اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف کی زیرصدارت جمعرات کے روز بجٹ کے اعلان سے قبل نیشنل اکنامک کونسل کے اجلاس میں36 ارب روپے پس ماندہ علاقوں کے لیے مختص کرنے کے فیصلے اور برطانیہ سے محمد حسن بچہ کی ای میل کا کیا تعلق بنتا ہے، اس کے لیے پہلے آپ کو یہ ای میل پڑھنا ہوگی۔
''میں محمد حسن بچہ ، پی ایچ ڈی ہوں ۔ نیوکاسل یونیورسٹی کے بزنس سکول میں لیکچرر ہوں۔ یوسف رضاگیلانی‘ کرپشن کے الزامات ہونے کے باوجود‘ واحد سیاستدان تھے جو سرائیکی علاقوں میں کچھ فنڈز لائے تھے۔ ان کے بعد یہ پنجاب حکومت کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ نامکمل منصوبوں کو مکمل کراتی۔ دوسری طرف پچھلے سال لاہور میں اربوں روپے کے نئے منصوبے نہ صرف شروع ہوئے بلکہ مکمل بھی ہوگئے جن میں میٹرو بس، کلمہ چوک انڈرپاس وغیرہ شامل ہیں جنہیں ریکارڈ مدت میں مکمل کیا گیا ۔ اب 166 ارب روپے کی میٹرو ٹرین کی باری ہے۔ ملتان کے نامکمل منصوبوں پر کام مکمل کیا جاتا توآج بہت فائدہ ہوتا ۔ یورپین یونین نے بھارت سے آم منگوانے پر پابندی لگا دی ہے ۔ پاکستان یہ آم یورپین یونین کو ملتان سے براہ راست بھیج سکتا تھا کیونکہ ملتان میں گیلانی کے دور میں ایک انٹرنیشنل ایئر پورٹ تعمیر ہورہا تھا جو آج تک مکمل نہیں ہوا ۔ اس سے ملک کا فائدہ بھی ہوتا اور جنوبی پنجاب کے کسانوں کو بھی آموں کا مناسب معاوضہ مل جاتا ۔آپ اس معاملے کو اٹھائیں کیونکہ ہمیں جاوید ہاشمی ہوں، شاہ محمود قریشی یا پھر وزیر سکندر بوسن ہو، ان سے توقع نہیں ہے کہ وہ جنوبی پنجاب کے لیے کوئی آواز آٹھائیں گے‘‘۔
اب آپ نواز شریف کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس کے روداد سنیں ۔
فیصلہ ہوا کہ ملک بھر کے پس ماندہ علاقوں کے لیے بجٹ میں چھتیس ارب روپے رکھے جائیں گے۔ بلوچستان پندرہ ارب، سندھ آٹھ ارب، خیبر پختون خوا اور فاٹا چار چار ارب، آزاد کشمیر تین ارب روپے اور گلگت بلتستان دو ارب روپے۔
آپ نے غور فرمایا؟ پنجاب کا نام اس فہرست میں شامل نہیں۔
پنجاب میں ہر طرف دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں ۔ لاہور کو پنجاب سمجھ لیا گیا ہے لہٰذا باقی 35 اضلاع کو ترقی کی ضرورت نہیں رہی۔ مجھے ضلع لیہ سے ای میل ملی ہے۔ اس سال جو چند لاکھ روپے ترقیاتی بجٹ ملا تھا وہ پورا خرچ نہیں ہوا اور واپس لاہور بھیج دیا گیا ہے۔ اگر یہ درست ہے تو پھر باقی اضلاع کا بھی یہی حال ہوا ہوگا ۔ شمالی پنجاب اور جنوبی پنجاب کے پس ماندہ علاقوں کو ترقی کی ضرورت نہیں رہی‘ لہٰذا چھتیس ارب روپے میں سے پنجاب کے کسی ضلع کو ترقی نہیں چاہیے؟
شوکت عزیز نے مجھے بتایا تھا کہ سروے کے مطابق پنجاب میں ضلع لیہ سب سے زیادہ غربت کا شکار ہے اور وہ اس کے لیے نیا فارمولا بنا رہے تھے کہ جو ضلع زیادہ غریب ہے وہاں زیادہ فنڈز دیے جائیں۔ تاہم 2008ء کے بعد شہباز شریف نے یہ فارمولا بدل دیا۔ لاہور کو پیسے اور ترقی کی زیادہ ضرورت ہے لہٰذا پرویزالٰہی دور میں لیہ میں بننے والے ہسپتال پر کام روک کا فنڈز لاہور منگوا لیے گئے تھے۔ نواز شریف کی صدارت میں یہ بھی فیصلہ ہوا کہ ملک کے چاروں صوبائی دارالخلافوں میں کینسر ہسپتال بنیں گے۔ لاہور میں پہلے شوکت خانم ہے اور ہر ہسپتال میں وارڈز ہیں ۔ ملتان نشتر ہسپتال میں چند بستروں کا ایک کینسر وارڈ ہے جو جنوبی پنجاب کی چھ کروڑ آبادی کے لیے ہے۔ ہر سال کینسر کے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ بلوچستان، سندھ اور خیبر پختون خوا کے چند اضلاع کے مریض بھی نشتر کینسر وارڈ میں جاتے ہیں ۔ نشتر کے بعد کوئی نیا ہسپتال نہیں بنا۔ آبادی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ سب توجہ لاہور پر ہے۔
روزنامہ 'دنیا‘ کی رپورٹ تھی کہ پنجاب میں ترقیاتی بجٹ میں سے صرف 15 فیصد خرچ ہوا تھا ۔ وفاقی ترقیاتی بجٹ بھی 15مئی تک صرف 57 فیصد خرچ ہوا ہے جب کہ 85 فیصد خرچ ہونا چاہیے تھا ۔ باقی کا پیسہ کہاں جارہا تھا؟ حیران نہ ہوں ۔ بچائے ہوئے یہ اربوں روپے راتوں رات سپلیمنٹری گرانٹ کے ذریعے لاہور میٹرو ٹرین کے166 ارب روپے کے منصوبے کو شفٹ ہوں گے‘ جیسے پچھلے سال میٹرو بس اور لاہور کلمہ چوک انڈر پاس کو ہوئے تھے۔ پنجاب میں ایک نیا طریقہ ڈھونڈ لیا گیا ہے۔ سارا سال ترقیاتی فنڈز کی رقوم ریلیز نہ کرو اور آخری ماہ میں سپلیمنٹری گرانٹ کے نام پر اربوں روپے بڑے پراجیکٹ کے لیے ریلیز کر دو ۔ پچھلے سال سو ارب روپے سے زیادہ رقوم لاہور میں میٹرو بس اور انڈر پاس کے لیے سپلیمنٹری گرانٹس کے ذریعے ریلیز کی گئیں جو پنجاب کے سالانہ بجٹ کا حصہ ہی نہ تھیں۔
اس طرح پنجاب کو اس سال این ایف سی سے سات سو ارب روپے ملے اور کسی کو کچھ علم نہیں کہ پنجاب کے کس ضلع کو کیا ملا ہے۔ لاہور کا سب کو علم ہے۔ اگر انصاف سے کام لیتے تو این ایف سی میں سے پنجاب کے36 اضلاع میں سے ہر ایک کو سالانہ اوسطاً دس سے پندرہ ارب روپے ملنے چاہئیں تھے‘ مگر سب کچھ لاہور پر لگ گیا۔ جنوبی پنجاب کو این ایف سی کے سات سو ارب روپے میں سے مونگ پھلی کے برابر بھی حصہ نہیں ملتا ۔ یہی حال شمالی پنجاب اور مرکزی پنجاب کے چند اضلاع کا ہے۔
اور سن لیں ۔ فرانس اور جرمنی نے چار سو سکالرشپ ہائر ایجوکیشن کمشن کو پاکستانی یونیورسٹیوں کے لیے دیے۔ ہائر ایجوکشن کے قائم مقام سربراہ نے وہ سب سکالرشپس لاہور، کراچی، اسلام آباد اور پشاور کی یونیورسٹیوں میں بانٹ دیے۔ ایک بھی سکالرشپ ملتان، بہاولپور، ڈیرہ اسماعیل خان یا اندرون سندھ کی کسی یونیورسٹی کو نہ ملا۔ انعام کے طور پر اسے مستقل چیئرمین بنا دیا گیا۔ اسی طرح جب پچھلے سال الیکشن کے بعد خواتین کی ساٹھ مخصوص نشستوں کو پُر کرنے کا وقت آیا تو صرف لاہور شہر سے 34 خواتین کو ایم پی اے بنا دیا گیا جن میں زیادہ تر وہ ہیں جن کا تعلق لاہور شہر کے پوش علاقوں سے ہے اور نام کے آخر میں بٹ لگتا ہے۔
لاہور میں گارمنٹس سٹی بن رہا ہے جو ہزار ایکٹر پر محیط ہوگا۔ اربوں روپے خرچ ہوں گے۔ کاٹن جنوبی پنجاب سے آئے گی لیکن یہاں کے لوگوں کو وہاں نوکری نہیں ملے گی ۔ پہلے بھی فیصل آباد کی فیکٹریوں میں جنوبی پنجاب کے لوگ آکر مزدوری کرتے ہیں۔ یوں جنوبی پنجاب سے سینٹرل پنجاب کی طرف لوگوں کی ہجرت جاری ہے جس سے وہاں کے انفراسٹرکچر پر دبائو بڑھ رہا ہے لیکن اس کی پروا کس کو ہے۔
'دنیا‘ ٹی وی کی رپورٹ مطابق 80 کے قریب ایم پی ایز نے پچھلی اسمبلی میں ایک بار بھی بات نہیں کی۔ میں شرط لگانے کو تیار ہوں ان میں اکثریت ملتان، ڈیرہ غازی خان، لیہ، مظفر گڑھ، بہاولپور کے علاقوں سے آئے گونگے ایم پی ایز کی ہوگی ۔ وہ جو اپنے علاقوں میں پہلوان بنے رہتے ہیں‘ لاہور میں سیکشن افسر تک کے سامنے خوف کے مارے بات نہیں کر سکتے، وزیراعلیٰ تو بہت دور کی بات ہے اور اس خاموشی کی قیمت محض تھانیدار، پٹواری اور خواتین اساتذہ کے تبادلے۔ یہی حالت قومی اسمبلی کی ہے۔ جنوبی پنجاب کے پچاس ایم این ایز میں سے کوئی نہیں بولتا۔ جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی کی ویسے ہی شان کے خلاف ہے وہ قومی اسمبلی میں ملتان اور جنوبی پنجاب کے خلاف ہونے والی زیادتی پر آواز اٹھائیں۔ جمشید دستی ملک سے فحاشی ختم کرنے کی مہم پر نکلے ہوئے ہیں۔
تو پھر جنوبی پنجاب کا مقدمہ کون لڑے گا؟
بیوروکریسی میں پہلے ہی کوٹہ نہ ہونے کی وجہ سے افسر نہیں ہیں۔ جو چند ہیں وہ بھی سیاستدانوں کی طرح حصہ لے کر خاموش رہتے ہیں۔ سرائیکیوں نے پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کو ہرایا اور سولہ آزاد ایم این ایز اور چونتیس ایم پی ایز کو ووٹ دیے تھے‘ مگر وہ سب رائے ونڈ جا کر جھک گئے۔ کچھ امید سابق صدر لغاری کے بیٹوں اویس لغاری اور جمال سے تھی‘ مگر اویس قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کا چیئرمین لگ گیا۔ اسے اب اسلام آباد میں ایک سرکاری کار اور مفت پٹرول اور ڈرائیور ملے گا۔ یہ ہے وہ ڈیل جو ہمارے جنوبی پنجاب کے سیاستدان کرسکتے ہیں۔ شور مچائیں تو تخت لاہور کے حکمران اور دانشور اعتراض کرتے ہیں کہ آپ کے علاقوں کے سیاستدان ہی ترقی نہیں چاہتے تو ہم کیا کریں۔ مان لیا وہ نہیں چاہتے اور آپ بھی ہماری ترقی نہیں چاہتے تو پھر سرائیکی علاقوں کے نام پر این ایف سی سے سات سو ارب کیوں لیتے ہو؟
جاتے جاتے ایک بات اور۔ نواز شریف نے لاہور اسلام آباد موٹر وے کی مرمت کے نام پر 36 ارب روپے کی منظوری دی ہے لیکن اسی اجلاس میں این ایچ اے کہتا ہے کہ خانیوال لودھراں روڈ ڈبل کرنے کے لیے فنڈز نہیں ہیں ۔ بہاولپور ریڈیو کی عمارت گرنے کے قریب ہے، پرویز رشید فرماتے ہیں پیسے نہیں ہیں ۔ کبھی میانوالی سے ملتان جانے والی سڑک پر سفر کر کے دیکھ لیں تو سمجھ آجائے گی کہ ان علاقوں کے ساتھ کیسا بدترین سلوک کیا جارہا ہے۔ اپنے اپنے علاقوں میں پہلوان اور لاہور اسلام آباد میں بھیگی بلی بنے یہ گونگے ایم این اے، سینیٹر یا پھر ایم پی اے کچھ بولیں گے یا پھر... کچھ وزیر، کچھ چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی بن کر اور کچھ تھانیدار، پٹواری اور خواتین اساتذہ کے تبادلے کرا کے‘ یونہی منقار زیر پر رہیں گے؟
دیکھ لیا آپ نے؟ پنجاب کو این ایف سی سے ملنے والے سات سو ارب روپے سالانہ کی غیرمنصفانہ تقسیم پر مجرمانہ خاموشی کی کتنی چھوٹی قیمت لگواتے ہیں میرے پیارے سرائیکی وسیب کے یہ سیاسی پہلوان!!