ریاست ڈیلور میں ڈاکٹر عاصم صہبائی کے گھر ایک شام ہارٹ سپیشلسٹ ڈاکٹر احتشام قریشی سے ملاقات ہوئی تو یہ کہے بغیر نہ رہا گیا کہ اگرچہ ہم پہلی مرتبہ مل رہے ہیں لیکن آپ اپنے اپنے سے لگے ہیں۔
وہ مسکرائے تو میں نے کہا‘ آپ کی دلکش مسکراہٹ ہی دل کے مریضوں کو تندرست کردیتی ہوگی۔ اتنا کھلا ڈلا اور قہقہے لگانے والادل کا ڈاکٹر بہت کم دیکھا ہے۔
بولے شاہ جی...
میں حیران ہوا کیونکہ میرے نام میں تو کہیں شاہ جی نہیں آتا ۔ جب انہوں نے ڈاکٹر عاصم صہبائی، ڈاکٹر عارف، ڈاکٹر نعمان اور ڈاکٹر مہدی کو بھی باتوں باتوں میں شاہ جی کہا تو میری کنفیوژن دور ہوئی۔ وہ سب کو پیار سے شاہ جی کہتے ہیں ۔
ان سب پاکستانی ڈاکٹروں نے یہاں اپنی قابلیت کی دھاک بٹھائی ہوئی ہے۔ یہ سب ہر ویک اینڈ پر ڈنر اکٹھے کرتے ہیں اور پاکستان کے حالات پر دل جلاتے ہیں۔
عاصم صہبائی کی وجہ سے پاکستانی ڈاکٹرز جو یہاں مختلف ہسپتالوں میں کام کرتے ہیں‘ ان سب سے ہر ہفتے ملاقات ہو جاتی ہے۔ سب پاکستان کے بارے میں حیران اور پریشان ہیں کہ یہ ملک کدھر جارہا ہے۔ ان کا حساب وہی لگ رہا تھا کہ مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔ پاکستان سے کشتیاں جلا کر چلے تھے کہ امریکہ میں اچھی زندگی گزاریں گے۔ امریکہ میں کئی سالوں کی محنت کے بعد اب اچھی زندگی گزارنی شروع کی ہے تو ملک کے مسائل نے انہیں پریشان کر دیا ہے۔ اپنے ملک ، دوستوں اور گھروالوں کی فکر انہیں سونے نہیں دیتی۔
جب باتوں باتوں میں‘ میں نے ڈاکٹر احتشام سے پوچھا کہ یہاں آپ لوگوں کے پاس سب کچھ ہے‘ پھر بھی آپ لوگ کیوں پریشان ہوتے ہیں؟
وہ یکدم اداس ہوگئے اور بولے: شاہ جی کیا بات کرتے ہو۔ اب تو اپنے گھروالوں، پرانے دوستوں، محلے داروں، کالج اور ہوسٹل کے دوستوں کی یاد ستاتی ہے۔ اپنا سب کچھ تو پاکستان میں ہے۔ سارا ملک تکلیف میں ہے تو پھر میں کیسے یہاں سکون میں رہ سکتا ہوں ۔ پتہ نہیں ڈاکٹر احتشام کے ذہن میں کیا بات آئی۔ بولے ‘شاہ جی پتہ ہے‘ انسان کب بوڑھا ہوتا ہے۔
میں خاموش رہا کہ ہر وقت بھی دانشور بننا اچھا نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر احتشام قریشی بولے‘ شاہ جی‘ کسی سیانے نے درست کہا ہے ‘ جب انسان اپنی عمر چھپانے لگے تو سمجھ جائو‘ وہ بوڑھا ہورہا ہے حالانکہ ایک دور وہ بھی ہوتا ہے جب وہ اپنی عمر جان بوجھ کر ایک دوسال زیادہ بتاتا ہے تاکہ لوگ اسے سنجیدگی سے لیں اور اسے بچہ نہ سمجھیں۔ بوڑھے ہونے کی دوسری نشانی یہ ہے کہ جب انسان پرانے دوستوںکو یاد کرنے لگے تو بھی سمجھ جائو وہ بوڑھا ہورہا ہے اور تیسری ‘جب وہ یہ سمجھنا شروع ہوجائے کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے ۔
ڈاکٹر احتشام‘جو ماضی کی یادوں میں کھوئے تھے ‘بولے: شاہ جی! میں نے نشتر کالج ملتان سے 1992ء میں ایم بی بی ایس کیا تھا۔ ملتان میں بھی کیا خوبصورت وقت گزرا۔ کیسے کیسے پیارے دوست بنائے جن کی یادیں یہاں اب ریاست ڈیلور کی ٹھنڈی، پرسکون اور خاموش راتوں میں تنگ کرتی ہیں۔ تعلق تو راولپنڈی سے تھا لیکن دل ملتان میں لگ گیا تھا اور ایسا لگا کہ بائیس برس گزر گئے لیکن پھر بھی ملتان اندر سے نہیں نکلتا۔
میں خاموش سنتا رہا...!
کہنے لگے: شاہ جی‘ لیکن دل سے ایک بات نہیں نکلتی ۔ 1989ء میں میڈیکل کالج میں پڑھتا تھا کہ امریکن سینٹر اسلام آباد نے مارٹن لوتھر کنگ پر مضمون نویسی کا ایک مقابلہ کرایا۔ جس کا عنوان تھا Reflection of Pakistani youth ۔ جس کا مضمون اچھا ہوتا اسے امریکہ بھیجا جانا تھا۔ میرا مضمون بھی شارٹ لسٹ ہوا۔ انٹرویو کے لیے اسلام آباد بلایا گیا۔ امریکن سینٹر کے لوگ بھی انٹرویو پینل میں شامل تھے۔ انٹرویو ہوا ۔ میںسلیکٹ نہ ہو سکا ۔ ایک لڑکی وہ مقابلہ جیت گئی۔ بات آئی ہوگئی۔
میں گھر لوٹ گیا ۔
کچھ دنوں بعد کسی کام سے امریکن سنٹر گیا تو ایک خاتون جو انٹرویو میں بیٹھی تھی‘ اس نے دیکھا تو کہنے لگی‘ ایک بات تمہیں بتانی تھی۔ دل پر ایک بوجھ تھا ۔ تم یہ نہ سمجھنا کہ تم اس دن کوالیفائی نہیں کر سکے تھے۔ تمہارا ہی حق بنتا تھا لیکن ہمیں گورنر بلوچستان کی بیٹی کو اکاموڈیٹ کرنے کا کہا گیا تھا۔ تم اپنے بارے میں برا مت سمجھنا کہ تم اس مقابلے میں رہ گئے تھے۔ میں نے کہا : جب میں سلیکٹ نہیں ہوا تھا تو مجھے برا نہیں لگا تھا۔ میں سمجھا تھا وہ لڑکی مجھ سے بہتر ہو گی۔ آج آپ نے مجھے یہ بات بتا کر برا کیا ہے۔ اب مجھے واقعی یہ سب کچھ برا لگ رہا ہے۔
اس دن احتشام کو احساس ہوا کہ پاکستان میں طاقتور طبقات تو یہاں تک اثر و رسوخ رکھتے ہیں کہ جس کا ریفرنس اور سفارش ہے‘ وہی ترقی کر سکتا ہے ۔
پاکستان میں کچھ عرصہ رُلنے کے بعد ڈاکٹر احتشام 1996-97 ء میں خالی ہاتھ امریکہ چل پڑے۔ ان دنوں ان کی پاکستان کے ایک قابل احترام دانشور اور صحافی ابصار حسین رضوی کی صاحبزادی ڈاکٹر ریحانہ رضوی سے شادی ہوگئی۔ احتشام کے اندر ایک جوش تھا ۔ شروع میں ڈاکٹر کی نوکری نہیں ملی تو گیس اسٹیشن پر نوکری کر لی اور دو برس تک کام کیا۔ اس دوران وہ ڈلیوری بوائے بن گئے ۔ گوروں کے گھروں میں بجلی ،گیس، فون کے بل ڈراپ کیے، پوسٹرز لگائے اور آخرکار ایک ہسپتال میں ڈاکٹر کی نوکری مل ہی گئی اور آج وہی ڈاکٹر احتشام قریشی لیوس شہرمیں دل کے امراض کا سب سے مستند ڈاکٹر سمجھا جاتا ہے اور امریکی ریاست کے مہنگے ترین گھر میں رہتا ہے۔
یہ بات شاید مجھے ڈاکٹر احتشام خود اپنے بارے میں بتاتے تو شاید شک ہوتا ۔ جب ان کے ہسپتال کے ویٹنگ روم میں یہ بات ایک نوجوان نرس نے بوڑھے پریشان امریکی مریض کو بتائی تو میں متاثر ہوا کہ آپ فکر نہ کریں، ڈاکٹر احتشام ہمارے ہسپتال کے سب سے اچھے ڈاکٹر ہیں ۔
ڈاکٹر احتشام بولے: شاہ جی آپ کو پتہ ہے‘ امریکہ کی کون سی بات اچھی ہے؟
میں پھر چپ رہا۔ مجھے پتہ تھا ایسے مواقع پر جب کوئی انسان اپنی پرانی یادوں سے نبردآزما ہو اور گفتگو کررہا ہو اور آپ کو اس کے کسی سوال کے جواب کا علم ہو‘ تو بھی چپ رہنا چاہیے۔
احتشام قریشی بولیـ: یہاں آپ محنت کر کے آسمان کو چھو سکتے ہیں ۔ آپ محنت سے ان امریکیوں کے ساتھ اٹھ بیٹھ سکتے ہیں ۔ کھا پی سکتے ہیں۔ لائف گزار سکتے ہیں... یہاں کوئی کسی کوکام کا طعنہ نہیں دے گا اور نہ ہی آپ کا بیک گرائونڈ کوئی پرابلم پیدا کرے گا ۔
وہ بولتے رہے۔
شاہ جی ‘میں نے دو سال گیس اسٹیشن پر کام کیا ، لوگوں کے گھروں میں ڈاک ڈیلیور کی، پوسٹرز لگائے... میں کام کرتا رہا اور بالآخر سیٹ ہوگیا ۔
میں نے کہا: پھر تو آپ کو مطمئن ہونا چاہیے ‘آج آپ کے پاس سب کچھ ہے۔ خوبصورت اورقیمتی گھر ہے، بچے ماشاء اللہ اچھے سکولوں میں پڑھتے ہیں ۔ اچھی بیوی ہے جس نے آپ کا برے وقتوں میں ساتھ دیا ہے ۔ لوگ آپ کی عزت کرتے ہیں ۔ اور کیا چاہیے...
ڈاکٹر احتشام سنجیدہ ہوگئے اور بولے :شاہ جی‘ آج کل پرانے دوست بہت یاد آتے ہیں۔ ملتان یاد آتا ہے۔۔۔ ملتان کی شامیں اور راتیں یاد آتی ہیں ۔ پاکستان کے حالات پر دل کڑھتا ہے۔ جب سوچتا ہوں ہم یہاں اچھی زندگی گزار رہے ہیں اور پاکستان مشکلات کا شکار ہے تواپنی ترقی بھی اچھی نہیں لگتی۔
مجھے خاموش دیکھ کر ڈاکٹر صاحب بولے :شاہ جی... مجھے لگتا ہے‘ میں بوڑھا ہورہا ہوں۔۔ آج کل مجھے راولپنڈی اور نشتر کالج ملتان کے دوست بہت یاد آتے ہیں... اب میں اپنی عمر بتانے سے ڈرنے لگا ہوں... مجھے لگتا ہے وقت گزر رہاہے...!! میرے اندر بڑھاپے کی تینوں نشانیاں پیداہورہی ہیں ۔
میں نے پہلی دفعہ غور سے ڈاکٹر احتشام کو دیکھا جس کو عمر نے نہیں بلکہ پرانے دوستوں اور ماضی کی یادوں نے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا تھا ۔ کسی چوالیس پینتالیس برس کے ڈاکٹر احتشام ایسے خوبصورت انسان کو میں نے پہلی مرتبہ یادوںکے ہاتھوں بوڑھا ہوتے دیکھا تھا۔
میں خاموش رہا تو ڈاکٹر احتشام بولے: شاہ جی‘ کچھ تو بولو...
میں کیا بولتا‘ ہم دونوں کا ملتان سے مشترکہ تعلق نکل آیا تھا۔ وہ راولپنڈی اور میں لیہ میں پیدا ہوا تھا... لیکن ملتان اور ہمارے ملتانی دوست ہم دونوں کے اندر سے کبھی نہ نکل سکے۔
شاید ہر انسان کی یادوں میں ایک شہر اور شہر کی اداس طویل راتیں اور ان راتوں میں بنائے گئے دوست اور ان کی یادیں‘ ساری عمر پیچھا کرتی ہیں ۔ وہ یادیں آپ کو کہیں بھی چین نہیں لینے دیتیں‘ چاہے آپ دنیا کے ایک پرسکون اور خوبصورت کونے میں ڈاکٹر احتشام کی طرح برسوں کی گئی محنت کے بعد آرام دہ زندگی ہی کیوں نہ گزار رہے ہوں !!
ڈاکٹر احتشام اب بھی میرے بولنے کا انتظار کر رہے تھے ۔
میں پھر بھی خاموش رہا کیونکہ ڈاکٹر احتشام قریشی سے مل کر مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ان کے ساتھ اپنا کچھ سانجھا تھا...!