"RKC" (space) message & send to 7575

آسمان گرتا ہے تو گرنے دو!

یکم جون کو بھارت میں 29 ویں ریاست یا صوبے کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ صوبہ لسانی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔ بھارت میں دیکھتے ہی دیکھتے کئی نئے صوبے بن گئے۔ بھارتی پنجاب تک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا لیکن وہاں آسمان نہ گرا۔ ہمارے ہاں کوئی صوبوں کی بات کر ے تو فوراً افراتفری مچ جاتی ہے۔ 
ہم نے ون یونٹ ٹوٹنے کے تقریباً پچاس برس بعد پچھلے سال الیکشن سے قبل نئے صوبوں کے قیام پر بات شروع کی تھی۔ پتہ چلا اگر ملک میں نئے صوبے بنے تو آسمان گر پڑے گا۔ بے چارے آسمان کو گرنے کی زحمت سے بچانے کے لیے نئے صوبوں کا معاملہ ختم کر دیا گیا۔ جب ون یونٹ توڑ کر صوبے بحال کیے گئے تھے تو بہاولپور ریاست کو اس عمل میں شامل نہ کیا گیا اور کوئی آسمان نہ گرا۔ اب اگر بہاولپور صوبہ بنا تو گر پڑے گا۔ ہندوستان دور کی امیر ترین ریاست کا آج یہ حال ہے کہ بہاولپور ریڈیو کی عمارت گرنے کے قریب ہے‘ مگر اس کی مرمت کے لیے فنڈز نہیں ہیں۔ 
بڑے صوبے قائم رہنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر شہر میں سٹریٹ کرائمز بڑھ گئے۔ بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا۔ خوفناک جرائم ہونے لگے۔ لاہور سٹریٹ کرائمز کے حوالے سے سب سے آگے ہے۔ ایک شہر پر ترقی کے دروازے کھولنے کا نقصان خود لاہوریوں کو ہورہا ہے اور مزید ہوگا ۔ صوبے کے پس ماندہ علاقوں سے لوگوں نے بہتر زندگی اور مزدوری کے لیے اس شہر میں آباد ہونا شروع کر دیا‘ جیسے کبھی لوگ کراچی کا رُخ کرتے تھے۔ اب لاہور میں نئی کچی آبادیاں بننا شروع ہوں گی جہاں جرائم پرورش پائیں گے۔ ڈاکے بڑھیں گے۔ انفراسٹرکچر پر دبائو بڑھے گا اور پتہ چلے گا کہ لاہور کی ترقی اور اس کے میگا پروجیکٹ ہی اس کے دشمن بن گئے ہیں۔ خدشہ ہے کہ ایک دن لاہور بھی بے پناہ آبادی اور جرائم کے بوجھ تلے ویسے ہی دب جائے گا جیسے کراچی دب چکا ہے۔ 
ہمارے دانشوروں نے ایک نیا نعرہ لوگوں کو دے رکھا ہے کہ اگرپنجاب کی تقسیم کی گئی تو خدانخواستہ ملک ٹوٹ جائے گا ۔ ایک اور نعرہ ہے صوبے لسانی بنیادوں پر نہیں بننے چاہئیں۔ لسانیت سے نفرت کی اپنی تاریخ ہے۔ سامراج اور بیرونی حملہ آور ہمیشہ مقامی زبان، ثقافت اور روایات سے خوفزدہ رہتے تھے۔ جہاں بھی حملہ آور گئے انہوں نے تلوار کے زور پر وہاں کی تہذیب اور زبان کو ختم کرنے کی کوشش کی اور یہ احساس دلایا کہ زبان پر فخر کرنا ایسا جرم ہے جس کی کوئی معافی نہیں۔ مقامیوں میں احساس کمتری پیدا کیا ۔ بیرونی حملہ آوروں نے اپنی بقا کے لیے اپنی زبان اور اپنی ثقافت ہی مقامی لوگوں پر تھونپی۔ اگر شک ہے تو میل گبسن کی فلم 'Brave heart ‘ دیکھ لیں۔ کیسے برٹش ایمپائر نے قانون بنا دیا تھا کہ مفتوحہ علاقے کی دلہن پہلی رات اس علاقے کے انگریز لارڈ کے ساتھ بسر کرے گی تاکہ مستقبل کی نسل کو اپنا وفادار بنایا جائے۔ بعد میں یہی قانون وہاں بغاوت کا سبب بن گیا تھا۔ 
آج اگر کوئی اپنی زبان اور ثقافت کی بات کرتا ہے تو اسے یوں دیکھا جاتا ہے جیسے وہ پاکستان توڑنا چاہتا ہے۔ یہ بات کوئی نہ سمجھ سکا کہ جب تک آپ لوگوں کی زبان، ثقافت، تاریخ اور تہذیب کا احترام نہیں کریں گے وہ کیسے ریاست کے وفادار رہیں گے؟ اپنی زبان، علاقہ اور ثقافت سے محبت ہر انسان کے خون میں شامل ہیں۔ ہم نے الٹا کام کیا۔ دنیا بھر میں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں، ہزاروں کلچر موجود ہیں ۔ نسل اور رنگ کی تفریق ہے۔ فطرت کی اس خوبصورتی کو دنیا کے کسی اور خطے میں اس طرح برا نہیں سمجھا جاتا جتنا ہمارے ہاں اسے جرم بنا دیا گیا ہے۔
اب ذرا غور فرمائیں‘ جنوب میںایک نیا صوبہ بنتا ہے۔ پنجاب کو اس وقت این ایف سی میں سے سالانہ سات سو ارب روپے ملتے ہیں۔ مجوزہ نئے صوبے کو اگر این ایف سی سے دو سو ارب روپے ملتے ہیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ اس نئے صوبے کے تیرہ اضلاع کو کم از کم پندرہ ارب روپے سالانہ مل سکتے ہیں ۔ پانچ سالوں میں ایک ضلع کو ستر سے پچھتر ارب روپے مل سکتے ہیں۔ بیوروکریسی اور سیاستدان مل کر ان پانچ سالوں میں بیس ارب روپے بھی کھا لیں، پھر بھی پچاس ارب روپے سے ایک ضلع پانچ سالوں میں پیرس بن سکتا ہے۔ نئے صوبے میں اپنا پبلک سروس کمشن بیروزگار نوجوانوں کو نوکریاں دے سکتا ہے۔ ایک سیکرٹریٹ اور صوبائی اسمبلی میں ہزاروں نوکریاں پیدا ہوسکتی ہیں ۔ فیڈرل پبلک سروس کمشن میں اس کا اپنا سروس کا کوٹہ ہوسکتا ہے۔ سینٹ میں اس کی بیس نئی سیٹیں ہوسکتی ہیں۔ اس طرح شمالی پنجاب میں بھی پوٹھوہاری صوبہ بن سکتا ہے جہاں دس اضلاع کو این ایف سی میں سے دو سو ارب روپے مل سکتے ہیں۔ تصور کریں پوٹھوہار صوبہ کے ہر ضلع کو اگر این ایف سی سے سالانہ پندرہ سے بیس ارب روپے ملے تو ترقی کہاں جائے گی اور پانچ برس میں ستر ارب روپے حصہ ملے تو ؟ مرکزی پنجاب میں بھی دس پندرہ اضلاع پر ایک نیا صوبہ بن سکتا ہے جہاں بقیہ کے تین سو ارب ( جنوبی اور شمالی پنجاب سے ایک سو ارب روپے زیادہ ) سے ان اضلاع کی ترقی بھی آسمان پر پہنچ سکتی ہے۔ یوں سالانہ سات سو ارب روپیہ جو اب صرف لاہور پر خرچ ہورہا ہے، پنجاب کے کونے کونے میں پہنچ سکتا ہے اور ترقی کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔ 
اسی طرح سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں بھی یہ اہم تبدیلیاں کی جانی چاہئیں۔ ان نئی تبدیلیوں سے دیہاتیوں اور پس ماندہ لوگوں کو فائدہ جب کہ بڑے شہروں کو نقصان ہوگا اور اسی لیے شہری دانشور اور سیاستدان ہمیشہ اس کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ انہیں این ایف سی سے ملنے والے اربوں روپے ہڑپ کرنے کا چسکا پڑ چکا ہے۔ کوئی صوبہ اپنے ہر ضلع کو سالانہ پندرہ ارب روپے یا پانچ سالوں میں پچھتر ارب روپے دینے کو تیار نہیں۔ سندھ کو این ایف سی سے چار سو ارب روپے سالانہ ملتے ہیں۔ کسی کو معلوم نہیں کہ سانگھڑ، گھوٹکی، لاڑکانہ، دادو، جیکب آباد یا دیگر اضلاع کو اس میں سے کیا ملتا ہے؟ 
چاروں صوبے سٹیٹس کو کا شکار ہیں اور یہ صورتحال موجود کرپٹ سیاسی نظام اور خاندانی سیاست کو مزید مضبوط کر رہی ہے۔ ان چار صوبوں سے کوئی نئی لیڈرشپ نہیں نکلے گی۔ یہی وڈیرے، جاگیردار، سردار، خان، لغاری، قریشی، شریف اور ان کی نسلیں ہم پر حکمرانی کریں گی ۔ صوبہ تو دور کی بات ہے جب ضلعی ناظموں کو طاقت ملی تو بیوروکریسی کے ساتھ مل کر انہی سیاستدانوں نے ضلعی حکومتوں کا گلا گھونٹا اور کہا کہ ناظم کرپٹ تھے۔ مان لیا ناظم کرپٹ تھے تو کیا پچھلے پانچ چھ برسوں میں جو لوٹ مار کی گئی وہ ناظموں سے کم تھی؟ ضلعی نظام سے خوفزدہ ہونے کی وجہ یہی تھی کہ ناظموں نے وزیروں، ایم این ایز، اور ایم پی ایز کی روایتی گدیوں کے لیے خطرات پیدا کردیے تھے۔ نوے ہزار کونسلر ایک نئی قیادت بن کر ابھر رہے تھے۔ لوگوں میں احساس پیدا ہورہا تھا کہ وہ اپنے مسائل خود حل کر سکتے ہیں۔ یہ وہ احساس تھاجسے ختم کرنے کے لیے ضلعی حکومتیں ختم ہوئیں ۔ ڈپٹی کمشنر دوبارہ لائے گئے اور ملک کو وہیں پہنچا دیا گیا جہاں سے یہ چلا تھا۔ 
اگر اس ملک میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے اور کرپٹ سٹیٹس کو ٹوٹ سکتا ہے تو ایسا انقلاب پورے مالی اور انتظامی اختیارات کے ساتھ طاقتور ضلعی حکومتیں یا پھر نئے صوبے لا سکتے ہیں ۔ نئی لیڈرشپ موجودہ نظام کے ساتھ نہیں ابھر سکے گی۔ عمران خان نے کوشش کی تھی لیکن اسے بھی بعض لوگوں نے ہائی جیک کر لیا اور آج عمران خان بھی اسی سٹیٹس کو کے حامی بن چکے ہیں جس کے حامی نواز شریف اور زرداری ہیں۔ اس ملک میں تبدیلی مقامی سطح سے لانی پڑے گی۔ اس کے لیے سب قوموں اور زبانوں کو تسلیم کرنا ہوگا اور اپنے ذہنوں سے یہ بات نکالنا ہوگی کہ اگر کوئی نیا صوبہ بنا تو آسمان گر پڑے گا۔ 
حال ہی میں نئی انگریزی فلم 'Belle‘ دیکھی ہے۔ یہ شاندار فلم برطانوی سامراج میں انسانی غلامی کو غیرقانونی قرار دینے کی کوششوں کے حوالے سے ہے۔ لارڈ مینز فیلڈ جسٹس کے ان الفاظ کے رومانس میں‘ میں ابھی تک ڈوبا ہوا ہوں‘ جب وہ ہر طرف سے اپنے جیسے گوروں کی شدید نفرت، دبائو اور مخالفت کے باوجود اپنی عدالت میں لگے ایک مقدمے میں انسانی غلامی کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے زور سے کہتا ہے: ''جو آسمان گرتا ہے، آج اسے گرنے دو‘‘۔ اور لارڈ مینز فیلڈ کے اس حکم سے آسمان نہیں گرا بلکہ برطانوی سماج ایک نئے رشتے میں بندھ گیا جہاں اس فیصلے کے تین سو سال بعد آج انہی کالے غلاموں کے بچے اپنے ماضی کے گورے مالکوں کی نئی نسلوں کے ساتھ ایک سکول میں پڑھتے اور ایک دوسرے سے شادیاں رچاتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں