اٹلانٹا جارجیا سے اعجاز بھائی ایک ماہ سے ایک ہی سوال دہراتے ہیں ۔ پاکستان کیسے درست ہوسکتا ہے؟
میں نے کہا‘ اعجاز بھائی کیا بتائوں یہ ملک کیسے درست ہوسکتا ہے؟ جو کام بڑے بڑے لیڈر نہ کر سکے وہ میں کیسے کرسکتا ہوں؟صحافی کا کام سوالات کرنا ہوتا ہے جوابات دینا نہیں۔ عوام مسائل کا حل کرنے کے لیے لیڈر اور نمائندے چنتے ہیں جو پارلیمنٹ میں جاکر مسائل کو حل کرنے کی تنخواہیں لیتے ہیں اور اس قوم پر احسان کرتے ہیں ۔ میں جب ان لیڈروں کے منہ سے قوم کے درد میں مرے جانے کے بیانات سنتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کیا یہ سب مفت کرتے ہیں؟ ایک سرکاری ملازم کی طرح یہ سیاستدان، ایم این ایز، ایم پی ایز، وزراء سب ہرماہ تنخواہ لیتے ہیں ۔ لاکھوں روپے کا الائونس لیتے ہیں۔ انہیں مفت میڈیکل، سالانہ پی آئی اے کی درجنوں مفت ٹکٹیں ملتی ہیں ۔ کروڑوں کے ترقیاتی فنڈز میں لوٹ مار کرتے ہیں، ٹرانسفر پوسٹنگ پر مال کماتے ہیں... تاہم ان سے بات کر کے دیکھیں تو لگتا ہے ہر ماہ اپنی جیب سے اس ملک کے خزانے بھر رہے ہیں... ٹیکس دینے کا وقت آئے تو احسن اقبال کی جیب سے بھی گیارہ ہزار روپے ہی نکلتے ہیں۔ لینے کا وقت ہو تو اسی ہزار روپے تنخواہ، الائونس، مفت سفر، مفت گاڑی، مفت فون، مفت پٹرول، مفت انشورنس تک لیتے ہیں۔ سینٹ کی فنانس کمیٹی میں انکشاف کیا گیا کہ اسحق ڈار کے کہنے پر کاروباری دوستوں کو320 ارب روپے کی ٹیکس رعایت دی گئی۔ ان نامعلوم کاروباریوں کے ذمے واجب الادا 255 ارب روپے انکم ٹیکس بھی چھوڑ دیا گیا... ایک طرف آئی ایم ایف سے قرضے اور دوسری طرف انکم ٹیکس کی چھوٹ دوستوں کو دی گئی...
میں نے کہا اعجاز بھائی آپ کو کیا بتائوں یہ ملک کیسے ٹھیک ہوسکتا ہے؟
سیاستدان تو ایک طرف، اب سرکاری بابوئوں کی لوٹ مار کی کہانی سن لیں۔
جب بیوروکریٹس ایوان صدر میں رہتے ہوئے غریبوں کے فنڈز میں سے چودہ کروڑ روپے یہ کہہ کر نکال لیں گے کہ یہ ان کی عیدی ہے، اس کے بعد اس ملک کے حکمرانوں اور بیوروکریٹس سے کیا امیدیں رکھی جائیں؟
سپورٹس کا حال سنیں۔ پاکستان کے تین کھلاڑیوں نے چند ہزار پائونڈز کی خاطر اپنی دھرتی کو لندن میں بیچ دیا تھا ۔ ہم نے شور مچایا کہ یہ بھارتی سازش ہے۔ ہمارے کھلاڑی بے قصور ہیں۔ چند سینئر کالم نگاروںنے میرے جیسوں پر خوب تبرے کہے۔ بتایا گیا کہ ہم اپنے ملک کے خلاف اس طرح کی سازشوں کو نہیں سمجھ پاتے۔ ہم نے سمجھا‘ گوروں کی عدالتوں نے ہمارے ساتھ ناانصافی کی ہے کہ ہمارے کھلاڑیوں کو جیل میں رکھا ۔ ہم انہیں مظلوم سمجھتے رہے اور بھارت اور برطانیہ کی ایک نئی سازش۔۔
تو کیا ہوا ؟ اسی محمد آصف، محمد عامر اور سلمان بٹ نے ہزاروں پائونڈز کمانے کے بعد پاکستان لوٹ کر کچھ دن پہلے پریس کانفرنس میں معافی مانگی اور اعتراف کیا کہ انہوں نے سپاٹ فکسنگ کر کے مال کمایا تھا۔ ہم نے ان کے اعترافات کو سنی ان سنی کر دیا ۔ ہمارے لیے یہ کوئی بات ہی نہ تھی کیونکہ ہمارا اخلاقی دیوالیہ نکل چکا ہے۔ ہم سب دراصل وہی بننا چاہتے ہیں جو خرابیاں ہمارے حکمرانوں میں موجود ہیں۔ اگر اخلاقیات اور کرپشن اس ملک کا ایشو ہوتا تو آج موجودہ اور سابق کئی سیاستدان جیل میں ہوتے۔ ان میں سے کوئی اخلاقیات کے معیار پر پورا نہیں اترتا تو کوئی کرپشن میں دھنسا ہوا ہے۔ دیوالیہ پن کا حال دیکھیں کہ پاکستانیوں کے لیے یہ دونوں کوئی خاص ایشوز نہیں ہیں ۔ جب حالت یہ ہوگی تو اس ملک کو کیسے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟
باقی چھوڑیں اس تصویر کو دیکھیں جواخبارات میں چھپی ہے جس میں جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی چوہدری شجاعت حسین کو جپھا ڈال کر کھڑے ہیں۔ مجھے یاد ہے عمران خان کیسے کیسے تبرے چوہدری شجاعت پر قومی اسمبلی میں بھیجتے تھے اور ہم صحافیوں میں ان کے بینکوں سے معاف کرائے گئے قرضوں کی دستاویزات کے ثبوت تقسیم کرتے تھے۔ جس چوہدری شجاعت کی وجہ سے انہوں نے جنرل مشرف کو چھوڑا‘ آج ان کے پاس تحریک انصاف کے دو لیڈر منت ترلہ کرنے گئے کہ ہمیں الیکشن ریفارمز پر مدد دیں۔ چوہدری شجاعت کے بعد اب کسی دن تحریک انصاف کے جیالے ذرا ملتان تشریف لے جائیں اور خود آنکھوں سے دیکھیں کہ ان کی انقلابی پارٹی کے لیڈر شاہ محمود قریشی کی حویلی میں کیسے ان پڑھ مرید ان کے ہاتھ پائوں چومتے ہیں اور انہیں اجازت نہیں وہ پیٹھ موڑ کر واپس لوٹ جائیں۔ جو پیر ابھی بھی مریدوں کو گھٹنوں کے بل جھکا کر اپنی روٹی پانی چلاتا ہے وہ نیا پاکستان بننے دے گا؟
جاوید ہاشمی کی بغاوت کب کی مرچکی ۔ میں خود ایک محفل میں شریک تھا جس میں عمران خان بھی تھے۔ کھانے کی میز پر ایک لیڈر نے کچھ باتیں جاوید ہاشمی کے خلاف شروع کیں تو عمران خان نے کھانا روک لیا اور بڑی دلچسپی سے بولے‘ مجھے ہاشمی کے بارے میں مزید بتائو ۔ وہ لیڈر پندرہ منٹ تک جاوید ہاشمی کے کارناموں پر روشنی ڈالتا رہا اور عمران خان ہنس کر سنتے رہے۔ میں نے تحریک انصاف کے ایک سمجھدار لیڈر کو فون کر کے پوچھا کہ جناب یہ کیا کہانی ہے؟ عمران خان کیوں جاوید ہاشمی کے خلاف ثبوت اکٹھے کرتے پھر رہے ہیں؟ وہ بولا‘ عمران خان کے سر سے جاوید ہاشمی کا بھوت اس دن اتر گیا تھا جب الیکشن کے دوران ٹکٹوں کے معاملے پر کچھ ثبوت پیش کیے گئے اور عمران سر پکڑ کر بیٹھ گئے تھے کہ ان کا باغی بھی چمک کاشکا ر ہوگیا تھا ۔
میں خود صدمے کی حالت میں سنتا رہا۔ اگر چمک کا شکار ہونا ہی تھا تو پھر جنرل مشرف کے دور میں اتنی لمبی قید کاٹنے کی کیا تُک بنتی تھی؟ اپنی قیمت اس وقت ہی وصول کر لیتے۔ جیل میں ماریں کھانے اور بچوں سے دور رہنے کا کیا فائدہ؟
اعجاز بھائی کا سوال ابھی اپنی جگہ موجود تھا کہ یہ ملک کیسے بدلے گا ۔
میں نے کہا‘ بھائی صاحب بھول جائیں‘ یہ تنخواہ دار لیڈر اس ملک کو کبھی بدلیں گے کیونکہ یہ اسٹیٹسں کو انہیں سوٹ کرتا ہے۔ طاہرالقادری کے بارے میں چاہے کچھ کہیں کہ وہ غیرملکی طاقتوں کے آلہ کار ہیں‘ ایجنٹ ہیں لیکن ان کی باتیں دل کو لگتی ہیں ۔ وہ درست کہتے ہیں کہ اسٹیٹس کو توڑنے کے لیے 35 صوبے بنائیں۔ اتنی تعداد میں نئے صوبے نئی لیڈرشپ اور پڑھے لکھے لوگ سامنے لا سکتے ہیں ۔ عام آدمی الیکشن اور جمہوریت کا حصہ بن سکتا ہے۔ موجودہ اسٹیٹس کو عمران خان، زرداری اور نواز شریف کو سوٹ کرتا ہے۔ کوئی رسک لینے کو تیار نہیں کہ اگر اسٹیٹس کو بدلا تو وہ کہاں کھڑے ہوں گے۔ اس سال نیشنل فنانس کمشن کی مد میں چاروں صوبوں کو 15 سو ارب روپے کی رقم ملی ہے۔ پنجاب کو 7 سو ارب روپے ملے ہیں۔ آپ تصورکریں کہ اگر لاہور کو پچاس ارب ملتے اور باقی ساڑھے چھ سو ارب روپے 35 اضلاع میں تقسیم ہوجاتے تو ترقی کہاں جا پہنچتی؟ ہر سال ایک ضلع کو پانچ سے دس ارب ملتے تو پانچ برس میں وہ ضلع کہاں جاپہنچتا ۔
یہ وہ تبدیلی ہے جو کوئی لانے کو تیارنہیں ہے۔ اس لیے اس ملک میں کوئی نئے صوبے نہیں چاہتا کیونکہ پھر ہر صوبے کو این ایف سی سے حصہ دینا پڑے گا اور وہ صوبہ اگر کسی اچھے ایماندار وزیراعلیٰ کے ہاتھ لگ گیا تو راتوں رات اس کی قسمت بدل سکتی ہے۔
موجودہ سسٹم ان سیاستدانوں اور ان کے بچوں کو سوٹ کرتا ہے۔ ایک بابو کے ساتھ مل کر وہ ضلع پر حکومت کرتے ہیں۔ لوٹتے ہیں اور کسی کو آگے نہیں آنے دیتے۔ اس ملک کی ترقی اس طرح ہی ممکن تھی کہ ضلعی حکومتوں کو چلنے دیا جاتا یا پھر طاہر القادری کی بات مان کر 35 صوبے بنا دیے جائیں اور ان سب اضلاع کو آبادی، غربت اور پسماندگی کی بنا پر این ایف سی سے پیسے ملتے۔
میں نے کہا اعجاز بھائی ترقی کرنے کا ایک نسخہ اور بھی ہے۔ ہر پاکستانی یہ فیصلہ کرے کہ اس نے اس ملک کو نہیں لوٹنا ، اس نے کوئی غلط کام نہیں کرنا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے وہ خود لوٹ مار کرے، کرپشن کرے، غلط کام کرے، رشوت لے اور لیڈروں سے توقع کرے کہ وہ ان کے اربوں روپے نہیں لوٹیں گے؟ کتنے عام لوگ ہوں گے کہ سڑک پر کسی کا قیمتی موبائل فون گرا ہوا ملے اور وہ اس کے مالک کو ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے؟
اگر آپ اچھے لیڈر چاہتے ہیں تو پہلے اچھے شہری بن کر دکھائیں۔ یہ ملک واقعی خطرے میں ہے... یہ ملک ہمارے لیڈروں اور حکمرانوں سے زیادہ اب ہماری اپنی وجہ سے خطرے میں ہے کیونکہ ہم نے خود کو کبھی درست کرنا نہیں سیکھا اورنہ ہی کریں گے۔میں چاہتا ہوں میرے اوپر حکومت تو فرشتے کریں لیکن میں خود سلطانہ ڈاکو بن کر زندگی گزاروں۔ اگر میں سلطانہ ڈاکو ہوں توپھر لیڈر بھی سلطانہ ڈاکو ہی بنے گا ۔
ہم سب کے اندر ایک سلطانہ ڈاکو موجود ہے۔ یہ سلطانہ ڈاکو بمقابلہ سلطانہ ڈاکو کا کھیل چل رہا ہے۔ ہم چھوٹے لیول کے سلطانہ ڈاکو ہیں اور وہ بڑے لیول کے لیکن یہ طے ہے جب تک ہم خود ڈاکے مارنے سے باز نہیں آئیں گے، سلطانہ ڈاکو ہی ہمارے اوپر حکمرانی کرے گا...!