"RKC" (space) message & send to 7575

جھوٹ کے پائوں ہوتے ہیں!

نذیر ناجی صاحب کے کالم میں موجود حقائق پڑھ کر صدمے کا شکار ہوں؛ چونکہ ناجی صاحب اس واقعہ کے عینی شاہد ہیں لہٰذا انہیں جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا۔ 
مجھے اپنے بیوقوف بننے پر افسو س ہورہا ہے اور داد دینے کو جی چاہ رہا ہے چوہدری نثار علی خان کو جنہوں نے 2003ء میں مجھے جو کہانی سنائی تھی‘ اُسے میں دس برس تک درست سمجھتا رہا۔ ناجی صاحب اپنے تازہ کالم میں لکھتے ہیں: جنرل مشرف کو برطرف کرنے کے منصوبے میں میاں محمد شریف مرحوم سے لے کر نواز شریف‘ شہباز شریف اور حسین نواز سب شامل تھے۔ جب کہ مجھے چوہدری نثار علی خان نے 2003ء میں جو کہانی سنائی تھی وہ یوں تھی: اپنی کتاب لکھنے کے لیے چوہدری نثار سے ملا تو پہلا سوال یہی کیا تھا کہ کیا نواز شریف نے جنرل مشرف کو برطرف کرنے سے پہلے ان سے مشورہ کیا تھا۔ چوہدری نثار فوراً سنجیدہ ہوکر بولے کاش! وہ مجھ سے اور شہباز شریف سے مشورہ کرلیتے تو شاید ان سب کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ ان کا کہنا تھا‘ بارہ اکتوبر کے دن وہ وزیراعظم ہائوس میں شہباز شریف کے ساتھ موجود تھے بلکہ وہ ساتھ والے کمرے میں سو رہے تھے۔ شہباز شریف بھی وہیں سو رہے تھے۔ انہیں پتہ نہیں تھا کہ نواز شریف اور باقی لوگ کس منصوبے پر کام کر رہے تھے ۔ شام پانچ بجے وہ اٹھے تو انہوں نے ٹی وی لگایا تو اس پر خبر چل رہی تھی کہ جنرل مشرف کو برطرف کر کے جنرل ضیاء بٹ کو آرمی چیف لگادیا گیا ہے۔ چوہدری نثار کے بقول انہوں نے فوراً شہباز شریف کو جگایا کہ میاں صاحب نے کیا کر دیا۔ شہباز شریف بھی بڑے ناخوش ہوئے کہ بھائی صاحب نے کیا کر دیا اور ان سے مشورہ تک نہیں کیا۔ دونوں اپنے کمرے سے اٹھ کر وزیراعظم کے پاس چلے گئے جہاں سب لوگ موجود تھے اور پوچھا‘ میاں صاحب! ہم سے کیوں نہیںپوچھا گیا تو نواز شریف نے جواب دیا کہ اگر آپ سے مشورہ کرتے تو شاید آپ‘ مجھے جنرل مشرف کو برطرف کرنے سے روک دیتے۔ میں نے چوہدری نثار علی خان پر اپنی کتاب ''ایک سیاست‘ کئی کہانیاں‘‘ میں تفصیل سے یہ پورا واقعہ لکھا ہے کہ کیسے چوہدری نثار بڑے اعتماد سے مجھے بتا رہے تھے کہ انہیں اور شہبازشریف کو علم نہ تھا اور وہ دونوں اس وقت وزیراعظم ہائوس میں سو رہے تھے جب جنرل مشرف کو برطرف کیا جارہا تھا۔ 
اب میں برسوں بعد ناجی صاحب کا کالم پڑھ کر کچھ اندازہ لگا سکتا ہوں کہ دراصل چوہدری نثار نے مجھ سے یہ جھوٹ کہ ''شہباز شریف سو رہے تھے‘‘ اس لیے بولا تھا کہ وہ 2003ء میں جنرل مشرف کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ اور شہباز شریف ان کی برطرفی کے حق میں نہیں تھے‘ لہٰذا وہ ان سے صلح کر سکتے ہیں۔ انہی دنوں یہ کہانی بھی چل رہی تھی کہ جنرل مشرف شہباز شریف کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں لیکن نواز شریف انہیں اجازت نہیں دے رہے۔ چوہدری نثار اپنے اس انٹرویو میں ایک تیر سے کئی شکار کر رہے تھے۔ بھلا یہ کیسے مانا جا سکتا ہے کہ چوہدری نثار اور شہباز شریف وزیراعظم ہائوس میں موجود ہوں لیکن ان دونوں کو ٹی وی کی خبروں سے پتہ چلے کہ آرمی چیف برطرف ہوچکے ہیں۔ جنرل افتخار علی خان چوہدری نثار کے بھائی ہیں جنہوں نے جنرل مشرف کی برطرفی کا نوٹیفکیشن تیار کیاتھا۔ یقینا انہوں نے چوہدری نثار کو بتایا ہوگا کہ کیا ہونے والا ہے؛ تاہم یہ وہ جھوٹ تھا جو چوہدری نثار نے مجھے سنایا تھا جو بعد میں انگریزی اخبار میں چھپا اور مقصد یہی تھا کہ جنرل مشرف سے کچھ رعایتیں لی جائیں‘ جن کی وجہ سے نواز شریف ان سے پہلے ہی ناراض تھے۔ انہی دنوں میاں نواز شریف اور چوہدری نثار کی لڑائی اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ چوہدری نثار نے نواز شریف کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی جوائن کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور ان کی بینظیر بھٹو سے خفیہ بات چیت ہورہی تھی ۔ اس خفیہ بات چیت میں دو خواتین یا سہیلیوں کا اہم کردار تھا۔ اس دوران شہباز شریف کو جدہ میں پتہ چلا تو انہوں نے چوہدری نثار کی منتیں کر کے انہیں روکا۔ 
نواز شریف کی چوہدری نثار سے ناراضگی کی کئی وجوہ تھیں۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ جنرل مشرف کی سفارش چوہدری نثار نے کی تھی اور اسی جنرل نے نواز شریف کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا تھا ۔ شاید نواز شریف اسے بھی برداشت کر جاتے لیکن پھر سب حیران ہوئے جب باقی قیادت کو تو جیل میں ڈالا گیا لیکن نثار علی خان اپنے گھر پر نظر بند رہے۔ شاید بہت کم لوگ مانیں گے کہ کلثوم نواز اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان بول چال تک نہ تھی کیونکہ کلثوم نواز کو بھی یہ گلہ تھا کہ جنرل مشرف نثار پر کیوں مہربان ہیں جبکہ باقی قلعے میں قید ہیں۔ کلثوم نواز نے ہی نواز شریف کو اٹک قلعے میں بتایا تھا کہ چوہدری نثار کو اکثر اپنے گائوں چکری جاتے دیکھا گیا تھا جس کا مطلب تھا کہ وہ جنرل مشرف سے براہ راست (ڈائریکٹ) ہو چکے 
تھے اور نظر بندی محض ایک بہانہ تھی۔ اس لیے جب چوہدری نثار رہا ہوئے تو انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے سب سیاستدانوں کا نام لے کر شکریہ ادا کیا لیکن نواز شریف کا نام نہ لیا ۔ اس پر نواز شریف نے چوہدری نثار کو ناراضگی بھرا فون کیا کہ انہوں نے ان کا نام کیوں نہیں لیا۔ چوہدری نثار کے بقول انہوں نے نواز شریف کو صاف کہا کہ چونکہ آپ نے مجھے فون کر کے مبارک باد نہیں دی لہٰذا آپ کا نام لے کر شکریہ ادا کرنے کی تُک نہیں بنتی تھی۔ جن لوگوں نے فون کیا ان کا شکریہ ادا کر دیا۔ اس گفتگو سے پتہ چلتا تھا کہ نواز شریف اور چوہدری نثار کے درمیان تعلقات کس حد تک نیچے جاچکے تھے۔ جب نثار علی خان رہائی کے بعد لندن گئے تو وہاں سے انہیں شہباز شریف نے جدہ بلا لیا اور وہاں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان طویل گلے شکوے ہوئے اور پھر جا کر کچھ دھول بیٹھی؛ تاہم نواز شریف کا دل زیادہ صاف نہیں ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب میں جنوری 2005ء میں سعودی عرب میں نواز شریف کا انٹرویو کرنے گیا تو پہلے تو وہ بات کرنے کو تیار نہیں تھے کہ جنرل مشرف ناراض ہوجائیں گے۔ مجھے دو دن ان کا خوف دور کرنے میں لگ گئے۔ چوہدری نثار نے بھی میری مدد کی کہ میاں صاحب آپ بات کرلیں ۔ رئوف قابل اعتبار ہے؛ تاہم میاں صاحب مشکل سے اس شرط پر راضی ہوئے کہ وہ بات تو کریں گے لیکن رئوف کہیں یہ نہیں لکھے گا کہ اس کی مجھ سے بات ہوئی۔ میں بڑا حیران ہوا تھا کہ ملک کا سابق وزیراعظم‘ جنرل مشرف سے کس قدر خوف زدہ ہے۔ پھر نواز شریف نے خوف زدہ ہوکر دوسری شرط رکھ 
دی کہ اس سارے انٹرویو کو چوہدری نثار پڑھ کر کلیئر کریں گے کہ کہیں جنرل مشرف کسی بات سے ناراض نہ ہوجائیں ۔ 
اسی گفتگو کے دوران میں نے پوچھ لیا کہ میاں صاحب آپ نے جنرل علی قلی خان کو چھوڑ کر جنرل مشرف کو کیوں آرمی چیف اور کس کے کہنے پر بنایا تھا۔ نواز شریف نے میری بات کا جواب دینے کی بجائے چوہدری نثار کی طرف دیکھ کر کہا تھا... چوہدری صاحب! فیر رئوف نوں دس دیاں کہ تسیں مشرف نوں میرے کول لائے سی...! آج میں حیران ہوتا ہوں کہ جو کل تک جنرل مشرف کا نام لیتے ہوئے ڈرتے تھے آج وہ ایسے ظاہر کرتے ہیں کہ ان سے بڑا بہادر کوئی نہیں ہے۔
آپ چوہدری نثار کا کمال دیکھیں جو دل و جان سے یہ جھوٹ بولتے رہے تھے کہ جب جنرل مشرف کو برطرف کیا جارہا تھا تو وہ اس وقت شہباز شریف کے ساتھ وزیراعظم ہائوس کے ایک کمرے میں سو رہے تھے اورانہیں اگر علم ہوتا تو وہ وزیراعظم کو روک لیتے... جب کہ ناجی صاحب کا‘ جو اس برطرفی کے گواہ ہیں‘ کہنا ہے اس برطرفی کا سب سے پہلے شہباز شریف کو علم ہوا۔ کسی نے سچ کہا تھا کہ کچھ لوگوں کو کچھ وقت کے لیے، کچھ کو کچھ برس اور کچھ کو ساری عمر کے لیے بیوقوف بنایا جا سکتا ہے لیکن سب کو ساری عمر کے لیے بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا؛ تاہم مجھے اعتراف ہے کہ چوہدری نثار نے مجھے کم از کم دس برس تک بیوقوف بنائے رکھا۔ نذیر ناجی صاحب نے پول کھول دیا ورنہ چوہدری صاحب ایسے سیاستدان‘ لوگوں کو چائے کی پیالی پر بیچ آتے ہیں اور انہیں عمر بھر پتہ نہیں چلتا؛ البتہ مجھے ناجی صاحب کے کالم کے طفیل دس برس بعد ہی سہی‘ کم از کم اتنا پتہ تو چل گیا کہ میں کسی کے جھوٹ پر دل و جان سے ایمان لے آیا تھا!! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں