امریکہ میںجو بھی ملتا ہے پاکستان کے بارے میں فکرمند نظر آتا ہے۔ میرا واسطہ ان دنوں پاکستانی ڈاکٹروں سے رہتا ہے‘ جن کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے لیکن ان کے اندر بھی بے چینی ہے۔ انہیں لگتا ہے ان کی ترقی اور خوشحالی بیکار ہے کیونکہ ان کا ملک اور لوگ مشکل میں ہیں اور انہیں سمجھ نہیں آتی کہ وہ پاکستان پیسے بھیجنے کے علاوہ کیا کر سکتے ہیں۔
کبھی وہ کسی سے امیدیں باندھ لیتے ہیں تو کبھی ایک اور ٹرک کی بتی کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ اپنے ملک کو درست نہج پر لانے کے لیے کون سی گیڈر سنگھی چاہیے۔ دوسری طرف اسلام آباد دھماکے میں بائیس سے زائد معصوم اور غریب لوگوں کے مارے جانے کے بعد چوہدری نثار علی خان اور رحمن ملک کے مابین سخت لفظوں کے تبادلے کے بارے میں مسلسل سوچ رہا ہوں کہ کون جھوٹا اور کون سچا ہے۔
چوہدری نثار کہتے ہیں یہ سب کچھ رحمن ملک کا کیا دھرا ہے‘ جنہوں نے اپنے دور میں بارہ ارب روپے کے سیف سٹی پروجیکٹ کو تباہ کر کے شہر کا یہ حال کر دیا تھا کہ اس طرح کے دھماکے روکنا ان کے بس کی بات نہیں رہی۔ رحمن ملک کا کہنا ہے‘ اگر ثابت ہو جائے تو وہ پھانسی لگنے کو تیار ہیں۔
یقین کریں میرا جی چاہ رہا ہے کہ یہ پھندا رحمن ملک کی بجائے پوری قوم کو لگایا جائے‘ جس کے ساتھ یہ گھنائونا مذاق کیا جا رہا ہے۔
چوہدری نثار علی خان اب بھی ڈنڈی مار رہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ایک بیکار سکینر‘ جو چین سے رحمن ملک کے دور میں منگوایا گیا تھا‘ ایک ارب روپے کا پڑا۔ جہاں تک میری معلومات ہے‘ یہ ایک ارب پچاس کروڑ روپے کا پڑا تھا۔ کل چار سکینر منگوائے گئے تھے۔ بدلے میں متعلقہ کمپنی کو تقریباً سات ارب روپے کی ادائیگی کی گئی تھی۔ یہ بوگس سکینر آج بھی دھول چاٹ رہے ہیں۔ مجھے سابق وزیر داخلہ کی کبھی سمجھ نہیں آئی کہ وہ اس بارہ ارب روپے کے منصوبے کو کس طرح چلانا چاہتے تھے۔ پہلے انہوں نے اس کی لاگت ساڑھے چودہ ارب روپے رکھوائی لیکن جب راز کھلا کہ اس میں سے بیس ملین ڈالر کا کمشن کھایا جا رہا ہے‘ تو کم کر کے بارہ ارب روپے کا کر دیا گیا۔ رحمن ملک اور ان کی پارٹی نے سارا ملبہ عدالت پر ڈال دیا تھا کہ اس نے یہ منصوبہ روک دیا اور کہا تھا کہ دوبارہ اس کا ٹینڈر جاری کیا جائے۔ تو کیا عدالت کو چار سال سے بلیک میل کیا جا رہا ہے کیونکہ اس نے دوبارہ ٹینڈر کا حکم دیا تھا۔
کوئی رحمن ملک سے پوچھے کہ انہوں نے کیسے متعلقہ کمپنی کو سات ارب روپے کی ادائیگی کر دی جبکہ پاکستان کو صرف چار سکینرز ملے اور وہ بھی بیکار نکلے تھے؟ عدالتی انکوائری کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ رحمن ملک کو سچا یا جھوٹا ثابت کرے۔ آپ کسی اور سے بھی پوچھ سکتے ہیں کہ ان سکینرز کے لیے ادائیگی کس کے دور میں ہوئی تھی۔ سوال یہ ہے کہ جب چیئرمین نیب کو علم ہے کہ کس نے اس ملک کو لوٹا‘ تو پھر وہ کیوں انتظار کر رہے ہیں؟
اسی طرح موجودہ وزیر داخلہ سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کہیں بھی دھماکہ ہو تو وہ سارا ملبہ رحمن ملک پر ڈال دیتے ہیں اور میرے خیال میں درست ڈالتے ہیں تو پھر وہ ذرا یہ تو بتائیں کہ ڈیڑھ ارب روپے کا ایک سکینر خریدنے پر انہوں نے رحمن ملک کے خلاف کیا کارروائی کی۔ جن لوگوں نے متعلقہ کمپنی کو سات ارب روپے کی ایڈوانس ادائیگی کی، ان کے خلاف کیا کیا گیا؟
کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اگر وفاقی دارالحکومت میں لوگ نہ مریں تو پھر کسی غیرملکی کمپنی کا پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ مل کر دولت ہڑپ کرنا جائز ہے اور اگر دھماکہ ہو جائے تو پھر سات ارب روپے کے بوگس سکینرز خریدنے کا بہانہ بنا کر اپنی جان بچا لی جائے؟ جب اس ملک میں رواج بن چکا ہے کہ 'کسی کو کچھ نہیں کہا جائے گا‘ تو پھر کیوں روتے ہیں؟ میں اس گفتگو کا گواہ ہوں جو ایک معروف صحافی اور وزیر اطلاعات کے مابین ہوئی تھی۔ جب صحافی نے پوچھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ لوٹ مار جاری ہے، سلسلہ وہیں سے شروع ہوا ہے جہاں سے پچھلی حکومت چھوڑ کر گئی تھی‘ آپ لوگ تو دعویٰ کرتے تھے کہ زر بابا اور ان کے چالیس چوروں کو لٹکایا جائے گا لیکن یہاں تو ایک دوسرے کو جپھیاں ڈالی جا رہی ہیں؟۔
وزیر اطلاعات نے جو جواب دیا‘ میں اس کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ انہوں نے چڑچڑے انداز میں کہا: ''آپ چاہتے ہیں کہ ہم کرپشن کے خلاف کارروائی کر کے ایک اور محاذ کھول لیں۔ ہمارے پاس پہلے ہی کرنے کو بہت کام ہیں‘ آپ ہمیں اس طرف نہ لگائیں۔ ہاں اگر آپ کو کرپشن سے زیادہ تکلیف ہو رہی ہے تو اپ اپنی پارٹی بنا لیں، لوگوں سے ووٹ لے کر جو جی چاہے کر لیں‘‘۔
میں ایک صدمے کی سی کیفیت میں وزیر اطلاعات کی گفتگو سنتا رہا۔ یہ وہی صاحب تھے، لندن میں جن کی گفتگو سن کر ہمارا اس سسٹم کے خلاف بغاوت کو جی کرتا تھا اور اب وہی یہ کہہ کر کرپشن کا دفاع کر رہے تھے کہ جس کو اعتراض ہے وہ اپنی پارٹی بنا لے اور عوام سے ووٹ لے لے۔ ان کے دور میں ہی سولہ کروڑ روپے کا ریڈیو سکینڈل آیا جسے وہ خاموشی سے پی گئے کہ لوٹ لو جس نے لوٹنا ہے۔ سیاستدان ہمیشہ جیب میں ہاتھی کے دانت لے کر چلتے ہیں۔ موقع کی مناسبت سے اس سے کہیں کھانا کھا لیتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ہمیں چڑا بھی دیتے ہیں۔
کبھی کبھی میں حیران ہوتا ہوں کہ ہم صحافی کیوں عبداللہ کی طرح پرائی شادی میں بیگانے ہو جاتے ہیں۔ وزیر اطلاعات درست ہی کہتے ہیں کہ عوام اگر ہماری ان خبروں، سیکنڈلز اور تبصروں سے اتنے متاثر ہوتے ہیں‘ تو ہم ان سے ووٹ لے کر کیوں اقتدار میں نہیں آتے اور ان کے مفادات کا تحفظ کیوں نہیں کرتے؟
ویسے کبھی عوام اور ان کے لیڈروں نے سوچا ہے کہ صحافی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ان کے مفادات کا تحفظ کرنے کی ان سے کیا قیمت وصول کرتے ہیں؟ کیا حکمرانوں کی طرح صحافی عوام کے ٹیکسوں سے ہر ماہ کوئی تنخواہ لیتا ہے؟ صحافی ریاست کو ٹیکس دیتے ہیں لیکن ریاست سے کوئی تنخواہ نہیں لیتے‘ جیسے سیاستدان لیتے ہیں اور دعوے فرماتے ہیں کہ وہ عوام کے دکھ میں مررہے ہیں۔ ٹیکس دینے کی باری آتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ سیاسی نمائندے ٹیکس دینے کو تیار نہیں ہیں۔ جن کی جائیدادوں کی تفصیلات پڑھتے پڑھتے آپ کا سانس پھول جائے گا، وہی چند ہزار روپے بھی ٹیکس نہیں دیتے۔ یقین نہیں آتا تو کسی دن الیکشن کمشن کی ویب سائٹ پر جا کر چند سیاست دانوں کے گوشوارے پڑھ لیں۔ اگر پھر بھی یقین نہ آئے تو یہ تفصیلات پڑھ لیں کہ بیٹے کو 41 کروڑ روپے کا قرض حسنہ دینے کا لاجواب آئیڈیا کیسے وزیر خزانہ کے ذہن میں آیا اور یہ بھی نہیں سوچا کہ اگر پاکستان کے سب لوگوں نے اپنے گوشواروں میں اپنے اپنے بیٹوں کو قرض حسنہ دے کر ٹیکس بچانا شروع کر دیا تو ملک کہاں جائے گا؟
یہ بات اکثر سمجھ میں نہیں آتی کہ کیا پاکستانی سیاستدان ہم پر احسان کرتے ہیں کہ ہم انہیں اپنی زندگیوں پر راج کرنے کا حق دیتے ہیں اور وہ بے چارے بڑی مشکل سے راضی ہوتے ہیں کہ انہیں یہ سب عہدے قبول ہیں لہٰذا اب انہیں کھل کر کھیلنے کا موقع نہ دیا گیا تو وہ ناراض ہو جائیں گے؟
سیاستدان ناراض ہوں یا راضی‘ ان کے چاہنے والے ضرور ناراض ہو جاتے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اور ان کے لیڈر بھی اب سیاسی پیروں کا روپ دھار چکے ہیں۔ کسی کے بارے میں بات کر کے دیکھیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ ان کے سیاسی مرید آپ کا کیا حشر کرتے ہیں۔
یوں پیر کے دیہاتی مرید سے لے کر شہری بابوئوں تک سب اپنے لیڈروں کا کہا سنا حرف آخر سمجھتے ہیں تو پھر کیوں میڈیا ان لوگوں کی جنگ لڑتا ہے؟ جو کام عمران خان کی پارٹی کو کرنا چاہیے تھا وہ میڈیا کر رہا ہے کیونکہ عمران نے ہی لوگوں کو امید دلائی تھی کہ وہ ان سے مختلف ہے اور انہیں ملک کو نہیں لوٹنے دے گا۔
پھر کیا ہوا؟
ماسوائے اسد عمر، عارف علوی اور شازیہ مری کے، مجھے پارلیمنٹ میں کوئی بھی نظر نہیں آتا‘ جو کچھ کام کر رہا ہو۔ سب تنخواہیں لے رہے ہیں، الائونسز کی بھرمار ہے، مفت پی آئی اے کے ٹکٹ وصول کر رہے ہیں ۔ اگر کوئی بھولا بھٹکا کوئی سوال پوچھ لے تو اس کی خیر نہیں۔ عوام کے اپنے لیڈروں کو دیے گئے اس درجہ نے ہی اس ملک کو اس حالت تک پہنچا دیا ہے کہ اب اسی شہر میں غریب دیہاڑی دار مارے جائیں تو بھی ہم سے یہ فیصلہ نہیں ہو پاتا کہ کون ذمہ دار اور کون جھوٹا ہے۔
جن لوگوں کو جیلوں میں ہونا چاہیے تھا‘ وہ ٹی وی پر ماہر بن کر بڑھکیں مارتے ہیں۔ یہ جھوٹے لیڈران جس شان سے جھوٹ بولتے ہیں‘ اس کی وجہ سے تو میںانہیں سچا اور اپنے آپ کو جھوٹا سمجھنے لگا ہوں۔
اس لیے چوہدری نثار صاحب اوررحمن ملک صاحب! آپ دونوں اپنی اپنی جگہ سچے ہیں، بلاشبہ جھوٹے ہم ہی ہیں اور نالائق بھی۔ آپ اپنی لچھے دار باتوں سے ہمیں ماموں بناتے رہیں کیونکہ ہم بننے کو تیار ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ آپ بہت چالاک ہیں بلکہ دراصل ہم ہی بیوقوف ہیں!