز نے چار ارب روپے کے اسلحہ سکینڈل میں ساتھیوں سے مل کر ایک ارب روپے تک رشوت کھائی تھی۔ پچھلے دنوں وہ بھی احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ انہیں علم ہے پہلے کون سا سیاستدانوں کو کرپشن پر سزائیں ہوئی ہیں جو اب ہوں گی۔ ایک نیا کام اُن کے دور میں ہوا کہ اب کی دفعہ کمشن ڈالروں میں اور وہ بھی دبئی میں لیا گیا کہ پاکستانی کرنسی اوربینکوں پر اب پاکستانی لیڈروں کو بھی بھروسہ نہیں رہا۔
پنجاب کے حکمران اس معاملے میں بہتر تھے کہ انہوں نے چن چن کر سرکاری بابو ڈھونڈے جنہوں نے انہیں ایک بات سمجھا دی تھی کہ جو دِکھتا ہے وہی بکتا ہے۔ چھوڑیں پورے پنجاب کو، صرف لاہور پر توجہ دیں۔ لاہور کو ماڈل شہر بنا دیں، باقی 35 اضلاع کے لوگوں کی رالیں ٹپکنا شروع ہوجائیں گی اور وہ بھی بھیڑ بکریوں کی طرح یہ سوچ کر ان کے پیچھے چل پڑیں گے کہ کسی دن چکوال، راجن پور اور بھکر بھی لاہور کی طرح بن جائیں گے۔ یہ اور کہانی ہے کہ کبھی آپ میانوالی سے لیہ تک سڑک کا سفر کرلیں آپ کو پتہ چل جائے گا کہ سڑک کا کیا حشر ہوچکا ہے اور پنجاب کو این ایف سی سے ملنے و الے سات سو ارب روپے میں سے سڑک کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے لیے چند لاکھ روپے بھی نہیں ہیں۔
لاہوری سرکاری بابوئوں نے ایک اور فن میں امتیاز حاصل کیا کہ اب کی مرتبہ انہوں نے اپنے خاندانوں سمیت نواز لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ تنخواہ وہ عوام کے ٹیکسوں سے لیتے ہیں لیکن ذاتی خدمت وہ حکمرانوں کی کرتے ہیں۔ اپنی پوسٹنگ کے لیے وہ کسی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ اس لیے حکمران کہتے ہیں کہ انہیں نوجوان بیوروکریٹس کی ضرورت ہے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ جونیئر ڈی ایم جی افسران کو بڑے بڑے عہدوں پر لگا دیا جائے۔ وہ کبھی بھول کر آپ کے سامنے سر نہیں اٹھا سکیں گے اور ہر وقت اس رومانس میں رہیں گے کہ انہوں نے اپنے دیگر ساتھیوں کو ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا ۔ یوں وہ دور گزر گیا جب کچھ اچھے ڈی ایم جی افسران وزیراعظم تک کے سامنے ڈٹ جاتے تھے اور وزیراعظم ان کی عزت کرتے تھے۔ اب سر جھکا کر جو حکم دیا جاتا ہے اس پر عمل ہوتا ہے۔
یوں بیوروکریسی کو پتہ چل گیا ہے کہ چھوڑیں عوام اور ان کے مسائل کو۔ لیڈروں کے آگے پیچھے پھرو، وہ جیسے کہتے ہیں ویسے کرو۔ لیڈروں نے بھی یہ کام پکڑ لیا ہے اور حیرت ہوتی ہے کہ جب ان سیاستدانوں سے ملتا ہوں اور ان کی صلاحیت اور قابلیت میرے اوپر کھلتی ہے تو منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے۔ جن کو میری باتوں پر شک ہے وہ کسی دن ارباب رحیم، رئیسانی اور قائم علی شاہ سے مل کر دیکھ لیں اور دس منٹ گزارنے کے بعد میں چاہوں گا وہ اپنی رائے دیں کہ ملک کیسے محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
عوام کو اپنی بے بسی کی سمجھ نہیں آرہی کہ انہوں نے ایسے لوگوں کو اپنا لیڈر اور حکمران بنا لیا ہے جو سطحی سوچ رکھتے ہیں۔ ایک دور ہوتا تھا کہ کسی سیاستدان سے مل کر آپ کو نئی چیزوں اور خیالات کا پتہ چلتا تھا۔ ان سے کسی نئی کتاب کا علم ہوتا۔ اب کلرک ترقی کر کے سیکرٹری بن گئے ہیں اور گورننس کا معیار زیرو ہوگیا ہے۔
شاندار افسروں سے یاد آیا کہ پچھلے دنوں ایک فیڈرل پبلک سروس کمشن کے ممبر سے ملاقات ہوئی۔ میں نے کہا‘ حضور یہ پاکستانی طالب علموں کو کیا ہوگیا ہے۔ گیارہ ہزار نے سی ایس ایس کا امتحان دیا اور ان میں سے صرف 238 نے تحریری امتحان پاس کیا جبکہ فیل ہونے والوں میں 23 وہ بھی ہیں جنہوں نے پی ایچ ڈی یا ایم فل کیا ہوا تھا۔ وہ ریٹائرڈ سرکاری افسر مسکرائے اور کہا حضور آپ تحریری امتحان کے نتائج کو رو رہے ہیں‘آپ انٹرویو بورڈ ممبران کی اس اذیت کا اندازہ نہیں کر سکتے جو اس وقت ان سب کو ان تحریری امتحان پاس کرنے و الے 238 طالب علموں کا انٹرویو کر کے ہورہی ہے۔ ایسے ایسے لایعنی جوابات سننے کو مل رہے ہیں کہ ہم سب حیران ہیںکہ ان نالائقوں میں سے کن کو پاکستان کے مستقبل کے بیوروکریٹ منتخب کریں جو اس ملک کو آگے لے جائیں۔ اس دوست نے کہا کہ انہیں ان کاانٹرویو کر کے مایوسی ہوئی ہے کہ تعلیمی معیار اتنا گر چکا ہے‘ آپ لوگ اندازہ نہیں کر سکتے۔
ان سیاسی لیڈروں کو ایک بات سمجھ آگئی ہے کہ اس ملک کے عوام کو ایسے ہی جاہل رکھ کر ان پر حکمرانی کرنی ہے۔ یہ تعلیمی اصلاحات پر یقین نہیں رکھتے۔ پورے پنجاب یا پورے پاکستان میں سے صرف فیصل آباد کا ایک ایم پی اے اعجاز احمد چوہدری نکلا ہے جس نے اپنے بچے سرکاری سکول میں داخل کرا دیے ہیں۔ کیانواز شریف، گیلانی، شہباز شریف، یا سرکاری بابو یا میں خودسوچ سکتا ہوں کہ ہم اپنے بچوں یا اپنے نواسوں پوتوں کو سرکاری سکول میں داخل کروائیں؟
یہ وہ تعلیمی نظام ہے جس میں سے گیارہ ہزار طالبعلم سی ایس ایس کا امتحان دیتے ہیں اور صرف 238 تحریری امتحان پاس کرتے ہیں اور پبلک سروس کمشن کے ممبران حیران کے علاوہ پریشان بھی ہیں اور سر پکڑ کر بیٹھے ہیں ۔
اس رام لیلا سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کیوں اس ملک میں تعلیمی اصلاحات کبھی نہیں ہوں گی۔ سیاستدانوں، بابوئوں اور صحافیوں کے بچے کبھی سرکاری سکولوں میں نہیں پڑھیں گے جہاں اب دھڑا دھڑ طوطے پیدا ہورہے ہیں۔ اگر اس ملک میں بہتر تعلیمی نظام آگیا تو پھر اقتدار کے ایوانوں میں بلوچستان کے رئیسانی سے لے کر سندھ کے ارباب، مہر صاحب، قائم علی شاہ اور حمزہ شہباز یا امیر حیدر ہوتی تک کسی کی جگہ نہیں بنے گی۔ اس لیے ہم لوگ جاہل ہی رہیں گے یا رکھے جائیں گے کیونکہ ہمارے جیسے جاہلوں پر حکومت کرنا ان سیاسی خاندانوں کے لیے ہمیشہ سے آسان رہا ہے !