امریکہ میں بھی سکینڈلز نے میرا پیچھا نہیں چھوڑا ۔ لگتا ہے کسی دل جلے نے بددعا دی تھی کہ ساری عمر اس ملک کو لوٹنے والوں کی کہانیاں لکھ لکھ کر جلتے اورکڑھتے رہنا، لہٰذا یہاں بھی ایک سکینڈل کا بندوبست ہوگیا ہے۔
2000 ء میں جب جنرل پرویزمشرف کے مارشل لاء کا آغازتھا، وزارت خزانہ نے ایک مراسلہ جاری کیاجس میں بتایا گیا تھاکہ صدرمملکت کن حالات میں ہنگامی بنیادوں پر کن لوگوںکو عطیات دے سکتے ہیں یارقوم خرچ کر سکتے ہیں۔اس مراسلے کے مطابق صدر پاکستان ان شہریوںاور تنظیموں کو مالی امداددے سکتے تھے جنہیں سرکاری طور پر کوئی گرانٹ نہیں ملتی؛ ان میں بار ایسوسی ایشنیں، سکول ،کلب، چیرٹی کے اداروں کے علاوہ غریب اور یتیم لوگ شامل تھے۔دستاویزات خاموش ہیں کہ جنرل مشرف نے اس مد میں کروڑوں روپے کہاں خرچ کیے؛ تاہم پتا چلا ہے کہ سابق صدرآصف زرداری اور ان کے قریبی ساتھیوں نے اس مراسلے اور اس کے تحت مخصوص فنڈسے خوب فائدہ اٹھایا۔
ایوان صدر سے وزارت خزانہ کوخط لکھاگیاکہ صدرمملکت کو غربامیں تقسیم کرنے کے لیے فنڈ درکار ہے؛ چنانچہ بھاری رقوم ایوان صدرکے بجٹ میں ڈال دی گئیں۔اب پتا چلا ہے کہ وہ رقوم غریبوں میں تقسیم کرنے کے بجائے ایوان صدر میں بیٹھے ہوئے بڑے بڑے عہدیداروں نے خود ہڑپ کر لیں ، مالیت 14 کروڑ روپے بتائی گئی ہے۔
دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ یہ بھاری رقوم لینے والوں میں اس وقت کے وفاقی محتسب سلمان فاروقی کا نام سب سے اوپر ہے۔ وہ اس سے قبل ایوان صدر میں سیکرٹری جنرل تھے۔ جب غریبوں میں یہ رقوم تقسیم کرنے کی بات ہوئی تو مبینہ طور پر سلمان فاروقی نے کہاکہ ان پیسوں کا ان سے زیادہ مستحق کون ہوسکتا ہے۔ انہوں نے ایک نیا طریقہ نکالتے ہوئے 19اکتوبر 2012ء کو عیدالفطر بونس کے نام پردس لاکھ روپے خود رکھ لیے۔ صرف چھ دن بعد عیدالاضحیٰ منالی اوردس لاکھ روپے کادوسرا تحفہ وصول کرلیا۔ ایک ماہ بعد ڈی سمٹ کے نام پردس لاکھ روپے مزید لے لیے۔ ابھی مزید حرص باقی تھی؛ چنانچہ اپریل 2013ء میں انہوں نے غرباء کے فنڈ سے بارہ لاکھ روپے اور لے لیے۔ یوں سلمان فاروقی نے اکتوبر 2012ء سے اپریل 2013ء تک صرف سات ماہ میں 42 لاکھ روپے اپنی جیب میں ڈال لیے۔
سپیشل سیکرٹری آصف حیات ملک کو جوبعد میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین بنے،اس لوٹ مار کاعلم ہوا تو انہوں نے بھی غریبوں کے فنڈ سے عیدالفطر پر سات لاکھ روپے کی پہلی قسط وصول کرلی، چھ روز بعد سات لاکھ روپے عیدالاضحیٰ کے عیدی کے طور پر لے لیے ۔ بعد میں ڈی سمٹ کے نام پربھی چھ لاکھ روپے بٹورے۔ یوں انہوں نے 26 لاکھ روپے غریبوں اور یتیموں کے فنڈ سے لیے۔ یہ خبر ایوان صدر میں پہنچی توعام لوٹ مار شروع ہوگئی۔ سب نے درخواستیں اٹھائیں اورقطار بنا کر غریبوں کے فنڈسے اپنا اپنا حصہ بقدر جثہ لینے لگے۔ پھر۔۔۔۔۔ نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز !
سلمان فاروقی اور آصف حیات کے بعد لیگل کنسلٹنٹ نے کہاکہ وہ اس وقت تک ان رقوم کوقانونی درجہ نہیں دیں گے جب تک ان کا منہ بھی نہ بھراجائے؛ چنانچہ انہیں بھی 26 لاکھ روپے سے نواز دیاگیا۔ ایڈیشنل سیکرٹری کوغریبوں کے فنڈ سے 17 لاکھ روپے ملے۔ ڈائریکٹر جنرل ایوان صدرکو 20 لاکھ روپے کی عیدی ملی۔گریڈ 19کے افسروں کوعیدی کے نام پر 85 لاکھ روپے ملے جبکہ گریڈ18کے افسروں کو 43 لاکھ روپے کی عیدی دی گئی ۔گریڈ 17کے افسروں کو14لاکھ روپے، گریڈ 16کے ملازمین کو92 لاکھ روپے اور گریڈ ایک سے پندرہ تک کے اہلکاروں کو بیس لاکھ روپے دیے گئے۔ اس کے علاوہ نامعلوم ''دوسروں‘‘ (others) کے نام پر17 لاکھ روپے ہڑپ کیے گئے۔
جب صدر زرداری کے پرسنل سیکرٹریٹ کے افسروں کو پتا چلا کہ پبلک سیکرٹریٹ کے افسروں نے لوٹ مارکی ہے تو انہوں نے احتجاج کیااور دھمکی دی کہ ان کا پیٹ نہ بھراگیا تو وہ '' رولا ‘‘ ڈال دیں گے۔ سلمان فاروقی اور آصف حیات نے ان کا منہ بندرکھنے کے لیے فوری طور پرگریڈ ایک سے 20 تک کے افسروں میں 81 لاکھ روپے تقسیم کردیے۔ گریڈ 20 کے افسروں نے 26 لاکھ روپے ،گریڈ19 کے افسروں نے 47 لاکھ روپے، گریڈ 18والوں کو 66 لاکھ ، گریڈ17کو 16 لاکھ، گریڈ16 کو 38 لاکھ جبکہ گریڈ ایک سے15 تک والوں کو61 لاکھ روپے غریبوں کے فنڈ سے بانٹے گئے۔
سب سے دکھ بھری داستان یہ ہے کہ سلمان فاروقی کا عہدہ وفاقی وزیرکے برابر تھااور وہ ایوان صدر میں آنریری سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز تھے۔کیا ایک وزیرکو زیب دیتا ہے کہ وہ غریبوں اور چیرٹی کے اداروں اور سکولوں کے لیے مختص بجٹ میں سے 42 لاکھ روپے وصول کرلے؟یہ سب افسران جنہوں نے عیدیوں کے نام پر14کروڑ روپے ہڑپ کیے، رقوم حاصل کرنے کا یہ جواز پیش کررہے ہیں کہ اس مراسلے کی ایک شق میں یہ بھی لکھا ہے کہ صدر پاکستان چاہیں تو سول سرونٹس کو بھی عطیات دے سکتے ہیں، لہٰذا یہ عطیات اور عیدی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے دی گئی تھی ۔گویا وفاقی وزیرکے عہدے پر فائزسلمان فاروقی بھی سول سرونٹ تھے!!
یہ سکینڈل سامنے آیا توکوششیں شروع ہوگئیں کہ کسی طرح 14کروڑ روپے کی اس لوٹ مارکو چھپا لیا جائے۔ راتوں کی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور ترلے منتوں کے بعد یہ طے پایاکہ جو لوٹ مار ہونی تھی ہوچکی، لیکن دو بڑوں کو معاف کر دیا جائے،آئندہ ایوان صدر سیکرٹریٹ میں ایسا کوئی کام نہیں کیا جائے گا۔یہ بھی طے پایا کہ اگرایوان صدر مستقبل میں عیدی کے نام پر''مال پانی‘‘ مانگے گاتو وہ فنانس ڈویژن فراہم کرے گا۔گویا عیدیوں کا سلسلہ چلتا رہے گا لیکن اس کاعنوان بدل دیا جائے گا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل سلمان فاروقی نے اپنی بیگم کے بیرون ملک علاج کے لیے سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سے 40 لاکھ روپے لیے تھے۔ فاروقی صاحب آج کل غریب لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کے لیے وفاقی محتسب کے عہدے پر براجمان ہیں، وہ غریب لوگ جن کے فنڈز وہ پہلے ہی کھا چکے ہیں۔
آصف حیات ملک آج کل ہمیں اچھے اور نیک بیوروکریٹ چن کر دے رہے ہیں۔ وہ امیدواروں کا انٹرویوکرتے ہوئے یہ اندازہ لگانے کا ضرور اہتمام کرتے ہوں گے کہ وہ غریبوں کے فنڈز سے رقوم نکال کرذاتی اکائونٹ میں ڈالنے کاقانونی طریقہ اختیارکرنے کا فن کتنا جانتا ہے۔
آئیں، آپ اور میں ہی شرم سے ڈوب مریں کہ ہماری قسمت میں ایسے ایسے لوگ لکھ دیے گئے ہیں جو ہمارے ٹیکسوں سے اکٹھی کی گئی دولت غریبوں کا نام استعمال کر کے صرف چھ دن کے اندر عیدی کے نام پر لوٹ کرانصاف دینے کی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں ! پرندے اور انسان صبح گھر سے اپنے بچوں کے لیے کمانے کے لیے ایک ساتھ نکلتے ہیں ۔ خوش قسمت ہوں گے وہ پرندے اور انسان جو شام کو اپنے خون پسینے اور حلال کی کمائی لاتے ہوں گے، وگرنہ یہاں تو دوزخ کے سوداگروں کا راج ہے۔
اب جنت کس بیوقوف کو چاہیے !