سوچتا ہوں 12اکتوبر 1999ء سے لے کر 31 مارچ 2014ء تک کتنا کچھ بدل گیا ہے؟
کولہو کے بیل کی طرح ہم جہاں سے چلے تھے‘ وہیں آ پہنچے ہیں‘ یعنی ایک دائرے میں چل رہے ہیں۔
12اکتوبر کی شام میں میاں نواز شریف حکومت کے ایک اہم عہدے دار کے پاس بیٹھا تھا۔ پتہ چلا جنرل مشرف کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ کہنے لگے: ہماری حکومت کا حال ایک ٹرین کا سا ہے جو اسلام آباد سے لاہور کے لیے روانہ ہو چکی ہے اور سب کو پتہ ہے اس نے کریش ہونا ہے‘ انتظار اس بات کا ہے کہ یہ کہاں جا کر کریش ہو گی، لالہ موسیٰ یا پھر کسی اور سٹیشن پر‘ طے ہے کہ یہ لاہور نہیں پہنچ پائے گی۔ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہا: جلدی سے چائے ختم کریں‘ پیک اپ کا وقت ہو گیا ہے۔ میں حیرانی سے سنتا رہا۔
شام تک صورتحال بدل چکی تھی۔ میاں نواز شریف گرفتار ہو چکے تھے۔
ایک برس گزر گیا تھا۔ شام کے بعد اسلام آباد میں ایک پُراسراریت چھائی ہوئی تھی۔ رات گئے ہمارے اخبار کے دفتر میں یہ پتہ چلنا شروع ہو گیا تھا کہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ کیا ہونے والا ہے؟ کسی کو کوئی علم نہ تھا۔ سب کے شک کی بنیاد ایک جہاز تھا جو ایئرپورٹ پر پارک تھا۔ صبح اخبار پڑھا تو پتہ چلا ایک طیارہ نواز شریف صاحب کو لے کر اڑ گیا تھا۔
نوابزادہ نصراللہ حیرانی کے سمندر میں ڈوب گئے۔ انہوں نے مشکل سے بینظیر بھٹو کو راضی کیا تھا کہ وہ اور نواز شریف مل کر ایک گرینڈ الائنس پر کام کریں اور اس الائنس کو بنے ابھی چند روز ہی ہوئے تھے کہ نواز شریف ڈیل کر کے نکل گئے۔ بینظیر بھٹو نے نواب زادہ صاحب کو احتجاج بھرا فون کیا تو وہ صرف اتنا کہہ سکے کہ انہوں نے اب تک سیاستدانوں سے ڈیل کی تھی، پہلی بار ایک کاروباری ڈیل میں مارے گئے۔ بینظیر بھٹو کو بھی احساس ہوا کہ سیاست ایک دوسرے کو استعمال کرنے کا نام ہے۔ جو پہلے استعمال کر گیا، وہی سکندر۔ لگتا ہے کہ نواز شریف ایک طرف جنرل مشرف سے خفیہ ڈیل کر رہے تھے تو دوسری طرف بینظیر بھٹو کے ساتھ الائنس کی بات بھی مکمل ہو چکی تھی۔ شاید ان کا خیال ہو کہ بینظیر بھٹو دبئی بیٹھ کر انہیں جیل میں بٹھا کر استعمال کرنا چاہتی ہیں‘ لہٰذا بہتر ہے کہ وہ انہیں استعمال کریں۔
اب جنرل مشرف کے پاس دو آپشن تھے۔ وہ نواز شریف کو جانے دیں اور جو دبائو وہ بینظیر بھٹو کے ساتھ مل کر ڈال سکتے تھے اس سے چھٹکارا پایا جائے‘ بینظیر بھٹو بھی نواز شریف کے چلے جانے کے بعد اس قابل نہیں رہیں گی کہ دبئی میں بیٹھ کر اکیلے‘ جنرل مشرف کے خلاف کوئی تحریک چلا سکیں۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے الائنس نے پورے ملک میں ایک نئی جان پیدا کر دی تھی اور سب کو لگ رہا تھا کہ اگر چھ ماہ تک یہ الائنس چلتا رہا تو جنرل مشرف ٹک نہ سکیں گے۔ تمام سیاسی قوتیں نوابزادہ کی چھتری کے نیچے اکٹھی ہو رہی تھیں۔
دوسرا آپشن تھا کہ نواز شریف کو جیل میں رکھیں اور عالمی کے ساتھ ساتھ مقامی مسائل بھی پیدا کریں۔ جب راتوں رات یہ خبر نکلی کہ نواز شریف پاکستان چھوڑ گئے ہیں تو سیاسی ڈپریشن نے پاکستانی سیاست اور میڈیا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ لوگوں کا اعتماد سیاستدانوں سے اٹھ گیا۔ سیاسی قوتیں کمزور ہوئیں اور یوں اگلے سات برس تک اس ملک میں جنرل مشرف کے خلاف کوئی تحریک نہ چل سکی‘ جب تک چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ایک نئی بغاوت کی بنیاد نہ رکھ دی‘ جسے بعد میں بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف دونوں نے آگے بڑھ کر گلے سے لگا لیا۔ اس ڈیل کے ملک پر اتنے بھیانک اثرات مرتب ہوئے کہ سیاسی قوتیں جمع نہ ہو سکیں اور میڈیا کو بھی سیاسی سپورٹ نہ ملنے سے جنرل مشرف نے کھل کر حکمرانی کی۔ اس ڈیل کا فائدہ جنرل مشرف کو ہوا‘ جن کے خلاف سیاسی قوتیں اکٹھی نہ ہو سکیں اور یوں عالمی قوتوں کے پاس بھی اس کے سوا کوئی آپشن نہ رہا کہ وہ جنرل مشرف پر ہی جوا لگا کر کھیلتے رہیں۔ بینظیر ہمیشہ یہ گلہ کرتی پائی جاتی تھیں کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا تھا۔
کئی برس بعد بینظیر بھٹو نے وہی حربہ میاں نواز شریف پر آزمایا اور ان کے ساتھ اتحاد کا دبائو ڈال کر جنرل مشرف کے ساتھ ڈیل کر لی۔ نواز شریف مطمئن تھے کہ بینظیر نے ان کے ساتھ چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کر رکھے ہیں‘ جس میں لکھا گیا تھا کہ کوئی پارٹی جنرل مشرف سے ڈیل نہیں کرے گی۔ بینظیر بھٹو چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کر چکی تھیں اور ان کی جنرل مشرف سے چوری چھُپے ملاقات بھی ہوئی تھی۔ نواز شریف کو ان ملاقاتوں کا علم تھا لیکن وہ جان بوجھ کر اسے ایشو نہیں بناتے تھے۔ مجھے یاد ہے لندن میں نواز شریف کے حامی ہمیں کہتے تھے‘ انہیں علم ہے کہ جنرل مشرف اور نواز شریف میں کوئی ڈیل نہیں ہو سکتی۔ اس بار بینظیر بھٹو کی باری ہے کہ وہ جنرل مشرف سے ڈیل کریں‘ جیسے نواز شریف نے کر لی تھی۔ ان کا خیال تھا اس ڈیل سے بینظیر بھٹو کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا تھا اور اگر ڈیل کامیاب ہو گئی تو اس میں نواز شریف کا بھلا بھی نکل آئے گا۔ اس لیے نواز شریف صاحب نے بینظیر بھٹو سے اس بات پر کبھی کوئی شکوہ نہ کیا۔ باقی جو کچھ ہوا وہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔
پہلے نواز شریف صاحب نے جنرل مشرف سے ڈیل کی، پھر بینظیر بھٹو کی باری لگی اور آج پھر جنرل مشرف کی ڈیل کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ میاں نواز شریف کی ڈیل کے وقت خبریں فوراً سامنے نہیں آتی تھیں کیونکہ ٹی وی چینل ابھی نہیں تھے۔ اگر ہوتے تو وہی سین ہوتا جو اب جنرل مشرف کے ہسپتال سے عدالت جانے اور واپسی تک ہوتا ہے۔ اس وقت ممکن تھا ٹی وی چینل کے کیمرے اٹک قلعے سے لے کر اسلام آباد ایئرپورٹ تک ساتھ ساتھ چلتے‘ جیسے بارات کے ساتھ باراتی۔ نوازشریف کے لیے ایک عرب ملک سے جہاز اسلام آباد ایئرپورٹ پر کھڑا رہا تھا‘ جیسے اب ہمیں بتایا گیا کہ جنرل مشرف کے لیے دبئی سے آیا ہوا ہے۔
کون سا لیڈر ہے جس نے بیماری کا بہانہ نہیں بنایا اور ملک سے باہر نہیں گیا یا ڈیل نہیں کی۔ شاید بھٹو صاحب پہلے اور آخری لیڈر تھے جو ڈیل کر کے ملک سے باہر نہیں گئے۔
بینظیر بھٹو اور بیگم بھٹو بھی کان کے علاج کے لیے ملک سے باہر گئیں۔ میاں نواز شریف کی درخواست پر بھی میڈیکل علاج کا لکھا ہوا تھا۔ شہباز شریف سعودی عرب سے امریکہ علاج کے لیے گئے تھے۔ آصف زرداری بھی 2004ء میں دل کی تکلیف کو بنیاد بنا کر ڈیل کر کے ملک سے نکل گئے تھے۔
اب جنرل مشرف بھی بیمار ہیں۔ پاکستانی لیڈر جب تک اقتدار میں رہتے ہیں وہ بیمار نہیں ہوتے لیکن جونہی جیل نظر آئے تو بیمار ہو جاتے ہیں؛ تاہم جاوید ہاشمی، یوسف رضا گیلانی اور خواجہ سعد رفیق نے بیماری کا بہانہ بنا کر کوئی ڈیل نہیں کی تھی اور جیلوں میں رہے۔
اب آپ بتائیں 12اکتوبر سے اب تک ان چودہ پندرہ برسوں میں کیا بدلا ہے؟۔ وہی میاں محمد نواز شریف اور وہی جنرل مشرف ہیں۔ کل کا قیدی آج وزیر اعظم اور کل کا صدر آج قیدی۔ ان بارہ برسوں میں یہ ضرور ہوا کہ جنرل مشرف نے کئی نئی ارب پتی پیدا کیے۔ کئی لپاڑیوں کی لاٹری نکل آئی۔اس دوران پیپلز پارٹی نے کھل کر لوٹ مار کی۔ سب کو کھلایا۔ اب نواز لیگ کی باری ہے۔ سب کا کام چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔
باقی رہ گئے آپ اور ہم، تو سب کولہو کے بیل کی طرح ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ ان بیلوں کی لگامیں کبھی ایک تو کبھی دوسرے لیڈر کے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔ اب اس کھیل میں انہوں نے عمران خان کو بھی تھوڑا سا حصہ دے کر ساتھ ملا لیا ہے۔
ویسے اگر آپ ناراض نہ ہوں تو ہم سب اپنا نک نیم کولہو کا بیل ہی رکھ لیتے ہیں جو آنکھوں پر تاریک کھوپے چڑھائے دنیا و مافیہا سے بے خبر ایک دائرے میں گھومتا رہتا ہے اور مالک کو اسے چلانے کے لیے چھڑی بھی نہیں مارنی پڑتی۔