"RKC" (space) message & send to 7575

سلمیٰ سے کاشف تک: ایک کہانی

اس کالم کوکہاں سے شروع کروں؟ 
یہ بات میں صبح سے سوچ رہا ہوں۔ سوچا بہانہ کر دوں اور آج کالم نہ لکھوں۔ کیا فرق پڑ جائے گا؟ لکھ دیا تو بھی کیا ہوگا؟
شام کے پانچ بجنے والے ہیں اور میں کوشش کر رہا ہوں کالم نہ لکھوں۔ لکھنے کے لیے لیپ ٹاپ آن کرتا ہوں۔ پھر اسے رکھ دیتا ہوں۔ ادھر ادھر وقت گزارنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ بارش میں ویسے ہی میرا کوئی کام کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ جی چاہتا ہے‘ بستر میں لیٹ کر کوئی فلم دیکھوں یا پھر اپنے پسندیدہ ناول نگار کا ناول پڑھوں اور پڑھتے پڑھتے سو جائوں۔ کبھی فلم‘ کبھی کتاب تو کبھی نیند کی کوشش لیکن ابھی تک نہ کوئی فلم دیکھ سکا ہوں، نہ ناول پڑھا گیا اور نہ ہی رضائی میں نیند آئی۔ 
سونے کی کوشش کی تو پشاور کی پانچ بچوں کی ماں سلمیٰ اور حیدر آباد کا کاشف میرے سامنے آ کھڑے ہوئے‘ جن کی کہانی ایک جیسی ہے۔ 
سلمیٰ پچھلے سوموار تک پشاور کے نواحی علاقے میں پانچ بچوں اور اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھی۔ دو لڑکے اور تین بچیاں۔ اسے کئی روز سے دھمکیاں مل رہی تھیں کہ وہ پولیو کی مہم میں شرکت سے باز رہے۔ اب سلمیٰ کیا کرے؟ اس نے پانچ بچوں کی سکول کی فیسیں دینی ہیں۔ کام نہیں کرے گی تو گھر کیسے چلے گا؟ وہ دھمکیوں کی پروا نہیں کرتی۔ اس کے اندر کہیں یہ خیال موجود ہے طالبان ہوں یا کوئی اور‘ اسے نقصان نہیں پہنچائیں گے کیونکہ اسلام میں درخت، بچے اور عورت کو نقصان پہنچانا منع ہے۔ وہ یہ بھول گئی کہ اس سے پہلے بینظیر بھٹو، ملالہ پر حملے ہو چکے ہیں۔ وہ یہ سوچ کر مطمئن تھی کہ دھمکیوں کا مقصد اسے ڈرانے کے سوا کچھ نہیں۔ وہ بچوں کو سلا کر خود بھی سو گئی۔ اس کے بعد بارہ لوگ اس کے گھر کی دیواریں پھلانگ کر اندر داخل ہوتے ہیں۔ وہ اس کے بچوں کو نیند سے جگاتے ہیں اور ان کے ہاتھ پائوں باندھ دیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ سلمیٰ کے خاوند کو باندھتے ہیں۔ وہ تھوڑی سی مزاحمت کی کوشش کرتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے اگر اس نے کوئی حرکت کی تو پانچوں بچوں کو مار دیں گے۔ اب شوہر کیا کرے؟ اپنے بچوں کو بچائے یا پھر بیوی کو جانے دے۔ یقیناً بیوی کو یہ آپشن ملتا تو وہ بھی یہی کچھ کرتی جو اس کے خاوند نے کیا کہ بچوں کی جان بچائی جائے۔ سلمیٰ اپنے خوفزدہ بندھے بچوں پر آخری نگاہ ڈالتی ہے اور بارہ اجنبی مردوں کے حصار میں چلی جاتی ہے۔ وہ مسلح اجنبی جاتے جاتے وہ دس ہزار روپے بھی گھر سے لے جاتے ہیں‘ جو سلمیٰ نے پولیو کی مہم سے کمائے تھے اور بچوں کی سکول فیس کے لیے رکھے تھے۔ 
ایک بچہ جدوجہد سے اپنے ہاتھ چھڑوا لیتا ہے۔ اسے پتہ ہے اس کی ماں کی زندگی خطرے میں ہے۔ وہ سب کے ہاتھ پائوں کھولتا ہے اور پورا گھرانہ شور مچاتا ہے۔ لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔ وہ گلی تک جاتے ہیں اور لوٹ آتے ہیں۔ کسی میں ہمت نہیں کہ وہ ان بارہ مسلح لوگوں کا پیچھا کرے۔ دوسرے کے گھر کو بچاتے ہوئے کیوں وہ اپنے بچوں کو یتیم کریں؟
بچوں کی نیند اڑ چکی ہے۔ وہ ایک کونے میں دبک کر بیٹھے ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ یہ سب کچھ کیا ہو گیا۔ ان کی ماں نے ایسا کیا کر دیا تھا کہ پوری ایک فوج اسے اٹھانے کے لیے بھیجی گئی۔ ان کی ماں کتنی خوفناک مخلوق تھی‘ جس سے ڈر کر بارہ لوگ بھیجے گئے تھے تاکہ کوئی گڑبڑ نہ ہو؟ رات گزر جاتی ہے۔ بچے سو نہ سکے۔ وہ ایک خوف اور امید کے درمیان زندہ تھے۔ کوئی تسلی کام نہیں کر رہی۔ وہ سب ڈرے ہوئے اور خاموش ہیں۔ 
پھر پتہ چلتا ہے کہ سلمیٰ کی لاش مل گئی۔ پہلے اسے رائفلوں کے بٹ مارے گئے۔ پھر چاقو سے اس کے جسم پر زخم لگائے گئے اور آخر پر ایک نہیں، دو نہیں بلکہ درجنوں گولیاں اس کے جسم میں اتار دی گئیں۔ وہ مر گئی تو بھی اس کی لاش پر گولیاں برسانے کا سلسلہ جاری رہا۔ 
جنوں جیت گیا تھا۔ 
عمران خان کہتے ہیں انہیں آج تک اپنی مرتی ماں کی چیخیں نہیں بھولتیں اور ان پانچ بچوں کی ماں اس وقت قتل کی گئی جب وہ اس صوبے پر حکومت کر رہے ہیں۔ 
اب ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ ان پانچ بچوں کے دل و دماغ پر کیا چل رہا ہو گا۔ ایک لحمے میں کیا کچھ ہو گیا تھا۔ وہ بڑے ہوکر نارمل زندگی گزار پائیں گے؟ اپنی ماں کے قاتلوں کو فلمی انداز میں ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے یا پھر ساری عمر ایک صدمے کی حالت میں جیتے جیتے ایک دن مر جائیں گے۔ مر تو شاید وہ اس وقت ہی گئے ہوں گے جب ان کی بے بس ماں کو بارہ بہادر جنگجو باندھ کر لے گئے تھے۔ جینا صرف سانسیں لینے اور روزانہ چند نوالے زہر مار کر لینے کا نام تونہیں ہوتا! 
اب ایک اور سین دیکھتے ہیں۔ 
یہ سندھ کا شہر حیدر آباد ہے۔ ایک انیس سالہ لڑکا کاشف اپنی ماں اور بہنوں کے ساتھ شادی سے لوٹ کر اپنے گھر کی طرف جا رہا ہے۔ راستے میں اچانک عباس سیال‘ برکت لشاری اور کچھ اور لوگ انہیں روک لیتے ہیں۔ وہ لڑکے کو گاڑی سے اتارتے ہیں اور ادھر ادھر دیکھے بغیر اس کی ماں اور بہن کے سامنے گولیاں مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ 
پتہ چلتا ہے کاشف کو ایک بڑے سرکاری افسر کی بیٹی سے محبت تھی۔ افسر کو یہ بات پسند نہ تھی۔ کرائے کے کچھ قاتل کو اس نے ادائیگی کی۔ اس بڑے افسر کی عزت اور کاشف میں سے ایک زندہ رہ سکتا تھا۔ اس افسر نے اپنی عزت کو ترجیح دی۔ افسر کا خیال تھا کہ اسے عزت کی زندگی گزارنے کا حق تھا، جبکہ کاشف کو جینے تک کا بھی حق نہ تھا۔ چلیں روایتی فلموں کی طرح اس نے اپنی بیٹی کو بھی قتل نہیں کیا‘ وگرنہ جہاں کاشف قتل ہو سکتا تھا وہاں بیٹی کو مارنا کون سا مشکل کام تھا۔ اگر آپ کسی دوسرے کے بیٹے کو قتل کر سکتے ہیں تو پھر وہ ہاتھ اپنی بیٹی پر بھی اُٹھ سکتا ہے۔ شاید کسی کمزور لمحے میں اس افسر کے اندر کا باپ جاگ اٹھا تھا۔ دوسرے کے بچے کو قتل کرنا نسبتا آسان کام ہے لہٰذا اس افسر نے بھی آسان کام کو ترجیح دی۔ 
اب ذرا ان دو واقعات کو سامنے رکھیں اور ہمارے اندر چھپے انسان کی نفسیات دیکھیں۔
شاید یہ کام فلموں میں ہی ہوتا ہے۔ اگر ٹارگٹ اپنے بچوں یا فیملی کے ساتھ ہے تو کچھ بھی ہو جائے پولیس اور ہیرو تک اس پر گولی چلاتے ہوئے گریز کرتے ہیں۔ یہاں پانچ بچوں کے سامنے ان کی ماں کو لے جایا جاتا ہے۔ وہ مسلسل تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔ شاید قاتلوں نے کبھی نہیں مرنا لہٰذا وہ سلمیٰ کی لاش پر بھی گولیاں برساتے رہتے ہیں۔ شاید فلمی انداز میں چند بڑھکیں ماری گئی ہوں گی۔ چند نعرے لگے ہوں گے۔ 
یا پھر ان قاتلوں کو دیکھیں جنہیں ایک بڑے افسر نے پیسے دے کر بھیجا تھا۔ انہیں اس سے غرض نہیں کہ ٹارگٹ کون ہے کیونکہ ان کا ٹارگٹ پیسہ ہے جو انہیں مل چکا تھا۔ انیس سال کا بچہ ہے ماں اور بہن کے سامنے تڑپ رہا ہے انہیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ سب مال کما رہے ہیں‘ لہٰذا قاتلوں کو بھی مال چاہیے۔ 
آپ اب بھی پوچھ رہے ہیں میرا کیوں لکھنے کو جی نہیں چاہ رہا۔
چند برس پہلے ایک جاننے والا بس پر سفر کر رہا تھا۔ دشمنوں نے بس رکوائی اور اس پر بس میں ہی گولی چلانے لگے۔ وہ کھڑا ہو کر بولا یہاں گولی نہ چلائو۔ کسی کا باپ، ماں یا بیٹا مارا جائے گا۔ تم نے مجھے مارنا ہے‘ بس سے نیچے اتار لو اور وہاں گولی مارو۔ وہ آرام سے نیچے اترا اور قاتلوں سے کہا کہ اب گولی مارو اوروہ مرگیا۔ 
قاتلوں میں شرم ہوتی تو ڈوب مرتے اور گولی نہ چلاتے۔ سکندر کی طرح اس بہادر دشمن کی عزت کرتے جیسے اس نے پوٹھوہار کے ہیرو راجہ پورس کی بہادری پر کی تھی جو یہ سوچ کر بس سے اتر آیا تھا کہ کہیں کسی کا بے قصور بچہ نہ مارا جائے۔
میرے جیسا ہوتا تو سواریوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتا۔ 
پانچ بچوں کی بہادر ماں سلمیٰ اور کاشف تک کی یہ ایک طویل اداس کر دینے والی کہانی ہے جس کا کوئی انجام نہیں لکھا جا سکتا کیونکہ اب بہادروں اور محبت کرنے والوں کی قدر کرنے والے ہمارے ہاں بھلا بچ ہی کہاں گئے ہیں جو ان دو کرداروں کو زندہ رہنے دیتے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں